Ruh-ul-Quran - Maryam : 36
وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : پس اس کی عبادت کرو ھٰذَا : یہ صِرَاطٌ : راستہ مُّسْتَقِيْمٌ : سیدھا
پس وہ ہوجاتا ہے۔ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی، سو اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْ م بَیْنِہِمْ ج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ مَّشْھَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (مریم : 37) (پھر ان کے اندر سے مختلف فرقوں نے باہم اختلاف کیا، پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا، اس دن کی حاضری سے جو بہت بڑا ہے۔ ) حقیقتِ مسیح سے عیسائیوں میں اختلافات گزشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے جو کچھ بیان ہوا وہی حضرت مسیح کی اصل حقیقت ہے اور اس بیان کو دیکھ لینے کے بعد کوئی الجھن باقی نہیں رہ جاتی۔ ہر بات اپنے تئیں بالکل واضح ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کیسے ہوئی، آپ کی والدہ کی اصل حیثیت کیا ہے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بغیر باپ کے کیوں پیدا فرمایا، پھر آپ ( علیہ السلام) کو کیا ذمہ داریاں سپرد کی گئیں اور اس دنیا اور دوسری دنیا میں آپ ( علیہ السلام) کی کیسی عزت افزائی ہوگی اور آپ ( علیہ السلام) کا تعلق اپنی والدہ سے کیسا رہے گا، ان میں سے ہر بات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ارشادات سے بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ لیکن جن کو اختلاف کی راہ پر چلنا ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح اپنی راہ نکال لیتے ہیں۔ چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد یہود نے جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا وہ تو اپنی جگہ ہے لیکن خود عیسائیوں میں حقیقتِ مسیح کے بارے میں اس قدر اختلاف پیدا ہوا کہ اس کے نتیجے میں ان میں مختلف فرقے پیدا ہوگئے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خود خدا تھے جو انسان بن کر دنیا میں آئے۔ ان لوگوں کو یعقوبیہ کہا جاتا ہے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا وہ خدا نہیں، خدا کے بیٹے تھے۔ ان کے پیروکار نسطوریہ کہلاتے تھے۔ کچھ اور لوگوں نے کہا کہ مسیح تین میں کا تیسرا تھے جنھیں اقانیمِ ثلاثہ کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو اسرائیلیہ کہا گیا۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جنھوں نے کہا کہ وہ نہ خدا تھے، نہ خدا کے بیٹے نہ تین میں ایک بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کا کلمہ تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شمعون کے پیرو تھے اور یہی لوگ نبی کریم ﷺ پر ایمان لائے اور ان ہی کی قرآن نے تعریف کی۔ پھر یہی اختلاف آگے بڑھتا رہا حتیٰ کہ مستقل صورت اختیار کرگیا۔ آج کیتھولک، پروٹسٹنٹ، آرتھوڈیکس، ان کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے فرقے بھی موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے (الجامع لاحکام القرآن، جز 11، ص 32، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415 ھ ) شمعون کے پیروکار اگرچہ قلیل تعداد میں تھے اس لیے اہل کتاب میں سے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے والے بہت تھوڑے لوگ ہوئے۔ لیکن انیسویں صدی سے یورپ کے جید علماء کا رجحان حضرت مسیح کے اللہ تعالیٰ کا رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح کے عقیدے کی طرف ہے۔ ڈی ایف سٹراس (DAVID FRIEDRICH STRAUSS) کی کتاب حیات مسیح (LIFE OF JESUS) مطبوعہ 1835 ء اور ای۔ رینان (ERNEST RENAN) کی کتاب حیات مسیح مطبوعہ 1863 ء کے بعد عیسائی حلقوں میں اس نظریہ کو بےپناہ شہرت حاصل ہوئی۔ مختصر الفاظ میں نظریہ، یہ تھا کہ مسیح دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے لیکن انھیں اللہ تعالیٰ کی قوت و شہود کی معرفت اوروں سے زیادہ حاصل تھی۔ THIS IMPLIED THAT JESUS WAS A MAN LIKE OTHER MEN, BUT WITH HEIGHTENED AWARNESS OF THE PRESENCE AND POWER OF GOD. (ENCY OF BRI VOL.13-PAGE 25) مشہد کا مفہوم حقیقتِ مسیح اور دین مسیح میں اختلاف کرنے والوں اور نبی کریم ﷺ کے ہمعصر کفار کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ ان کے لیے ہلاکت ہے، عظیم دن کے مشہد سے۔ عظیم دن سے تو ظاہر ہے کہ قیامت کا دن مراد ہے۔ لیکن مشہد کا مفہوم کیا ہے اس کے بارے میں مختلف باتیں کہی گئی ہیں۔ کیونکہ مشہد کا معنی پیش ہونا اور حاضر ہونا بھی ہوتا ہے۔ اور مشہد حاضری کی جگہ کو بھی کہتے ہیں اور مشہد گواہی پر بھی بولا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں معنے ہی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ یعنی ان کفار کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج تو انھیں کفر کرتے ہوئے کسی چیز کی پروا نہیں اور مسلمات میں اختلاف کے لیے راہیں نکالتے ہوئے بھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن قیامت کا دن کیسا ہولناک ہوگا اور وہاں کی حاضری کس قدر پتا پانی کردینے والی ہوگی اور لوگ کس طرح نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے اور کس طرح خونی رشتے ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکار کردیں گے۔ اس عظیم اور ہولناک دن میں دہلا دینے والی حاضری کا انھیں اگر ہلکا سے تأثر بھی نصیب ہوجائے تو ان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ جائیں اور یہ چوکڑیاں بھرنا بھول جائیں۔ اسی طرح مشہد کا معنی گواہی بھی لیا جاسکتا ہے اور بعض اہل علم نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام انبیائے کرام سے ان کی امتوں کے بارے میں شہادت طلب کرے گا۔ چناچہ ان کی امتوں نے جیسا کچھ ان کے ساتھ اور ان کی دعوت کے ساتھ سلوک کیا تھا وہ کھول کر بیان کریں گے۔ اس کے بعد ان امتوں پر جس طرح گھڑوں پانی پڑجائے گا اس کا تصور کرنا مشکل نہیں۔ اسی طرح عیسائی امت کے سامنے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے گواہی طلب کی جائے گی۔ سورة المائدہ میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ ہم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شہادت کا ضروری حصہ یہاں نقل کررہے ہیں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں حقیقتِ مسیح اور دین مسیح میں اختلاف کرنے والوں پر کیا گزرے گی۔ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھِیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط قَالَ سُبْحٰنَکَ مَایَکُوْنُ لِیْ اَنْ اَقُوْلَ مَالَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ ط اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہُ ط تَعٰلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ ط اِنَّک اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ 5 مَاقُـلْتُ لَھُمْ اِلاَّ مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖ اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَہِیْدًامَّادُمْتُ فِیْھِمْ ج فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ ط وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ شَھِیْدٌ 5 اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ ج وَ اِنْ تَغْفِرُلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ (المائدٓۃ : 116۔ 117) جبکہ اللہ پوچھے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنائو ؟ وہ کہیں گے تو پاک ہے میرے لیے یہ کس طرح زیبا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کہی ہوگی تو تو اسے جانتا ہے۔ جو کچھ میرے جی میں ہے اس کو تو جانتا ہے لیکن جو کچھ تیرے جی میں ہے اس کو میں نہیں جانتا۔ بیشک غیب کا راز دان تو ہی ہے۔ میں نے تو ان سے صرف وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ ہی کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔ میں جب تک ان کے اندر رہا ان پر گواہ رہا، پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو ان کا نگرانِ حال تو تھا اور تو ہر چیز سے باخبر ہے۔ اگر تو ان کو سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو بخشے تو تو غالب اور حکیم ہے۔
Top