Urwatul-Wusqaa - Maryam : 39
وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ١ۘ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَنْذِرْهُمْ : اور ان کو ڈراویں آپ يَوْمَ الْحَسْرَةِ : حسرت کا دن اِذْ : جب قُضِيَ : فیصلہ کردیاجائیگا الْاَمْرُ : کام وَهُمْ : لیکن وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں ہیں وَّهُمْ : اور وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
انہیں اس دن سے بھی خبردار کر دے جو بڑا ہی پچھتانے کا دن ہوگا اور جب ساری باتوں کا فیصلہ ہوجائے گا یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور یقین لانے والے نہیں
جن کا کام انذار وتبشیر ہے وہ اپنا کام کرتے جائیں کوئی ایمان لائے یا نہ لائے : 39۔ زیرنظر آیت سے رخ کفار مکہ یعنی قریش کی طرف پھرتا نظر آتا ہے کیونکہ ان لوگوں کو بھی اس بات پر تو بڑا نازل تھا کہ ہم ابراہیمی نسل پر ہیں حالانکہ نسل تو اعمال میں کام نہیں دیتی اور کام وہ بالکل اس کے الٹ کر رہے تھے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے کئے تھے زبانی جمع خرچ سے کیا ہوتا ہے اگر بات ہی حقیقت کے خلاف ہو ۔ وہ تو قریش مکہ تھے آج جو لوگ نبی اعظم وآخر ﷺ کی محبت کے دعویدار ہیں وہ زبانی دعوی تو کرتے ہیں لیکن ان کی ہر حرکت پیغمبر اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کے بالکل خلاف ہے اور ان کی محبت کا اظہار فقط انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگا دینے اور منہ سے صدقے یا رسول اللہ کہہ دینے پر ہے اور باقی معاملہ بالکل گول ہے ۔ کچھ اس سے آگے بڑھتے ہیں تو ان کو یہ نازل ہے کہ ہم اہل بیت کے ماننے والے ہیں اور رسول اللہ ﷺ سے ہماری رشتہ داری بہت قریب کی ہے یہی حال قریش مکہ کا تھا ، وہ بھی یہی کچھ کہتے تھے جو آج کل یہ لوگ کہتے دکھائی دیتے ہیں ، فرمایا اے پیغمبر اسلام ! آپ ان کو آگاہ کرتے رہیئے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے لیکن نہ ماننے والوں کو دیکھ کر تنذیر وتبشیر کا معاملہ ختم نہیں کیا جاسکتا اگر یہ لوگ غفلت کے پرودوں میں چھپے ہوئے ہیں تو ان پر سے یہ پردے خود بخود ہٹ جائیں گے اور اس وقت یہ لوگ سرپیٹ کر رہ جائیں گے لیکن اس میں قصور وار کون ہوگا ؟
Top