Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ، ایسے تاجروں کی تجارت کبھی نفع مند نہیں ہو سکتی اور وہ کبھی ہدایت نہیں پا سکتے
امثال قرآنی : 34: قرآن کریم کا درس و فکر ہم کو بتاتا ہے کہ اللہ کریم بسا اوقات اپنے اعلیٰ ترین مطالب و مقاصد کے اظہار کے لئے امثلہ و نظائر پیش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کا بہت بڑا حصہ انہیں تمثیلات پر مشتمل ہے۔ کہیں ہواؤں کی تعریف ہے۔ بادلوں کی انبساط ہے ، زمین کی نشونما ہے۔ لیل و نہار کا اختلاف ہے۔ موجودات و مخلوقات کے مختلف اشکال و الوان ہیں۔ کو اکب و سیارات اور نجوم و ثوابت کے طلوع و غروب ہیں۔ انقلابات طبعیہ کے مناظر جمیلہ ہیں۔ رعد و برق کے دہشت انگیز اور خوف دلانے والے نظارے ہیں۔ بیع و شرا اور خریدو فروخت کے منازعات و مناقشات ہیں۔ پس ! ان میں وہ تمام اسرار و معارف بیان کئے گئے ہیں جو فہم انسانی کا منتہائے ادراک ہیں۔ سب سے بڑھ کر قرآن کریم کا یہ ارشاد کہ : وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ0027 (الزمر 39 : 27) ” یعنی اس قرآن کریم میں ہم نے ہر قسم کی مثالیں بیان کر کے سمجھایا ہے کہ ہوش میں آکر نصیحت پکڑ لیں۔ “ ان امثال و نظائر کے بیان کرنے سے قرآن کریم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی قلبی و روحی حیات و ممات ، اقوام و ملل کے انقلابات ، ملکوں اور حکومتوں کے تسلط اور ہدایت الٰہی اور شقاوت الٰہی کے مختلف مدراج و مراتب سامنے آجائیں۔ وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ 0043 بیع و شرا کی مثال : 35: منجملہ ان امثال قرآنیہ کے بیع وشرا کی ایک لطیف و بدیع اور جامع تمثیل ہے جس پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہ زور کیوں ہے ؟ اسلئے کہ عرب کے باشندوں کا تجارتی کاروبار خوب پھیلا ہوا تھا اور تجارت کی اصطلاحیں انکی زبان و ادب کا ایک جزو بن گئی تھیں جیسا کہ آج کل کاروبار کے طور طریقے سب عیسائیت کے فراہم کردہ ہیں اور کاروباری اصطلاحیں بھی انگریزی زبان و ادب کا جزو بن کر رہ گئی ہیں۔ ان کو انہیں کی اصطلاح کے مطابق سمجھایا جا رہا ہے کہ ایک شخص بازار جاتا ہے کہ کچھ خرید کرے اس کی انتہائی سعی و کوشش یہی ہوگی کہ بہتر سے بہتر خریدے۔ کبھی اس کو اپنا نقصان گوارا نہ ہوگا مگر ان لوگوں کی حماقت و نادانی ملاحظہ ہو کہ یہ ہدایت دے کر گمراہی اور ضلالت خرید رہے ہیں۔ پس یہ تجارت کہاں نفع بخش ثابت ہوسکتی ہے ؟ اور یہ لوگ کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں ؟ منافقین کی تجارت خسارے کا سودا ہے ؟ 36: دراصل بات یہ ہے کہ انکی یہ تجارت ، تجارت کے اصولوں ہی کے خلاف تھی۔ تجارت میں سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ قوت ارادہ و فیصلہ سے صحیح کام لیا جائے۔ تجارت کے مال ، وقت کی مناسبت ، قوت خرید کے ساتھ قوت فروخت سب کا اندازہ کر کے بروقت فیصلہ کرلیا جائے لیکن یہاں ان سب باتوں میں ایک کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا۔ پھر تجارت سے مقصود ہوتا ہے کہ اصل سرمایہ محفوظ رہے اور نفع اس پر بڑھتا رہے لیکن ان منافق کافروں کے نفع کا کیا ذکر یہاں تو انہوں نے عقل سلیم کے اصل سرمایہ کو الٹا برباد کر ڈالا۔ اس طرح اصل زر ہی نہ رہے تو ظاہر ہے یہ سودا کتنے خسارے کا سودا ہے۔ جس شخص کو عقل سلیم مل گئی گویا اسکو خیر کثیر مل گئی لیکن جس کی عقل سلیم ہی برباد ہوگئی وہ خود بخود تباہ و برباد ہوگیا۔
Top