Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 41
اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَیْهَا وَ اِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ۠
اِنَّا نَحْنُ
: بیشک ہم
نَرِثُ
: وارث ہونگے
الْاَرْضَ
: زمین
وَمَنْ
: اور جو
عَلَيْهَا
: اس پر
وَاِلَيْنَا
: اور ہماری طرف
يُرْجَعُوْنَ
: وہ لوٹائے جائیں گے
ہم ہی زمین کے وارث ہوں گے اور ان تمام لوگوں کے بھی جو زمین پر بسنے والے ہیں اور ہماری ہی طرف سب کو لوٹ کر آنا ہے !
وہ دن ایسا ہے کہ اس دن اللہ کے سوا کوئی وارث نہیں ہوگا : 40۔ وارث تو آج بھی ہرچیز کا اللہ ہی ہے لیکن اس نے یہ جو عارضی طور پر ملکیت دی ہے جتنا حصہ جس کے حصہ میں ہے وہ اس بات کو سمجھنے کے لئے تیار ہے کہ یہ اصل ملکیت میری نہیں بلکہ میری حیثیت تو صرف ایک منتظم کی ہے اور جس کا مالک حقیقی نے اس کا نتظام میرے ہاتھ میں دیا ہے آنے والے کل کو میں نے اس کو امتحان بھی پیش کرنا ہے کہ میں نے اس کا کیا انتظام کیا اور کس طریقہ سے اس کا چلایا ؟ کیا مالک حقیقی کی مرضی کے مطابق یا اپنی خواہش کے مطابق اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے ؟ غور کیجئے کہ آج ہم میں سے کون ہے جس کے ذہن و دماغ میں کبھی یہ بات بھی آئی ہو کہ یہ مال و دولت ‘ یہ کو ٹھیاں اور کاریں ‘ یہ کارخانے اور فیکٹریاں جن کے انتظام کے لئے آخری دستخط میں کرتا ہوں یہ میری تو نہیں اور نہ ہی ان مالک ہوں ‘ یہ دستخط مجھے ملکیت حقیقی کے طور پر نہیں بلکہ ایک منتظم کی شکل میں کرنے ہیں اور آنے والے کل میں مجھے اس کے متعلق پوچھا جائے گا میں نے اصل مالک کی مرضی کے مطابق کام کیا ہے یا اس کی ملکیت کو کالعدم قرار دے دیا ہے ۔ فرمایا اس کارخانہ عالم کے اصل وارث تو ہم ہیں اور ان سب کو جزء وقتی انتظام دیا گیا تھا ، پھر یہ دن ایسا ہوگا کہ اس انتظام کے متعلق پوچھنے کے لئے سب کو اپنی طرف لوٹائیں گے بالکل اسی طرح جس طرح ہم اس انتظام کے لئے ان کو بھیجتے رہے اس روز ساری بات کھل کر سامنے آجائے گی ، اس جگہ وہ مخفی اشارہ بھی ختم ہوگیا جو ان چار آیتوں میں سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی دعوت کے متعلق پایا گا تھا لہذا اب مختصر حالات سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو دیکھ لیں اور پھر انشاء اللہ آگے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی سرگزشت کی طرف بڑھیں گے جس پر قریش مکہ کو ناز تھا کہ وہ ہمارے جد اعظم ہیں اور ہم اس دین کے پیروکار ہیں جو ابراہیم (علیہ السلام) لے کر آئے تھے : سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا مختصر تذکرہ : ادیان وملل کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین دین حق اور ملت بیضاء کی تبلیغ و دعوت کا سلسلہ اگرچہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ تک برابر جاری وساری رہا لیکن اس سلسلہ کو مزید قوت پہنچانے اور سربلند کرنے کے لئے سنت اللہ یہ رہی ہے کہ صدیوں کے بعد ایک ایسا اولوالعزم اور جلیل القدر رسول کو بھیجے جو امتداد زمانہ کی وجہ سے پیدا شدہ عام روحانی اضمحلال کو دور کر کے قبول حق کے افسردہ رجحانات میں تازگی بخشے اور ضعیف روحانی عواطف کو قوی سے قوی تر بنا دے گویا مذہب کی خوابیدہ دنیا میں حق وصداقت کا صور پھونک کر ایک انقلاب عظیم بپا کر دے اور مردہ اور مردہ دلوں میں نئی روح ڈال دے اور اکثر ایسا ہوتا رہا ہے کہ جن اقوام وامم میں اس عظم المرتبہ پیغمبر کی بعثت ہونے والی ہوتی تھی صدیوں پہلے انکے ہادیاں ملت اور داعیان حق انبیاء کرام اس مقدس رسول کی آمد کی بشارات وحی الہی کے ذریعہ سناتے رہتے تھے تاکہ اس کی دعوت حق کے لئے زمین ہموار ہو اور پھر جب اس نور حق کے روشن ہونے کا وقت آجائے تو ان اقوام وامم کے لئے اس کی آمد غیر متوقع حادثہ نہ بنا جائے ۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان چند اولوالعزم ، جلیل القدر اور مقدس رسولوں میں سے ایک ہیں اور اسی بناء پر انبیاء بنی اسرائیل میں سے متعدد انبیائے کرام (علیہم السلام) ان کی آمد سے قبل ان کے حق میں منادی کرتے اور ان کی آمد کی خبر سناتے نظر آتے ہیں اور انہیں بشارات کی وجہ سے بنی اسرائیل مدت مدید سے منتظر تھے کہ مسیح موعود کا ظہور ہو تو ایک مرتبہ وہ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کی طرح اقوام عالم میں معزز وممتاز ہوں اور رشد وہدایت کی خشک کھیتی میں روح تازہ پیدا ہوجائے اور خدا کے جاہ و جلال سے ان کے قلوب ایک مرتبہ پھر چمک اٹھیں بائبل نیا عہد نامہ ہو یا پرانا اپنی لفظی ومعنوی تحریفات کے باوجود آج بھی ان چند بشارات کو اپنے سینہ میں محفوظ رکھتی ہے جو سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی آمد سے تعلق رکھتی ہیں چناچہ تحریر ہے کہ : ” اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر (ساعیر) سے ان پر طلوع ہوا اور فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا۔ “ (استثناء 33 : 20) اس بشارت میں سینا سے خدا کی آمد سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کی جانب اشارہ ہے اور ” ساعیر “ سے طلوع ہونا نبوت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہے کیونکہ ان کی ولادت باسعادت اس پہاڑ کے ایک مقام ” بیت اللحم “ میں ہوئی ہے اور یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں سے نور حق طلوع ہوا اور ” فاران پر جلوہ گر ہونا “ آفتاب رسالت نبی اعظم وآخر ﷺ کی رسالت کی بعثت کا اعلان ہے کو ان کہ فاران حجاز کے مشہور پہاڑی سلسلہ کا نام ہے اور حضرت یسعیاہ نبی (علیہ السلام) کے صحیفہ میں ہے کہ : ” دیکھو میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا ‘ بیابان میں پکارنے والی کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو ‘ اس کے راستے سیدھے بناؤ ۔ “ (یسعیاہ باب 40 : 3 سے 8) اس بشارت سے مراد سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور بیابان میں پکارنے والی سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے مناد تھے اور ان کی بعثت سے قبل بنی اسرائیل میں ان کی بعث و رسالت کا مژدہ جان فزاسناتے تھے اور ایک جگہ اس طرح بیان ہے کہ : ” جب یسوع ہیرودیس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کئی مجوسی پورب سے یروشلم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا وہ کہاں ہے ؟ یہ سن کر ہیرودیس بادشاہ اور اس کے ساتھ یروشلم کے سب لوگ گھبرائے اور اس نے قوم کے سب سردار کاہنوں اور فقیہوں کو جمع کر کے ان سے پوچھا کہ مسیح کی پیدائش کہاں ہونی چاہئے ؟ انہوں نے اس سے کہا کہ یہودیہ کے بیت لحم میں کیونکہ بنی یسعیا (علیہ السلام) کی معرفت یوں لکھا گیا ہے اے بیت لحم یہوداہ کے علاقہ تو یہوداہ کے حاکموں میں ہرگز سب سے چھوٹا نہیں کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نکلے گا جو میری امت اسرائیل کی بانی کرے گا ۔ “ (متی 2 : 1 تا 6) دوسری جگہ اس طرح ہے : ” یہ اس لئے ہوا کہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کر ” صیہوں کی بیٹی سے کہو کہ دیکھو تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے وہ حلیم ہے اور گدھے پر سوار ہے بلکہ لادو بچہ پر ۔ “ (متی 2 : 5 ، 6) ایک جگہ تحریر ہے کہ : ” اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لادی یہ پوچھنے کے لئے اس (یحییٰ علیہ السلام) کے پاس پہنچے کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں ‘ انہوں نے اس سے پوچھا پھر تو کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں کیا تو وہ نبی ہے ؟ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے جواب دیا نہیں ۔ پس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟ تاکہ ہم اپنے بھے جنا والوں کو جواب دیں کہ تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا میں جیسا کہ یسعیاہ نبی نے کہا ہے بیابان میں پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو۔ “ (یوحنا باب 1 : 19 تا 23) ایک جگہ ہے کہ : ” وہ لوگ منتظر تھے اور سب اپنے دل میں یوحنا (یحییٰ علیہ السلام) کی بابت سوچتے تھے کہ آیا وہ مسیح ہیں یا نہیں تو یوحنا نے ان سب کے جواب میں کہا میں تو تمہیں بتپسمہ دیتا ہوں مگر جو مجھ سے زور آور ہے وہ آنے والا ہے میں اس کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے لائق نہیں وہ تمہیں روح القدس سے بتپسمہ دے گا ۔ “ (لوقا 2 : 15 ، 16) ان سب حوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہود جن اولوالعزم پیغمبروں کی بعثت کے منتظر تھے ان میں مسیح (علیہ السلام) بھی تھے اور محمد رسول اللہ ﷺ بھی اور یحییٰ (علیہ السلام) نے انکو بتایا کہ وہ نہ مسیح ہیں اور نہ محمد رسول اللہ ﷺ (وہ نبی ؟ ) ہاں ! وہ مسیح (علیہ السلام) کے مناد ہیں اور ان کی خوشخبری دینے والے ۔ اور اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا اس وقت تک کسی کو معلوم نہ تھا اور یہ بات آپ کو پہلے معلوم ہوچکی ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی عمر اور یحییٰ (علیہ السلام) کی عمر میں 6 ماہ کا فرق ہے کیونکہ یحییٰ (علیہ السلام) صرف 6 ماہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے عمر میں بڑے تھے ۔ اگر آپ نے یہ بات یاد رکھی تو آگے چل کر آپ کو فائدہ دے گی اور کئی الجھنوں سے نجات بھی ، اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مسیح کی پیدائش اسی وقت کی موجودہ حکومت کے لئے ایک خطرہ کی گھنٹی تھی اور مسیح کی بعثت حکومت کی موت ! اس لئے حکومت وقت ہر ممکن چاہتی تھی کہ مسیح کی پیدائش نہ ہو یا پیدا ہوتے ہی اس کو قتل کردیا جائے تاکہ وہ خطرہ ٹل جائے اور یہود ہی کی ایک جماعت حکومت وقت کی اس سلسلہ میں ممدومعاون بھی تھی ۔ پھر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت یہودیوں کی اپنی نہ تھی بلکہ ان پر کوئی دوسری قوم حکمران تھی اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے وقت اس علاقہ میں رومی حکمران تھے ۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت : پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ سید مریم (علیہ السلام) جو منذورہ ہیکل تھیں اور زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں تھیں جب زکریا (علیہ السلام) نے ان کا نکاح یوسف نجار سے کیا جو سیدہ مریم (علیہ السلام) کا چچا زاد اور نہایت ہی زاہد وعابد مرد تھا تو قوم نے اس نکاح کی بہت مخالفت کی کیونکہ وہ قومی طور پر ان لوگوں کو شادی سے باز رکھتے تھے جو ہیکل کی نذر ہوتے تھے حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں تھا اور اس رسم بد کو مٹانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم (علیہ السلام) کا انتخاب فرمایا تھا اور بحمد اللہ اس نے اس رسم کو توڑنے کے لئے کمر باندھ لی اسی لئے اللہ نے اس کو پیدا کیا ، چناچہ انجیل میں ہے کہ : ” اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھا ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی پس اس کے شوہر نے راست باز تھا اور اسے بدنام کرنا چاہتا تھا اسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا ، وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتے نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن داؤد اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے اس کے بیٹا ہوگا اور تو اس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ ” دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عمانوایل رکھیں گے ۔ “ جس کا ترجمہ ہے ” خدا ہمارے ساتھ ہے “ پس یوسف نے نیند سے جاگ کر ویسا ہی کیا جیسا کہ خداوند کے فرشتہ نے اسے حکم دیا تھا اور اپنی بیوی کے اپنے ہاں لے آیا اور اس کونہ جانا جب تک اس کو بیٹا نہ ہوا اور اس کا نام یسوع رکھا ۔ “ (متی 1 : 18 تا 25) انجیل میں ہے کہ ” اس کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوئی “ ہم نے اس کو یوسف کے ساتھ نکاح قرار دیا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ اس عبارت مذکورہ بالا میں ہے کہ ” فرشتہ نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن داؤد اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر “۔ اور یہ کہ ” وہ اپنی بیوی کو اپنے ہاں لے آیا ۔ “ جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس چیز کو انجیل میں منگنی کہا ہے وہ نکاح تھا اور نکاح کے بعد ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی ، ممکن ہے کہ ہمارے ہاں جس چیز کو منگنی کہتے ہیں ان کے ہاں وہ نکاح کی رسم ہو اور رخصتی بہرحال نکاح سے ایک دوسری چیز ہے ، دین اسلام میں ازدواجی تعلق کے لئے نکاح ضروری ہے اور معاشرتی لحاظ سے اس وقت بھی اور آج بھی رخصتی ضروری قرار دی جاتی ہے حالانکہ رخصتی رسم دنیا ہے اور نکاح رسم اسلام ۔ مذکورہ حوالہ میں ایک جملہ اس طرح آیا ہے کہ ” جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے ۔ “ گویا مریم کا یہ حمل انسان سے نہیں بلکہ ” جبریل فرشتہ “ سے تھا اور چونکہ جبریل انسان نہیں تھا اس لئے عیسیٰ (علیہ السلام) کو انہوں نے ” ابن اللہ “ قرار دے لیا ۔ ہم اہل اسلام نے ” ابن اللہ “ تو نہ مانا لیکن ان کو ” بےباپ “ ” بلاباپ “ اور ” بغیر باپ “ کے کہا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ ” جبریل “ فرشتہ تھے ، بلاشبہ علمائے اسلام نے باپ یا بمنزلہ باپ مانا لیکن زبان سے یہ جملہ کہہ نہ سکے اور قوم میں ” بےباپ “ ” بغیر باپ “ اور ” بلاباپ “ مشہور کیا جو نہ تو انجیل میں تھا ‘ نہ قرآن میں اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں ، انجیل کی مذکورہ عبارت میں ایک جملہ یہ بھی آیا ہے کہ ” جو خدا نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہوا کہ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی ۔ “ اس نبی سے مراد دوسری جگہ ” یسعیاہ “ لی گئی ہے لیکن یہ جملہ ” ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی “ کہاں ہے ؟ کچھ معلوم نہیں کیونکہ تورات آج بھی موجود ہے لیکن یہ جملہ اس میں یسعیاہ کی کتاب میں یا کسی دوسری کتاب میں بھی نہیں پایا گیا ۔ قرآن کریم نے انسان کی پہلی پیدائش کا ذکر کم وبیش گیارہ سورتوں یعنی البقرہ ‘ آل عمران ‘ المائدہ ‘ الاعراف ‘ الحجر ‘ الاسراء ‘ ’ الکہف ‘ مریم ‘ طہ ‘ یس اور سورة ص میں کیا اور اس سے زیادہ مرتبہ ضابطہ تخلیق انسانی کو بیان کیا ۔ تخلیق اول کو فقط تخلیق ہی قرار دیا ان کو کسی کی اولاد قرار نہ دیا ضابطہ تخلیق انسانی کو اولاد اور ماں باپ قرار دیا اور تینوں کو ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم بتایا اور تحدی وچیلنج کے طور پر اشارہ فرمایا کہ کوئی ولد بغیر والدہ اور والد کے نہیں ‘ کوئی والدہ بغیر ولد اور ولد کے والد کے نہیں ہوسکتی اور اسی طرح کوئی والد بغیر ولد اور ولد کی والدہ کے نہیں ہو سکتا ۔ تفصیل پیچھے مریم (علیہ السلام) کے ذکر میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں ۔ بہرحال اس نکاح کے بعد کتنا عرصہ گزرا اللہ ہی جانتا ہے قرآن کریم اور احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ میاں بیوی میں میل ملاپ نہ ہوا اسکی جو وجوہ بھی تھیں ان کو بیان نہیں کیا ، ایک عرصہ بعد سیدہ مریم (علیہ السلام) الگ تھلگ کسی جگہ ابھی ناصرہ ہی میں تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں نے ان کو خوشخبری دی : (آیت) ” إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِکَۃُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللّہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْہاً فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (45) وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَہْدِ وَکَہْلاً وَمِنَ الصَّالِحِیْنَ (46) (آل عمران : 3 : 45 ، 46) ” اور پھر جب (ایسا ہوا کہ) فرشتوں نے کہا اے مریم ! اللہ تعالیٰ تجھے اپنے کلام کے ذریعہ (ایک لڑکے کی) بشارت دیتا ہے ۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ ہوگا اور مریم کا بیٹا کہلائے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ارجمند ہوگا اور بچپنے میں اور بڑی عمر میں یکساں طور پر (وعظ وہدایت کا) کلام کرے گا نیز اللہ کے ہاں پہنچا ہوا اور اس کے بندوں میں سے ایک صالح انسان ہوگا ۔ “ فرشتوں نے یہ خوشخبری سنائی تو سیدہ مریم (علیہ السلام) نے اس کا کیا جواب دیا ۔ (آیت) ” قالت رب انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر “۔ مریم نے بشارت سنی تو بولی خدایا ! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے لڑکا ہو حالانکہ خاوند نے مجھے چھوا تک نہیں ۔ “ (آل عمران 3 : 47) ارشاد الہی ہوا (آیت) ” کذلک اللہ یخلق مایشآء “۔ کہ اس طرح اللہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کردیتا ۔ “ یعنی مسبب الاسباب وہ خود ہے جس چیز کے پیدا کرنے کا اس نے ارادہ کیا ہے اس کے لئے حالات درست کرتے اس کو کیا دیر لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا اور جو روک تھی اللہ نے دور فرما دی اور مریم جب اللہ نے چاہا تو حاملہ ہوگئی انجیل میں اس طرح ہے کہ : ” مریم نے (فرشتہ کو) کہا کہ دیکھ میں خداوند کی بندی ہوں میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو تب فرشتہ اس کے پاس سے چلا گیا ۔ انہی دنوں مریم اٹھی اور جلدی سے پہاڑی ملک میں یہودہ کے ایک شہر کو گئی اور زکریا کے گھر میں داخل ہو کر الیشبع کو سلام کیا اور جونہی الیشبع نے مریم کا سلام سنا تو ایسا ہوا کہ بچہ اس کے رحم میں اچھل پڑا اور الیشبع روح القدس سے بھر گئی اور بلند آواز سے پکار کر کہنے لگی کہ تو عورتوں میں مبارک اور تیرے رحم کا پھل مبارک اور مجھ پر یہ فضل کہاں سے ہوا کہ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی ہے کیونکہ دیکھو جونہی تیرے ساتھ سلام کی آواز میرے کان میں پہنچی بچہ مارے خوشی کے میرے رحم میں اچھل پڑا اور مبارک ہے وہ جو ایمان لائی کیونکہ جو باتیں خداوند کی طرف سے اس میں کہی گئی تھیں وہ پوری ہوں گی ۔ “ (لوقا 1 : 39 تا 46) اس عبارت کو بار بار پڑھو کس طرح واضح ہو رہا ہے کہ فرشتوں کی بشارت کا ذکر مریم نے اپنے خاندان کے لوگوں سے کیا اور خاندان کے لوگوں کو بھی اس سے پہلے کافی حد تک مایوسی تھی کہ جس نکاح کے لئے پورا خاندان مطعون ہوا اور لوگوں نے بیحد باتیں بنائیں اور طرح طرح کی باتیں کہیں اس کا نتیجہ کچھ نہ نکلا ایسے حالات میں پورا خاندان مایوس تھا کہ اللہ نے حالات درست فرمائے اور مریم حاملہ ہوئیں اور خوشی خوشی اپنی خالہ الیشبع کے گھر گئیں اور الیشبع بھی اس وقت حاملہ تھی اور آپ کا حمل 6 ماہ قبل کا تھا جب مریم کے حمل کی خبر سنی تو وہ بھی باغ باغ ہوگئی اور اس کو اپنے ہی حمل کی کیا خوشی تھی کہ اپنی بھانجی کے حمل سے اس کو بہت خوشی ہوئی اور اس کو معلوم ہوگیا کہ مریم کو جو خوشخبری سنائی گئی تھی اور اس میں اس کے بیٹے کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا اس کی ایک ایک بات کے پورا ہونے کا یقین ہوگیا جیسا کہ سورة آل عمران کی آیات 45 ، 46 میں بیان کیا جا چکا ہے ، اب مریم نے اپنی خالہ کی بات سنی تو اس طرح کہنے لگی کہ : ” میری جان خداوند کی بڑائی کرتی ہے اور میری روح میری منجی خدا سے خوش ہوئی کیونکہ اس نے اپنی بندی کی پست حالی پر نظر کی ۔ اور دیکھو اب سے لے کر ہر زمانہ کے لوگ مجھ کو مبارک کہیں گے ، کیونکہ اس قادر نے میرے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں اور اس کا نام پاک ہے اور اس کا رحم ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں ، پست در پشت رہتا ہے ۔ اس نے اپنے بازو سے زور دکھایا ، اور جو اپنے تئیں بڑا سمجھتے تھے ان کو پراگندہ کیا ۔ اس نے اختیار والوں کو تحت سے گرا دیا ۔ اور پست حالوں کو بلند کیا ، اس نے بھوکوں کو اچھی چیزوں سے سیر کردیا ۔ اس نے اپنے خادم اسرائیل کو سنبھال لیا تاکہ اپنی اس رحمت کو یاد فرمائے جو ابراہیم اور اس کی نسل پر ابد تک رہے گی ، جیسا کہ اس نے ہمارے باپ دادا سے کہا تھا ۔ اور مریم تین مہینے کے قریب اس کے ساتھ رہ کر اپنے گھر کو لوٹ گئی ۔ “ (لوقا 1 : 47 تا 55) اس کا ایک ایک فقرہ پڑھو تو تم کو ساری بات تفہیم ہوجائے گی کہ مریم کے نکاح پر کیا کچھ ہوا ہوگا اور قوم کے وڈیروں نے کیا طوفان بپا کیا ہوگا اور مریم کے شوہر کو جو ایک راست باز اور پاکباز انسان تھا کس طرح کی دھمکیاں دی ہوں گی اور کیا کیا ارادے کئے ہوں گے پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا اور نکاح ہوجانے کا جو مقصد تھا کہ میاں بیوی میں مطابقت ہو اور وہ زن وشو کی طرح رہیں جب اس معاملہ میں دیر ہوئی تو لوگوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنی بتائی ہوئی پیش گوئی کے مطابق جو روک تھی وہ اٹھا دی اور جس کا واضح ثبوت حمل مریم نے پیش کردیا تو اس خاندان میں خوشیوں کی کوئی انتہاء نہ رہی اور بنی اسرائیل کے دوسروں خاندانوں نے اپنی سرشت کے مطابق اپنی مخالفت کی مہم کو تیز تر کردیا ، حتی کہ یوسف کو ناصرہ چھوڑ کر بیت لحم کی طرف جانا پڑا۔ چنانچہ انجیل میں ہے کہ : ” ان ایسا ہوا کہ قیصر اور کو ستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں (جو انکی دسترس میں تھی) یہ پہلی اسم نویسی سوریہ کے حاکم گورنیس کے عہد میں ہوئی اور سب لوگ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے پس یوسف گلیل کے شہر ناصرہ سے داؤد کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے اس لئے کہ وہ داؤد کے گھرانے اور اولاد سے تھا تاکہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے جب وہ وہاں تھے تو ایسا ہوا کہ اس کے وضع حمل کا وقت آپہنچا اور اس کا پہلوٹھا بیٹا پیدا ہوا اور اس نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ اس کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی ۔ “ (لوقا 2 : 1 تا 7) اسی طرح گویا عیسیٰ (علیہ السلام) ناصرہ کی بجائے بیت لحم کے قریب پیدا ہوئے اور حمل وضع ہونے کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کو کپڑے میں لپیٹ کر ایک چرنی میں رکھ دیا اور خود انہوں نے رات سرائے میں گزاری ، انجیل میں ہے کہ : ” اس علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے اور خداوند کا فرشتہ ان کے پاس آکھڑا ہوا اور خداوند کا جلال ان کے چوگرد چمکا اور وہ نہایت ڈر گئے ، مگر فرشتہ نے ان سے کہا ڈرو مت کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری امت کے واسطے ہوگی کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند۔ اور اس کا تمہارے لئے یہ نشان ہے کہ تم ایک بچہ کو کپڑے میں لپٹا اور چرنی میں پڑا ہوا پاؤ گے اور یکایک اس فرشتہ کے ساتھ آسمانی لشکر کی ایک گروہ خدا کی حمک کرتی اور کہتی ظاہر ہوئی کہ عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر ان آدمیوں میں سے وہ راضی ہے صلح ، جب فرشتے ان کے پاس سے آسمان میں چلے گئے تو ایسا ہوا کہ چرواہوں نے آپس میں کہا کہ آؤ بیت لحم تک چلیں اور یہ بات جو ہوئی ہے اور جس کی خداوند نے ہم خبر دی ہے دیکھیں ، پس انہوں نے جلدی سے جا کر یوسف اور مریم کو دیکھا اور اس بچہ کو چرنی میں پڑا ہوا پایا اور انہیں دیکھ کر وہ بات جو اس لڑکے کے حق میں سے کہی گئی تھی مشہور کی اور سب سننے والوں نے ان باتوں پر جو چرواہوں نے ان سے کہیں تعجب کیا مگر مریم ان سب باتوں کو اپنے دل میں رکھ کر غور کرتی رہی اور چرواہے جیسا ان سے کہا گیا تھا ویسا ہی سب کچھ سن کر اور دیکھ کر خدا کی تمجید اور حمد کرتے ہوئے لوٹ گئے ۔ “ (لوقا 2 : 8 تا 20) مذکورہ عبارت لوقا کی تھی لیکن انجیل متی میں اس طرح ہے کہ : ” جب یسوع ہیرودیس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کہ کئی مجوسی پورب سے یروشلم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے ؟ کیونکہ پورب میں اس کا ستارہ دیکھ کر ہم اسے سجدہ کرنے آئے ہیں یہ سن کر ہیرودیس بادشاہ اور اس کے ساتھ یروشلم کے سب لوگ گھبرا گئے اور اس نے قوم کے سب سردار کاہنوں اور فقیہوں کو جمع کر کے ان سے پوچھا کہ مسیح کی پیدائش کہاں ہونی چاہئے ؟ انہوں نے اس سے کہا کہ یہودیہ کے بیت لحم میں کیونکہ نبی کی معرفت یوں کہا گیا ہے کہ اے بیت لحم ! یہودہ کے علاقے تو یہوداہ کے حاکموں میں ہرگز سب سے چھوٹا نہیں ‘ کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نکلے گا جو میری امت اسرائیل کی گلہ بانی کرے گا ، اس پر ہیرودیس نے مجوسیوں کو چپکے سے بلاکر ان سے تحقیق کی کہ وہ ستارہ کسی وقت دکھائی دیا تھا اور یہ کہہ کر انہیں بیت لحم کو بھیجا کہ جا کر اس بچے کی بابت ٹھیک ٹھیک دریافت کرو اور جب وہ ملے تو مجھے خبر دو تاکہ میں بھی آکر اسے سجدہ کروں ؟ وہ بادشاہ کی بات سن کر روانہ ہوئے اور دیکھو جو ستارہ انہوں نے پورب میں دیکھا تھا وہ ان کے آگے آگے چلا یہاں تک کہ وہ اس جگہ کے اوپر جا کر ٹھہر گیا جہاں وہ بچہ تھا ، وہ ستارے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اس گھر میں پہنچ کر بچے کو اس کی ماں مریم کے پاس دیکھا اور اس کے آگے گر کر سجدہ کیا اور اپنے ڈبے کھول کر سونا اور لوبان اور مر اس کو نذر کیا اور ہیرودیس کے پاس پھر نہ جانے کی ہدایت خواب میں پاکر دوسری راہ سے اپنے ملک کو روانہ ہوئے ، “ (متی 2 : 1 تا 12) ” جب وہ روانہ ہوگئے تو دیکھو خداوند کے فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دے کر کہا اٹھ بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر کو بھاگ جا اور جب تک کہ میں تجھ سے نہ کہوں وہیں رہنا کیونکہ ہیرودیس اس بچے کو تلاش کرنے کو ہے تاکہ اسے ہلاک کر دے پس وہ اٹھا اور رات کے وقت بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر کو روانہ ہوگیا اور ہیرودیس کے مرنے تک وہی رہا تاکہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ مصر میں سے میں نے اپنے بیٹے کو بلایا ، جب ہیرودیس نے دیکھا کہ مجوسیوں نے میرے ساتھ ہنسی کی تو نہایت غصے ہوا اور آدمی بھیج کر بیت لحم اور اس کی سب سرحدوں کے اندر کے ان سب لڑکوں کو قتل کرا دیا جو دو دو برس کے یا اس سے چھوٹے تھے ۔ “ (متی 2 : 13 تا 16) (1) : شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) نے موضع القرآن میں (آیت) ” وجعلنا ابن مریم امہ واوینھما الی ربوۃ ذات قرار ومعین “۔ (المومنون 23 : 50) کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ” ربوہ کسی گاؤںٗ کا نام ہے وہاں حضرت مریم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ایک حضرت مریم (علیہ السلام) کی چچی کا بیٹا تھا یہ تینوں وہاں بارہ برس تک رہے اور مزدوری کرکے گزران کرتے تھے ۔ “ (تفسیر قادری ص 452 ، 453) اس تفسیر کے متعلق نئی تحقیق یہ ہے کہ یہ تفسیر شاہ عبدالقادر دہلوی کی نہیں بلکہ یہ تفسی مولانا فخر الدین قادری لکھنؤی (رح) کی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ (2) : یہ حضرت مسیح کے بچپن کا واقعہ ہے ایک ظالم بادشاہ ہیردویس نامی نجومیوں سے سن کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سرداری ملے گی لڑکپن ہی میں ان کا دشمن ہوگیا اور قتل کے درپے تھا حضرت مریم (علیہ السلام) الہام ربانی سے ان کو لے کر مصر چلی گئیں ۔۔۔۔۔ مصر کا اونچا ہونا باعتبار رودنیل کے ہے ۔ “ (تفسیر عثمانی ص 447 تفسیر المومنون آیت 50) (3) : حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا یہ دمشق ہے سعید بن المسیب اور مقاتل کا بھی یہی قول ہے ، ضحاک نے کہا غوطہ دمشق مراد ہے ابوہریرہ ؓ نے فرمایا ربوہ سے ” رملہ “ مراد ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ابن زید کے نزدیک مصر مراد ہے اور یہ قول تاریخی حیثیت سے زیادہ قوی ہے کو۔ ن کہ یہودی بادشاہ ہیردویس جب حضرت مسیح کے قتل کے درپے ہوگیا تو حضرت مریم (علیہ السلام) اپنے بچہ کو لے کر مصرچلی گئی تھیں مظہری کے نزدیک فلسطین مراد ہے ۔ “ (مظہری مترجم ج 8 تفسیر سورة المومنون آیت 50) (4) : ” حضرت مریم (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے ان کی حفاظت کے لئے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں پہلے ہیرودیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں پھر ” ارخلاؤس “ کے عہد حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی ۔ (متی 2 : 13 ‘ 23) اب یہ بات یقینی کے ساتھی نہیں کہی جاسکتی کہ قرآن کریم کا اشارہ کس طرف ہے لغت میں ربوہ اس زمین کو کہتے ہیں جو ہموار ہو اور اپنے اردگرد کے علاقے سے اونچی ہو۔ “ (تفہیم القرآن جلد سوم ص 281) (5) : ” آیت پچاس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ (علیہا السلام) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” واوینھما الی ربوۃ ذات قرار ومعین “۔ ہم نے انہیں ایک مرتفع مقام میں پناہ دی جو بسنے کی اچھی جگہ اور پانی کی فراوانی سے شاداب تھی ، غالبا اس سے مقصود وادئی نیل کی بالائی سطح ہے یعنی مصر کا بالائی حصہ اناجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش کے بعد مریم کے شوہر یوسف نے ماں بیٹے کو ساتھ لیا اور فلسطین سے مصر چلا گیا ۔ چناچہ حضرت مسیح کا بچپن اور شباب وہیں گزرا جب فلسطین واپس آئے تو جوانی کی عمر تک پہنچ چکے تھے ۔ غالبا ان کی زندگی کے اس واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے ، دریائے نیل کے پانی کی فراوانی اور اس کے سالانہ سیلابوں کی عجیب و غریب نوعیت سرزمین مصر کا ایک امتیازی وصف ہیں ۔ اس کی آبادی وسیرابی یعنی اس کا (ذات قرار ومعین) ہونا ضرب المثل کی طرح زبان زد ہوگیا تھا ۔ چناچہ عبرانی کی یہ قدیم مثل آج تک ملتی ہے کہ ” فلاں ملک میں پانی کی اتنی فراوانی ہے جیسے مصریم میں ” چونکہ یہ مصر کا ایک امتیازی وصف ہوگیا تھا اور اسی وصف سے اس کو یاد کیا گیا ۔ اس تعبیر میں یہ پہلو بھی پوشیدہ ہے کہ وہ فلسطنز جیسا سرسبز ملک ترک کردینے پر مجبور ہوگئے لیکن اللہ کے فضل نے ایسی جگہ پناہ دے دی جو فلسطین ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ (ذات قرار ومعین) تھی ۔ حضرت مریم (علیہ السلام) اس سفر پر کیوں مجبورہوئیں ؟ اناجیل میں اس کا یہ سبب بیان کیا گیا ہے کہ ہیردویس حاکم شام کے ظلم وتشدد سے اسے نجومیوں نے پیدائش مسیح کی خبر دے دی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ انہیں قتل کر دے تب ” فرشتہ نے یوسف کو خواب میں حکم دیا ‘ اٹھ بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر بھاگ جا۔ (متی 2 : 13) لیکن قرآن نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا ۔ “ (تفسیر ترجمان القرآن مولانا آزادج 2 ص 531) (6) : ” اس نشانی سے چاہئے تھا کہ بنی اسرائیل فائدہ اٹھاتے ‘ ایمان لاتے ‘ راہ راست پر آتے اس کے برعکس ان کی جان کے دشمن بن گئے اس لئے حضرت مریم (علیہ السلام) کے چچازاد بھائی یوسف نجار ہیرودیس حاکم کے خوف سے مصر کی طرف لے کر چلے گئے تھے اور سالہا سال وہیں رہے یہاں دریائے نیل کا پانی جاری رہا اور یہ جگہ مرتفع ہے لیکن ابوہریرہ ؓ نے مقام رملہ بتایا ہے ۔ “ (تفسیر حقانی ص 353) (7) : ” نقل ہے مریم (علیہ السلام) اپنے لڑکے اور چچا زاد بھائی یوسف بن ماثان کے ساتھ اس موضع میں بارہ سال رہیں اور عیسیٰ کی روزی اس سوت سے تھی جو ان کی ماں کا تتی اور بیچتی تھیں ۔ “ (تفسیر حسینی ج 2 صف 90) (8) : ” موضح القرآن میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب ماں سے پیدائے ہوئے اس وقت کے بادشاہ نے نجومیوں ست سنا کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ پیدا ہوا ہے یہ سن کر دشمن ہوا اور ان کی تلاش میں پڑا ‘ ان کو بشارت ہوئی کہ اس ملک سے نکل جاؤ مصر کے ملک میں گئے ایک گاؤں کے زمیندار نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو اپنی بیٹی کر رکھا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوئے اس وطن کا بادشاہ مر چکا تھا پھر آئے اپنے وطن کو وہ گاؤں تھا ٹیلے پر اور پانی وہاں کا خوب تھا ۔ 12 بو عبدالستار غفرلہ (قرآن کریم فوائد ستاریہ اہلحدیث) (9) : ” چونکہ ان کو نبی بنانا منظور تھا اور ایک ظالم بادشاہ بچپن ہی میں ان کے درپے قتل ہوگیا تھا اس لئے ہم نے اس سے بچا کر ان دونوں کو ایک ایسی بلند زمین پر لے جا کر پناہ دی جو بوجہ غلات اور میوہ جات پیدا ہونے کے ٹھہرنے کے قابل اور بوجہ نہر جاری ہونے کے شاداب جگہ تھی یہاں تک کہ امن وامان سے جوان ہوئے اور نبوت عطا فرمائی تو توحیدی دعوی رسالت میں ان کی تصدیق ضروری تھی مگر بعض نے نہ کی ۔ “ (تفسیر معارف القرآن مفتی محمد شفیع ج 6 ص 314) (10) : ” یہ مقام کونسا تھا ؟ اور یہ واقعہ کب کا ہے ؟ بعض اہل تفسیر ادھر گئے ہیں کہ یہ ذکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت کا ہے ۔ اس وقت حضرت مریم (علیہ السلام) کسی بلند ٹیلہ پر مقیم تھیں اور نیچے چشمہ پہہ رہا تھا جیسا کہ سورة مریم میں ہے (قد جعل ربک تحتک سریا) ابن کثیر (رح) نے اس کو ترجیح دی ہے لیکن محققین کی رائے میں اس سے مراد ملک مصر ہے اور آیت کا تعلق ایک دوسرے قصہ سے ہے ۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش کے زمانہ میں ملک شام کا حاکم ہیرودیس تھا اور وہ نجوم وکہانت کے عروج کا زمانہ تھا ۔ انجیل کی روایت ہے کہ اسے نجومیوں سے یہ پتہ چلا کہ اسرائیلیوں کا آئندہ بادشاہ ایک گھر میں تولد ہوگیا ہے اور وہ گھر حضرت مریم (علیہ السلام) کے شوہر یوسف نجار کا تھا اس نے چاہا کہ اس بچہ کو پکڑ کر قتل کر ڈالے اور آئندہ کے لئے اندیشہ ہی باقی نہ رہے یوسف اس سے قبل ہی غیبی اطلاع پا کر مع حضرت مریم (علیہ السلام) وحضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وطن کو چھوڑ کر مصر کے لئے روانہ ہوگئے ۔ “ (تفسیر ماجدی سورة المومنون کی آیت 50 کا حاشیہ 47) بعض لوگوں نے سورة المومنون کی آیت 50 سے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کی ہجرت کشمیر کا ذکر کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ ان کی وفات ثابت کرنے کے لئے ان کی قبر کی نشاندہی کی جائے اور یہ خواب سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کو آیا اور اس کے بعد مرزائی لوگوں کے دونوں گرہوں نے اس پر بہت کچھ لکھا اور دونوں کا نظریہ مرزا جی کا ترجمان تھا ہم اس کا بیان زیر آیت کے تحت کریں گے انشاء اللہ العزیز۔ اس وقت وقت ہمارے پیش نظر یہ بات ہے کہ ہمارے مفسرین کی اکثریت نے کس خوبصورتی کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کے شوہر کا بیان کیا ہے اور جن مفسرین نے شوہر کا لفظ استعمال نہیں کیا انہوں نے بھی مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی یہ ہجرت یوسف نجار کے ساتھ ہی تحریر کی ہے لیکن عیسائیوں کے اس نظریہ کی تصدیق بھی کردی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بےپدر ‘ بےباپ پیدا ہوئے تھے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ان لوگوں کو برا بھلا کہا ہے جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سنت اللہ کے مطابق سیدہ مریم (علیہ السلام) کے حلال اور جائز ولد تسلیم کیا ہے اور عیسائیوں کے اس نظریہ کی سخت تردید کی ہے جو وہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق رکھتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اس لئے اللہ ’ اللہ کا بیٹا یا اللہ کا تیسرا جزء ہیں کہ ان کا باپ نہیں تھا بلکہ وہ روح القدس کی قدرت سے پیدا ہوئے تھے ۔ بہرحال یوسف سیدہ مریم (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر جب گلیل کے شہر ناصرہ سے اپنے آبائی وطن داؤد کے شہر لحم کو گئے تو وہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تولد ہوئے بلکہ ابھی راستہ ہی میں تھے جیسا کہ سورة مریم کی آیت 23 میں ہم نے بیان کردیا ہے پھر بیت لحم سے واپس ناصرہ ابھی انہیں پہنچے تھے کہ ہیرودیس کی طرف سے خطرہ محسوس کرکے وہاں سے مصر روانہ ہوگئے جہاں ہیرودیس کی موت تک یعنی 12 میلاد عیسوی تک رہے ۔ تاریخی بیان کے مطابق جس کی انجیل بھی تصدیق کرتی ہے مریم اور یوسف تو ہر سال عید فسح پر یروشلم آتے رہے لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بارہ برس تک وہاں نہ لائے بلکہ بارہ برس کے ہوجانے کے بعد جبکہ ہیرودیس کی وفات ہوچکی تھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پہلی بار یروشلم لائے گئے ۔ چناچہ انجیل میں ہے کہ : ” اس کے ماں باپ ہر برس عید فسح پر یروشلم کو جایا کرتے تھے اور جب وہ بارہ برس کا ہوا تو وہ عید کے دستور کے موافق یروشلم کو گئے ، جب وہ ان دنوں کو پورا کرکے لوٹے تو وہ لڑکا یسوع پر وشلم ہی میں رہ گیا اور اس کے ماں باپ کو خبر نہ ہوئی مگر وہ یہ سمجھ کر کہ وہ قافلہ میں ہے ایک منزل نکل گئے اور اس کو اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں میں ڈھونڈنے لگے جب نہ ملا تو اسے ڈھونڈتے ہوئے یروشلم تک واپس آگئے اور تین روز کے بعد ایسا ہوا کہ انہوں نے اسے ہیکل میں استادوں کے بیچ میں بیٹھے ‘ ان کی سنتے اور ان سے سوال کرتے ہوئے پایا اور جتنے اس کی سن رہے تھے اس کی سمجھ اور اس کے جوابوں سے دنگ تھے اور اسے دیکھ کر حیران ہوئے اور اس کی ماں نے اس سے کہا بیٹا ! تو نے کیوں ہم سے ایسا کیا ؟ دیکھ تیرا باپ اور میں کڑھتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے تھے ، اس نے ان سے کہا تم مجھے کیوں ڈھونڈتے تھے کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضروری ہے ؟ مگر جو بات اس نے کی اسے وہ نہ سمجھے اور وہ ان کے ساتھ روزانہ ہو کر ناصرہ آیا اور ان کے تابع رہا اور اس کی ماں نے یہ سب باتین اپنے دل میں رکھیں ۔ “ (لوقا 2 : 40 تا 50) عیسیٰ (علیہ السلام) اس طرح بارہ تیرہ برس کی عمر کے ہو کر پہلی بار ناصرہ میں اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے اور اس وقت اگرچہ وہ مبعوث نہیں ہوئے تھے تاہم دین الہی کی تبلیغ وہدایت کرنے لگے اور ان کے حالات زندگی یقینا عام بچوں سے بالکل مختلف تھے اور ان سے اییر ایسی کرامات کا صدور ہوتا تھا کہ بڑے بڑے لوگ دیکھ کردنگ رہ جاتے تھے ۔ (تاریخ ابن کثیر ج 2 ص 77) مسیح (علیہ السلام) کا حلیہ مبارک : بخاری شریف میں حدیث معراج میں ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری ملاقات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی تو میں نے ان کو میانہ قد اور سرخ سپید پایا ۔ آپ کا بدن ایسا صاف و شفاف تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی حمام سے نہاکرآئے ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ آپ کے بال کندھوں تک لٹکے ہوئے تھے اور بعض روایات میں رنگ کھلتا ہوا گندم گوں بیان کیا گیا ہے اور اس طرح کی روایات میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ انسان کی حالت میں اتنا فرق عام طور پر دیکھنے میں آیا کرتا ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ حسن میں صباحت کے ساتھ ملاحت کی آمیزش بھی یقینی ہوتی ہے اور اس رنگ میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کسی وقت اگر سرخی جھلک آتی ہے تو صباحت نمایاں ہوجاتی ہے اور اگر کسی وقت ملاحت غالب آگئی تو چہرہ پر حسن ولطافت کے ساتھ کھلتا ہوا گندم گو رنگ چمکنے لگا ، اس چیز کو اس جگہ بیان کیا گیا ہے ، یہ بات پہلے بھی ذکر کی گئی ہے کہ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیات میں سے یہ خصوصیت بھی نمایاں ہے کہ ان دونوں حضرات کو دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے مقابلے میں نبوت کا اعلان کرنے کی اجازت پہلے ہی دی گئی تاہم دونوں کے مقابلہ میں یحییٰ (علیہ السلام) کو بعثت کا شرف پہلے ہوا اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بعد میں تاہم یحییٰ (علیہ السلام) فقط نبی تھے یعنی پہلے رسولوں کی رسالت کے بیان کرنے والے اور اس تعلیم کو زندہ کرنے والے اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے وقت کے رسول بھی اور نبوت و رسالت کا فرق سب پر عیاں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) ، سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے مناد ٹھہرے اور آپ نے واضح الفاظ میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد فرمایا کہ : ” میں تم کو بپتسمہ دیتا ہوں مگر جو مجھ سے زور آور ہے وہ آنے والا ہے ۔ میں اس کی جوتی کے تسمہ برابر بھی نہیں وہ تمہیں روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا ، اس کا چھاج اس کے ہاتھ میں ہے تاکہ وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے اور گیہوں کو اپنے کھتے میں جمع کرے مگر بھوس کو اس آگ میں جلائے گا جو بجھنے کی نہیں ۔ “ (لوقا 3 : 16 ، 17) مسیح (علیہ السلام) کی بعثت و رسالت کے وقت یہود کی حالت : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے بلاشبہ یحییٰ (علیہ السلام) کا پیغام سنا چکے تھے لیکن بنی اسرائیل کی حالت ذرا بھی نہ بدلی تھی اور وہ ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے اور انفرادی واجتماعی عیوب ونقائص کا کوئی پہلو ایسا نہیں تھا جو ان سے بچ رہا ہو اور خصوصا وہ خاندان عمران وماثان اور زکریا ویحییٰ کے تو خاص کر دشمن تھے اور سیدہ مریم (علیہ السلام) کے نکاح سے وہ ایسے بگڑے کہ انکی بات سننے کے لئے وہ کبھی تیار ہی نہ ہوئے ۔ اور اس سے پہلے بھی ان کی حالت یہاں تک بگڑ چکی تھی کہ وہ جن نبیوں کو اللہ کا نبی مانتے تھے ان کے قتل سے بھی باز نہیں آتے تھے ، یحییٰ (علیہ السلام) نے جہاں دوسرے کو بپتسمہ دیا وہاں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بپتسمہ دیا جیسا کہ انجیل میں تحریر ہے : ” جب سب لوگوں نے بپتسمہ لیا اور یسوع بھی بپتسمہ پاکر دعا کررہا تھا تو ایسا ہوا کہ آسمان کھل گیا اور روح القدس جسمانی صورت میں کبوتر کی مانند اس پر نازل ہوا اور آسمان سے آواز آئی تو میرا پیارا بیٹا ہے ، تجھ سے میں خوش ہوں ۔ جب یسوع خود تعلیم دینے لگا تو اس وقت وہ تقریبا تیس برس کا تھا ۔ “ (لوقا 3 : 21 ، 23) لیکن سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو یحییٰ (علیہ السلام) کی طرف نبوت ملنے سے پہلے ہی علم تھا کہ میں نبی بنایا جانے والا ہوں اور یہ کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب ملنے والی ہے اور یہ کہ وہ ایک مبارک اور اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ انسان ہیں کیونکہ ان کی والدہ ماجدہ نے ان بشارات کا ذکر یقینا کیا ہوگا جو سیدنا عیسیٰ عیہپ السلام کی ولادت سے بہت پہلے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاچکی تھیں ۔ چونکہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت سے پہلے بنی اسرائیل کے عقائد و اعمال کی حالت بہت ہی بگڑی ہوئی تھی وہ مشرکانہ رسوم و عقائد کو جزومذہب بنا چکے تھے اور جھوٹ ‘ فریب ‘ بغض وحسد جیسی بداخلاقیوں کو تو عملا اخلاق کریمانہ کی حیثیت دے رکھی تھی اور اسی بنا پر وہ بجائے شرمسار ہونے کے ان پر فخر کرتے تھے اور آج کل اس بات وحالت کو سمجھنا اس لئے بھی مشکل نہیں ہے کہ آج کل خود مسلمانوں کی اکثریت کی بھی یہی حالت ہے جو اس وقت بنی اسرائیل کی اکثریت تھی اور ان کے علماء و احبار نے تو دنیا کے لالچ اور حرص میں کتاب اللہ (توراۃ) کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا تھا اور درہم و دینار پر یہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو فروخت کرتے تھے اور عوام سے نذر وبھینٹ حاصل کرنے کی خاطر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانے سے بھی ذرا دریغ نہیں کرتے تھے گویا بالکل یہی پوزیش جو آج کل ہمارے مذہبی پیشواؤں اور راہنماؤں کی ہے وہی اس وقت ان کے مذہبی پیشواؤں اور راہنماؤں کی تھی ، توراۃ کی اپنی زبان یہ سب کچھ ان کے متعلق کہتی آج بھی نظر آرہی ہے ۔ چناچہ لکھا ہے کہ : ” خداوند فرماتا ہے یہ امت (بنی اسرائیل) زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر ان کا دل مجھ سے دور ہے اور یہ بےفائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ میرے حکموں کو پیچھے ڈال کر ان آدمیوں کے حکموں کی تعلیم دیتے ہیں ۔ “ (یسعیاہ 29 : 13) بہرحال ان تاریک حالات مین جب بنی اسرائیل نے اللہ کے حکموں کے خلاف بغاوت وسرکشی کی حد کردی تو اس وقت اللہ نے مریم کے بیٹے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ اعلان جاری کرا دیا کہ ” وہ خدا کا رسول اور پیغمبر ہے اور رشد وہدایت خلق اس کا فرض منصبی ہے ۔ “ اور اسی پیغام نے قوم میں ایک نئی ہلچل پیدا کردی وہ شرف رسالت سے مشرف ہو کر اور حق کی آواز بن کر آیا اور اپنی صداقت وحقانیت کے نور سے تمام اسرائیلی دنیا پر چھا گیا اور اس مقدس ہستی نے قوم کو للکارا اور احبار کی علمی مجلسوں اور رہبان کے خلوت کدوں ‘ بادشاہ اور امراء کے درباروں اور عوام و خواص کی محفلوں حتی کہ کو چہ وبرزن اور بازاروں میں شب وروز پیغام حق سنایا۔ ” لوگو ! اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنا رسول اور پیغمبر بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے اور تمہاری اصلاح کی خدمت میرے سپرد فرمائی ہے میں اس کی جانب سے پیغام ہدایت لے کر آیا ہوں اور تمہارے ساتھ میں خدا کا جو قانون (توراۃ) ہے اور جس کو تم نے اپنی جہالت اور کج روی سے پس پشت ڈال دیا ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کی مزید تکمیل کے لئے اللہ کی کتاب انجیل لے کر آیا ہوں ‘ یہ کتاب حق و باطل کا فیصلہ کر دے گی اور آج جھوٹ اور سچ کے درمیان فیصلہ ہو کر رہے گا ، سنو اور سمجھو اور اطاعت کے لئے اللہ کے حضور جھک جاؤ کہ یہی دین و دنیا کی فلاح کی راہ ہے ۔ “ آپ کی تعلیم وتبلیغ اور پیام وپیغام رسالت کا تذکرہ ہم پیچھے سورة البقرہ کی آیت 87 ، 88 ، سورة آل عمران آیت 50 تا 52 اور سورة المائدہ آیت 110 ، 111 عروۃ الوثقی میں الترتیب جلد اول ، جلد دوم اور جلد سوم میں کرچکے ہیں ۔ تفصیلات وہاں سے ملاحظہ فرمائیں اور انشاء اللہ سورة الحدید اور الصف میں مزید ذکر بھی ابھی آئے گا ۔ رہے مسیح (علیہ السلام) کے وہ معجزات اور دلائل وبینات جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے تو ان کی تفصیل بھی ہم نے اپنے اپنے مقام پر پیش کردی ہے اور آپ کی زندگی کے واقعات میں افراط وتفرط سے جو کام لیا گیا ہے اس کی تفصیلات بھی پیچھے قرآن کریم کی سورت آل عمران ‘ مائدہ اور نساء میں بیان کی گئی ہیں ۔ یہود کے مخالف گروہ نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات زندگی میں بہت تفریط سے کام لیا لیکن دوسرے گروہ نصاری نے بھی افراط میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جس کا نتیجہ نکالتے ہوئے قرآن کریم نے جہاں تفریط کرنے والوں کو کافر قرار دیا وہاں افراط کرنے والوں کا کفر بھی واضح کردیا ، انبیائے کرام (علیہم السلام) کی زندگیوں کا مختصر حال بیان کرتے ہوئے جو کچھ مولانا موددی (رح) نے چند سطروں میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کہہ دیا وہ بلاشبہ اتنے مختصر سے الفاظ میں اور کہیں نظر سے نہیں گزرا ، چونکہ اس جگہ ہمارے پیش نظر میں اختصار ہے اس لئے ہم مولانا کے الفاظ میں اس کو پیش کردیتے ہیں تاکہ قارئین اس سے استفادہ کرسکیں ، چناچہ مولانا نے تحریر کیا ہے کہ : ” تم دیکھو گے کہ اس کی ذات پر سب سے زیادہ ظلم اس کے معتقدین ہی نے کیا ہے انہوں نے اس پر اپنے تخیلات وادہام کے اتنے پردے ڈال دیئے ہیں کہ اس کی شکل و صورت دیکھنا ہی بالکل محال ہوگیا ہے کہ اس کی اصل تعلیم کیا تھی بلکہ ہم ان سے یہ بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ وہ خود اصل میں کیا ہے ؟ اس کی پیدائش میں اعجوبگی ‘ اس کی طفولیت میں اعجوبگی ‘ اس کی جوانی اور بڑھاپے میں اعجوبگی ‘ اس کی زندگی کی ہر بات میں اعجوبگی اور اس کی موت میں اعجوبگی ، غرض ابتداء سے لے کر انتہا تک وہ ایک افسانہ ہی افسانہ نظر آتا ہے اور اس کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ خود تھا یا خدا کا بیٹا تھا یا خدا اس میں حلول کر گیا تھا یا کم از کم خدائی میں کسی حد تک شریک وسہیم تھا ۔ “ (تفہیمات جلد دوم ص 10 ، 11) ” دنیا میں انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ہمیشہ ایسے پاک نفوس پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اپنی زبان اور اپنے عمل سے اس کو حق وصداقت کا سیدھا راستہ دکھایا لیکن انسان اکثر ان کے احسان کا بدلہ ظلم ہی کی شکل میں دیتا رہا ہے ۔ ان پر ظلم صرف ان کے مخالفوں ہی نے نہیں کیا کہ ان کے پیغام سے بےرخی برتی ‘ ان کی صداقت سے انکار کیا ‘ انکی دعوت کو رد کردیا اور ان کو تکلیفیں دے کر راہ حق سے پھیرنے کی کوشش کی بلکہ ان پر ظلم ان کے عقیدت مندوں نے بھی کیا کہ ان کے بعد ان کی تعلیمات کو مسخ کیا ان کی ہدایتوں کو بدل ڈالا ‘ ان کی لائی کتابوں میں تحریف کی اور خود ان کی شخصیتوں کو اپنی عجائب پسندی کا کھلونا بنا کر الوہیت اور خدائی کا رنگ دے دیا ، پہلی قسم کا ظلم تو ان نفوس قدسیہ کی زندگی یا حد سے حد ان کے چند سال بعد تک محدود رہا مگر یہ دوسری قسم کا ظلم ان کے بعد صدیوں تک ہوتا رہا اور بہت سے بزرگوں کے ساتھ اب تک ہوئے جا رہا ہے ۔ “ (تفہیمات جلد دوم ص 9) بلاشبہ “ جن بزرگوں کی نبوت معلوم ومسلم ہے ان میں سب سے بڑھ کر ظلم سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر کیا گیا ہے ۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ویسے ہی ایک انسان تھے جیسے سب انسان ہوا کرتے ہیں ، بشریت کی تمام خصوصیتیں ان میں بھی اسی طرح موجود تھیں جن طرح ہر انسان ہوتی ہیں ۔ “ وہ اسی طرح پیدا ہوئے جس سارے انسان پیدا ہوتے ہیں ‘ اسی طرح انسان کے مشابہ تھے جس طرح ہر بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے ، انہوں نے ایسی طرح ماں کے پیٹ میں پرورش پائی جس طرح سارے انسان اپنی ماؤں کے پیٹوں میں پرورش پاتے ہیں ، وہ اسی طرح پیدا ہوئے جس طرح سارے انسانوں کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اسی طرح غذا کھائی جس طرح سارے انسان غذا کھاتے ہیں ۔ فرق صرف اتنا تھا جتنا عام انسانوں اور اللہ کے خاص بندوں انبیاء کرام میں ہوا کرتا ہے گویا ” اللہ تعالیٰ نے ان کو حکمت ونبوت اور اعجاز کی قوتیں عطا فرمائی تھیں اور ایک بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کے لئے مامور فرمایا تھا لیکن اول تو ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور پورے تین سال بھی ان کے وجود مسعود کو برداشت نہ کرسکی یہاں تک کہ عین عالم شباب میں ان کے قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ “ اگرچہ وہ اپنے فیصلہ میں کامیاب نہ ہوئے اور جب تک اللہ تعالیٰ نے ان کو رکھنا تھا رکھا اور وہ پیغام رسالت پہنچاتے رہے اور انکا کوئی بال بھی بیکا نہ کرسکا ، اللہ نے ان کی ساری سکیمیں فیل کردیں لیکن جب وہ ” ان کے بعد ان کی عظمت کے قائل ہوئی تو اس قدر حد سے تجاوز کرگئی کہ انکو خدا کا بیٹا بلکہ عین خدا بنادیا اور یہ عقیدہ ان کی طرف منسوب کیا کہ خدا مسیح کی شکل میں اس لئے نمودار ہوا تھا کہ صلیب پر چڑھ کر انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے کیونکہ انسان فطرتا گنہگار تھا اور خود اپنے عمل سے اپنے لئے نجات حاصل نہ کرسکتا تھا ، معاذ اللہ ایک نبی صادق اپنے پروردگار پر اتنا بڑا بہتان کس طرح اٹھا سکتا تھا مگر اس کے معتقدمین نے جوش عقیدت میں اس پر یہ بہتان اٹھایا اور اس کی تعلیمات میں اپنی ہوائے نفس کے مطابق اتنی تحریف کی کہ آج دنیا کی کسی کتاب میں سوائے قرآن کریم کے مسیح کی اصل تعلیم اور خود ان کی حقیقت کا نشان نہیں ملتا بائبل کے عہد جدید میں جو کتابیں اناجیل اربعہ کے نام سے موجود ہیں انہیں اٹھا کر دیکھتے جاؤ سب کے سب حلول ‘ ابنیت اور عینیت کے فاسد تخیلات سے آلودہ ہیں۔ کہیں حضرت مریم (علیہ السلام) کو بشارت ہوتی ہے کہ تیرا بیٹا خدا کہلائے گا ۔ (لوقا 1 : 35) کہیں خدا کی روح کبوتر کی مانند یسوع پر اتر آتی ہے اور پکار کہتی ہے کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے ۔ (متی 16 : 17) کہیں کسی زبان سے کہا جاتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور تم مجھے قادر مطلق کے داہنی جانب بیٹھے ہوئے دیکھو گے ۔ (مرقس 14 : 62) کہیں روز جزاء میں خدا کے بجائے مسیح کو تخت جلال پر بٹھایا جاتا ہے اور وہ سزا وجزا کے فرمان کو نافذ کرتا ہے ۔ (متی 25 : 31 ، 46) کہیں مسیح کے منہ سے کہلوایا جاتا ہے کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ہوں ۔ (یوحنا 10 : 38) کہیں اس راست باز اور راست گو انسان کی زبان سے یہ غلط الفاظ نکلوائے جاتے ہیں کہ میں خدا سے نکل کر آیا ہوں ۔ (یوحنا 8 : 42) کہیں اس کو اور خدا کو بالکل ایک کردیا جاتا ہے اور اس کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتا ہے کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا اور باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے ۔ (یوحنا 14 : 9 ، 10) کہیں خدا کی ساری چیزیں مسیح کی طرف منتقل کردی جاتی ہیں ۔ (یوحنا 3 : 35) اور خدا اپنی خدائی کا سارا کاروبار مسیح کے سپرد کردیتا ہے ۔ (یوحنا 5 : 20 ، 22) ” کہیں مسیح کو بن باپ مانا جاتا ہے اور روح القدس کی قدرت سے قرار دیا جاتا ہے اور کہیں روح القدس کو بمنزلہ والد بتایا جاتا ہے ، ، کبھی جبریل کے مادہ منفک سے اس کی شکل و صورت بنائی جاتی ہے اور کبھی اس کو آدھا انسان اور آدھا روح بتایا جاتا ہے اور کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ آدھا اسرائیلی تھا اور آدھا غیر اسرائیلی اور اسی طرح ادہام پرستوں نے مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت کو ایک اعجوبہ بنا دیا ہے ، حالانکہ قرآن کریم ان سب کا رد کرتے ہوئے ان کو ایک ” اللہ کا بندہ “ قرار دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علہی والہ وسلم ” الستم تعلمون انہ لا یکون ولد الا وھو یشبہ اباہ ؟ “ (ابن جریر طبری) فرما کر سب کی زبانوں پر مہر سکوت لگا دیتے ہیں (کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ بیٹا ہمیشہ باپ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ) (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر ملاحظہ ہو اگلی آیت کے ذیل میں)
Top