Anwar-ul-Bayan - Maryam : 40
اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَیْهَا وَ اِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ۠
اِنَّا نَحْنُ : بیشک ہم نَرِثُ : وارث ہونگے الْاَرْضَ : زمین وَمَنْ : اور جو عَلَيْهَا : اس پر وَاِلَيْنَا : اور ہماری طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے
بلاشبہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے ہم اس کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے
پھر فرمایا (اِنَّا نَحْنُ نَرْثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْھَا وَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ ) بلاشبہ زمین اور زمین پر جو کچھ ہے ہم اس کے وارث ہوں گے یعنی اہل دنیا سب ختم ہوجائیں گے جو مجازی مالک ہیں ان میں سے کسی کی کوئی ملکیت باقی نہیں رہے گی۔ اللہ تعالیٰ جو مالک حقیقی ہے صرف اسی کی ملکیت حقیقیہ باقی رہ جائے گی دنیا والے مر کر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جائیں گے جو کچھ دنیا میں کمایا تھا یہیں چھوڑیں گے اعمال لے کر حاضر ہوں گے اور انھیں پر فیصلے ہوں گے قال صاحب الروح ای یردون الی الجزاء لا الی غیرنا استقلالا او اشتراکا۔ (ص 95 ج 16) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کا عقیدہ رکھنے والوں کی تردید حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ میں یہ جو فرمایا (وَاَوْصَانِیْ بْالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا) اس سے بعض ملحدین یہ استدلال کرتے ہیں کہ ان کی وفات ہوگئی (یہ لوگ آسمان پر اٹھائے جانے اور دنیا میں واپس تشریف لانے کے منکر ہیں) ان جاہلوں کو شیطان نے سمجھایا ہے کہ (مَا دُمْتُ حَیًّا) سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ وفات پا گئے یہ ان لوگوں کی جہالت ہے آیت سے تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور ایسا وقت آئے گا جس میں وہ زکوٰۃ ادا کریں گے جب تک وہ دنیا میں تھے اس وقت تک ان کی مال والی زندگی نہیں تھی جب قیامت کے قریب آسمان سے تشریف لائیں گے اس وقت صاحب مال ہوں گے زکوٰۃ ادا کریں گے۔
Top