Urwatul-Wusqaa - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
پس چاہیے کہ جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے تم اور وہ سب جو توبہ کر کے تمہارے ساتھ ہو لیے ہیں استوار ہوجاؤ اور حد سے نہ بڑھو یقین کرو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے
حکم الٰہی کے مطابق آپ اور آپ کے ساتھی استوار ہو جائو اور حد سے تجاوز نہ کرو ۔ 139 اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ دین کے راستہ پر اس طرح مستقیم رہئے جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی مستقیم رہیں جو کفر سے توبہ کر کے آپ کے ساتھ ہوگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مقرر حدود سے نہ نکلو کیونکہ وہ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ ” استقامت “ کے معنی سیدھا کھڑا رہنے کے ہیں جس میں کسی طرف ذرا سا جھکائو بھی نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام آسان نہیں ، کسی لوہے پتھر وغیرہ کے عمود کو ماہر انجینئر ایک مرتبہ اس طرح کھڑا کرسکتے ہیں کہ اس کے ہر طرف زاویہ قائمہ ہی رہے کسی طرف ادنیٰ میلان نہ ہو لیکن کسی متحرک چیز کا ہر وقت ہر حال میں اس حالت پر قائم رہنا کس قدر مشکل ہے وہ اہل بصیرت سے مخفی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں کو اس آیت میں اپنے ہر کام میں ہر حال میں استقامت پر رہنے کا حکم فرمایا گیا اور ” استقامت “ کا لفظ تو چھوٹا سا ہے مگر مفہوم اس کا ایک عظیم الشان وسعت رکھتا ہے کیونکہ معنی اس کے یہ ہیں کہ انسان اپنے عقائد ، عبادات ، معاملات ، اخلاق ، مشعارت ، کسب معاش اور اس کی آمد و صرف کے تمام ابواب میں اللہ جل شانہ کی قائم کردہ حدود کے اندر اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر سیدھا چلتا رہے ان میں سے کسی باب کے کسی عمل اور کسی حال میں کسی ایک طرف جھکائو یا کمی ، زیادتی ہوجائے تو استقامات باقی نہیں رہتی۔ دنیا میں جتنی گمراہیاں اور عملی خرابیاں آئی ہیں وہ سب اس استقامت سے ہٹ جانے کا نتیجہ ہوتی ہیں ، عقائد میں استقامت نہ رہے تو بدعات سے شروع ہو کر کفر و شرک تک نوبت پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ذات وصفات کے متعلق جو معتدل اور صحیح اصول رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائے اس میں افراط وتفریط یا کمی بیشی کرنے اولے خواہ نیک نیتی ہی سے اس میں مبتلا ہوں گمراہ کہلائیں گے۔ ابنیاء کرام کی عظمت و محبت کی جو حدود مقرر کردی گئی ہیں ان میں کمی کرنے والوں کا گمراہ و گستاخ ہونا تو سب ہی جانتے ہیں ان میں زیادتی اور غلو کر کے رسول اللہ ﷺ کو خدائی صفات و امتیازات کا مالک بنا دینا بھی اسی طرح کی گمراہی ہے۔ یہود و نصاریٰ اس گمراہی میں کھوئے گئے ۔ عبادات اور تقرب الی اللہ کے لئے جو طریقے قرآن کریم اور نبی اعظم و آخر ﷺ نے متعین فرما دیئے ہیں ان میں ذرا سی کمی کوتاہی جس طرح انسان کو استقامت سے گرا دیتی ہے اسی طرح ان میں سے اپنی طرف سے کوئی زیادتی بھی استقامت کو برباد کر کے انسان کو بد دعات میں مبتلا کردیتی ہے۔ وہ بڑی نیک نیتی سے یہ سمجھتا رہتا ہے کہ میں اپنے رب کو راضی کر رہا ہوں او وہ عین ناراضگی کا سبب ہوتا ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے امت کو بدعات و محدثات سے بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اس کو شدید گمراہی قرار دیا ہے۔ مختصر یہ کہ ” استقامت “ ایک ایسا جامع لفظ ہے کہ دین کے تمام اجزاء و ارکان اور ان پر صحیح عمل اور اس کی تفسیر ہے۔ حدیث میں ہے کہ سفیان بن عبداللہ ثقفی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے اسلام کے معاملہ میں کوئی ایسی جامع بات بتلا دیجیے کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ نے فرمایا قل امنت باللہ ثم استقم یعنی اللہ پر ایمان لائو اور پھر اس پر مستقیم رہو (رواہ مسلم) اور زیر نظر آیت میں فرمایا کہ ” پس چاہئے کہ جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے تم اور وہ سب جو توبہ کر کے تمہارے ساتھ ہو لئے ہیں استوار ہو جائو اور حد سے نہ بڑھو یقین کرو کہ تم جو کچھ کرتے ہو وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ “
Top