Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 3
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : کچھ لوگ جو مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑا کرتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےجانے بوجھے وَّيَتَّبِعُ : اور پیروی کرتے ہیں كُلَّ شَيْطٰنٍ : ہر شیطان مَّرِيْدٍ : سرکش
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور ان کے پاس کوئی علم نہیں وہ ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہو لیتے ہیں
لوگوں میں کتنے ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑنا شروع کردیتے ہیں : 3۔ ” لوگوں میں ایسے بھی ہیں “ یہ مخصوص لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ” لوگوں میں سے ایسے “ جو نہایت عقل مند صاحب عقل وفکر ‘ صاحب طاقت وقوت ‘ صاحب عزت وجاہ ‘ ایسے جو تقوی وورع میں منتخب قسم کے ہیں اور اسی طرح ” لوگوں میں سے ایسے بھی “ جو بیوقوف ونادان ‘ بےعقل وناسمجھ ‘ کوتاہ عقل ‘ کو دن وونافہم ‘ جاہل ‘ احمق اور بدھو ہیں گویا عام لوگوں میں سے خاص خواہ وہ تحسین میں خاص ہوں یا تقبیح میں اور اس جگہ یہ دوسری قسم ہی مراد ہے یعنی لوگوں میں سے کچھ ایسے ناسمجھ ‘ نافہم ‘ جاہل اور احمق بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑنا شروع کردیتے ہیں ، کہا گیا ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے متعلق نازل ہوئی کہ وہ ایک نہایت ہی جھگڑالو آدمی تھا جس نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینے نبی اعظم وآخر ﷺ سے جھگڑا شروع کردیا اور حشر ونشر کا بھی یہ قائل نہ تھا ۔ شان نزول کے طور پر اگر یہ سمجھ لیا جائے تو صحیح ہے لیکن ایسے لوگوں کی نہ اس وقت کمی تھی اور نہ آج ہے ۔ شرک اس وقت بھی عام تھا اور آج بھی ہے ۔ 1۔ دنیا کی مشہور ترین قوموں میں عیسائی ‘ یہودی ‘ مجوسی اعلانیہ مشرک تھے اور آج بھی ہیں جو دو خدا ‘ تین خدا اور ان گنت خداؤں کو مانتے اور تسلیم کرتے تھے اور آج بھی مانتے اور تسلیم کرتے ہیں ۔ ان سب کی تفصیل تو بہت لمبی ہے لیکن ابتدا سب کی یہی ہے کہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی بہت سی صفات ہیں اور لوگوں نے ان مختلف صفات ہی کو مختلف اور مستقل مجسم وجود قرار دے لیا اور ان کے الگ الگ نام رکھ لئے اور آج بھی یہی صورت حال قائم ہے ۔ 2۔ بزرگوں کی تعظیم بھی جب حد اعتدال سے تجاوز کرگئی تو شرک کا باعث بنی اور یہ شرک آج باقی قوموں کی طرح خود قوم مسلم میں بھی موجود ہے اور اس کو شخصیت پرستی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ، عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس بیماری کے باعث خدا تسلیم کیا اور رام چندر ‘ کرشن کو بھی اس خوش اعتقادی نے آدمی سے خدا بنا دیا اور قرآن کریم نے اس کی پر وز تردید کی لیکن افسوس کہ آج وہی چیز مسلمانوں نے خود اپنا لی اور ان کی اکثریت نے آج بھی اپنے اپنے حاجت روا اور مشکل کشا بنا رکھے ہیں ۔ 3۔ درمیانی واسطوں کا شرک اس وقت بھی موجود تھا اور آج بھی اس کی کثرت پائی جاتی ہے ۔ اس کا اصل ضرر یہ ہے کہ خدا سے انسان کو جس درجہ کا تعلق ‘ جس قسم کا عجز ونیاز جس مرتبہ کی محبت اور جس درجہ کی التجا درکار ہے اس کا رخ دوسری جانب بدل جاتا ہے ، ہزاروں لاکھوں آدمی ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیوتا اور اولیاء کرام کائنات اور زمین و آسمان کے خالق نہیں ہیں تاہم وہ ہر قسم کی حاجتیں اور مرادیں انہیں دیوتاؤں ‘ داتاؤں اور اولیاء کرام سے مانگتے ہیں ‘ ان کو حاجت روا اور مشکل کشا جانتے اور مانتے ہیں ۔ ان کی نذر ونیاز مانتے اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں جو کھلا شرک ہے اس وقت آپ بڑوں بڑوں کا تجزیہ کر کے دیکھیں گے جو ملک کے اہم عہدوں پر فائز ہیں اور اس ملک کی اہم شخصیتیں ہیں تو سب کو آپ اس میں مبتلا پائیں گے ۔ 4۔ شرک کا ایک بڑا ذریعہ خوارق عادات کی نسبت غلط فہمی بھی ہے وہ کام جو اللہ تعالیٰ سے خاص ہیں کوئی انسان ان کو نہ کرسکتا ہے اور نہ اس سے ہو سکتے ہیں ان کی نسبت انسانوں کے ساتھ روا رکھی گئی ۔ استعارات اور تمثیلات کو حقیقت کا روپ دے کر ان صفات کو انسانوں کے ساتھ خاص کردیا اور یہی خیال رفتہ رفتہ دیوتا ‘ اوتار ‘ ولی اللہ سے ترقی کرتے کرتے بالآخر خدائی تک پہنچ گیا اور انسانوں کو خالق ‘ مالک حقیقی ‘ مردوں کو زندگی بخشنے والے ‘ مختار کل اور علم غیب کے جاننے والے تصور کرلیا گیا ۔ 5۔ حرام و حلال کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے خاص تھا لیکن لوگوں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) ‘ مذہبی پیشوایاں کو تحریم وتحلیل کا مجاز سمجھا گویا وہ جس چیز کو چاہیں حلال کردیں اور جس کو چاہیں حرام کردیں یہ شرک اس وقت بھی پایا جاتا ہے اور آج بھی اس کی کمی نہیں ہے ۔ 6۔ وہ آداب و اعمال جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں وہ اوروں کے ساتھ بھی برتے جانے لگے یہ شرک فی العبادت یا شرک فی الصفات ہے اور ہوتے ہوتے یہ شرک شرک فی الذات سرایت کر گیا ۔ سجدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے خاص تھا ‘ ہے اور رہے گا لیکن اہل مذاہب نے بتوں ‘ قبروں اور مقتدایان مذہب کے لئے بھی روا رکھا اگرچہ اس کو کسی نے سجدہ عبادت قرار دیا اور کسی نے سجدہ تعظیمی سمجھا ۔ یہ شرک بھی دوسرے سارے شرکوں کو طرح پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے ۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کی ذات علام الغیوب ہے ‘ تسلیم لیکن لوگوں نے اس وصف میں بھی دوسرے لوگوں کو شریک کردیا اور آج بھی اس وقت کی طرح انبیاء ‘ اولیاء اور صالحین کو غیب کے جاننے والے مانا جاتا ہے اور جن کو ولی اللہ ‘ پیرومرشد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ شرک بھی پہلے شرکوں کی طرح عام ہے اور اس میں مسلمانوں کا سواد اعظم بھی برابر کا شریک ہے ۔ 8۔ مخفی قوتوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کا شریک ٹھہرایا گیا اور کائنات میں غیبی اسباب وعلل یعنی سحر ‘ طلسم جنات و شیاطین اور ارواح خبیثہ اور اس طرح کی دوسری قوتوں کو غیبی تصرف وقدرت کا اعتقاد قائم کیا گیا اور پھر ان سے بچنے کے لئے ان کی دہائی پکاری جانے لگی اور نذریں چڑھائی جانے لگیں ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی تعلیم نے ان سب خرافات کا قلع قمع کیا اور اللہ رب العزت کے سوا تمام دوسری مخفی قوتوں کا ڈر انسانوں کے سینوں سے نکال کر پھینک دیا لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اس شرک میں مبتلا نظر آتی ہے اور علماء کہلوانے والے ہی اس کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں ، دعائے کلمات الہی کے سوا ہر نوع کی جھاڑ پھونک ‘ منتر ‘ تعویذ ‘ گنڈے اس شرک کا ایک اہم حصہ ہیں ۔ 9۔ وہ تمام ادہام و خرافات جس نے لوگوں کو لرزہ براندام کر رکھا تھا اور جن کو لوگ مؤثر اور متصرف سمجھتے تھے نبی اعظم وآخر ﷺ نے اس کا طلسم توڑ دیا اور اعلان فرمایا کہ لا عدوی ولا طیرہ ولا صفر ولا ھامہ (بخاری ومسلم ‘ ابو داؤد ‘ ابن ماجہ) ” نہ چھوت ہے نہ فال بد کوئی شے ہے نہ انسان یا چوپائے کے پیٹ سے سانپ نکل کر اس کو تکلیف پہنچاتا ہے نہ الو کا بولنا کوئی اثر رکھتا ہے “ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ العیافہ والطیرہ والطرق من الجبت “۔ (ابوداؤد ‘ ابن ماجہ) ” پرندوں کی بولی سے فال لینا ‘ ان کے اڑنے سے فال لینا اور کنکری پھینک کر یا خط کھینچ کر فال بتانا شیطانی کام ہیں ۔ “ اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ ’ لا غول (ابوداؤد) ” غول بیابانی بھی کوئی چیز نہیں “ اور اسی طرح قرآن کریم نے اعلان فرمایا کہ یہ (بحیرہ) (سائبہ) (وصیلۃ) اور (حام) اللہ تعالیٰ نے نہیں ٹھہرائے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ آج اس قسم کا شرک بھی عام ہے اور کوئی اس کو شرک تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ۔ 10۔ شفاعت کا غلط مفہوم بھی شرک کا باعث تھا جو عربوں اور عیسائیوں میں رائج تھا اور یہودی بھی اس میں برابر کے شریک تھے ان سب کا خیال تھا کہ اللہ تک پہنچنے کے لئے کوئی وسیلہ اور واسطہ ہونا ضروری ہے بغیر واسطہ اور سفارش کے ہم بخشے نہیں جائیں گے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ دیکھو کسی شہنشاہ کے دربار میں انسان سفارشیوں اور مقربوں کے علاوہ نہیں پہنچ سکتا اس لئے وہ اپنے تصور میں جن کو بزرگ خیال کرتے تھے ان کو سفارشی بھی سمجھتے تھے اور زور دے کر کہتے تھے کہ (آیت) ” ھولآء شفعاء نا عند اللہ “۔ (یونس 10 : 18) ” یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں “۔ قرآن کریم نے ان کو یہ جواب دیا کہ (آیت) ” اتنبؤن اللہ بما لا یعلم فی السموت ولا فی الارض سبحنہ وتعالی عما یشرکون “۔ (یونس 10 : 18) ” کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جسے نہ وہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں پاک ہے وہ اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ “ کیا آج اس شرک کی کوئی کمی ہے ؟ مندرجہ بالا شرک کی اقسام کی طرح اور بھی بہت سی اقسام ہیں لیکن لوگ ان ساری قسموں کے شرک میں مبتلا تھے اور ہیں اور جب بھی ان سے اس طرح کی کوئی بات کی جاتی ہے تو وہ ایک جھگڑا شروع کردیتے ہیں اور یہی وہ جھگڑا ہے جس کا زیر نظر آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ جاہل بھی ہیں اور اکھڑو بیوقوف بھی ‘ بات کو سوچنے کے لئے تیار نہیں لیکن جھگڑنے میں شیر ہیں اور ان کو لاکھ سمجھائیں بات کو سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ‘ کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ وہ شیطان شریر کی پیروی کرنے والے ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ شیطان کا لفظ انسان اور جن دونوں کو شامل ہے شیطان تو پہلے ہی شیطان ہے لیکن جب شیطان مرید یعنی وہ شیطان جو خیر سے بالکل خالی اور شر میں ڈوبا ہوا ہے (مرید) اور (مارد) دونوں ہم معنی ہیں ایسے لوگوں کی حالت اس وقت بھی کٹ حجتیاں کرنا اور خواہ مخواہ کا جھگڑا کرنا تھا اور آج بھی ہے ۔
Top