Taiseer-ul-Quran - Al-Maaida : 29
اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ١ۚ وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ
اِنِّىْٓ : بیشک اُرِيْدُ : چاہتا ہوں اَنْ تَبُوْٓاَ : کہ تو حاصل کرے بِاِثْمِيْ : میرا گناہ وَاِثْمِكَ : اور اپنا گناہ فَتَكُوْنَ : پھر تو ہوجائے مِنْ : سے اَصْحٰبِ النَّارِ : جہنم والے وَذٰلِكَ : اور یہ جَزٰٓؤُا : سزا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ سب کچھ سمیٹ لے اور اہل دوزخ سے ہوجائے 61 اور ظالم لوگوں کی یہی سزا ہے
61 یعنی ناحق قتل کرنے والے کی سزا صرف یہی نہیں ہوتی کہ اسے اس جرم کے عوض جہنم میں ڈال دیا جائے بلکہ اس کے ساتھ مقتول کے گناہ بھی اس کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ چناچہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر مجھے دو لشکروں یا دو صفوں میں سے کسی ایک صف میں زبردستی لایا جائے پھر کسی شخص کی تلوار میری گردن اڑا دے یا کسی کا تیر مجھے مار ڈالے تو ؟ آپ نے فرمایا قاتل اپنے اور تیرے گناہ سمیٹ کر اللہ کے پاس آئے گا اور وہ جہنمی ہے (اور تم پر کوئی گناہ نہیں) (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن مواقع القطر) نیز کئی احادیث میں صراحت سے مذکور ہے کہ قیامت کے دن ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
Top