Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 7
وَّ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَا١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَّاَنَّ : اور یہ کہ السَّاعَةَ : گھڑی (قیامت) اٰتِيَةٌ : آنیوالی لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهَا : اس میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ يَبْعَثُ : اٹھائے گا مَنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
مقررہ گھڑی آنے والی ہے اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں اور یہ کہ اللہ ضرور انہیں اٹھا کھڑا کرے گا جو قبروں میں پڑ گئے
بلاشبہ قیامت بپا ہونے والی ہے اور بلاشبہ وہ تم کو زندگی عطا کرے گا : 7۔ دنیا میں ایک سرے کی کوئی چیز موجود نہیں ہے جس کا شروع ہے یقینا اس کا آخر بھی ہے ۔ اگر اس کائنات کا کوئی شروع ہے تو اس کا آخر کیوں نہیں ؟ یقینا اس کا آخر ہے اور اس کا نام قیامت یا ” ساعۃ “ ہے ۔ غور کرو کہ جو پانی کے ایک قطرہ سے عاقل وبالغ انسان بنا کر کھڑا کرتا ہے اور زمین کے خشک اور چٹیل میدان ہوجانے کے بعد باغ و بہار کردیتا ہے اس کے لئے انسانوں کو از سر نو زندہ کردینا کیوں مشکل ہوجائے گا ؟ اس لئے کان کھول کر سن لو کہ یقینا قیامت کو بپا ہونا ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا تم شیطان کی وسوسہ انگیزیوں سے دھوکا کھا کر اس یوم حساب کا انکار نہ کردینا ورنہ کف افسوس ملو گے اور ندامت سے ہونٹ کاٹو گے لیکن اس وقت ایسا کرنے سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔ اس زندگی سے اس زندگی کا راز حاصل کرلو گے تو تمہارا انجام یقینا بخیر ہوگا ۔ اس جگہ آیت 5 سے آیت 7 تک ایک مجموعی نظر ڈال لو کہ اس میں بعث بعد الموت کا اثبات ہے جس میں پہلے دلائل بیان کئے ہیں پھر ان سے نتائج نکالے ہیں ۔ چناچہ ارشاد الہی ہے کہ : ا : (آیت) ” ذلک بان اللہ ھو الحق “۔ اللہ کی ہستی ایک حقیقت ہے ۔ ب : (آیت) ” وانہ یحی الموتی “۔ وہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے ۔ ج : (آیت) ” وانہ علی کل شیء قدیر “۔ اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ۔ د : (آیت) ” وان الساعۃ اتیۃ لا ریب فیھا “۔ ایک مقررہ گھڑی آنے والی ہے ‘ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ ہ : (آیت) ” وان اللہ یبعث من فی القبور “۔ جو مر گئے ہیں ‘ اللہ انہیں اٹھا کھڑا کرے گا ۔ یہ پانچ باتیں ہیں جن پر اس مقام کی موعظت نے روشنی ڈالی ہے ‘ یہ شک کو دور کرتی اور اذعان ویقین کی طمانیت پیدا کردیتی ہے ۔ جو موعظت ایسی ہو ‘ اسے قرآن اپنی اصطلاح میں دلیل ‘ برہان اور حجت سے تعبیر کرتا ہے ‘ نہ کہ دلیل مصفلحہ منطق وفنون جدلیہ ۔ اب غور کرو ان پانچ باتوں کے لئے یہاں دلیل کی روشنی کس طرح نمایاں ہوئی ہے ؟ فرمایا (آیت) ” ان کنتم فی ریب من البعث “۔ اگر تم شک میں پڑے ہو کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو اس بات پر غور کرو جو بیان کی جاتی ہے تمہارا سارا شک اور استغراب دور ہوجائے گا ۔ تخلیق حیات اور اعادہ حیات : (آیت) ” فانا خلقنکم من تراب “۔ تمہیں یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ انسان مر کر پھر اٹھ کھڑا ہو یعنی زندگی کا دوسرا اٹھان تمہیں عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن اگر یہ بات عجیب ہے تو کیا اس سے زیادہ یہ بات عجیب نہیں کہ زندگی کا پہلا اٹھان ظہور میں آگیا ؟ تم اپنی ہستی میں تو شک نہیں کرسکتے ؟ اچھا یہ ہستی کس طرح ظہور میں آئی ؟ دوسری مرتبہ اگر انسانی زندگی اٹھے گی تو یہ زندگی کی ابتدا نہیں ہوگی ۔ زندگی کا اعادہ ہوگا لیکن اس کی ابتدا کیونکر ہوئی ؟ (من تراب) مٹی سے یعنی (من صلصال من حمآء مسنون) (15 : 28) مٹی کا گارا جس میں مدتوں تک خ میرا اٹھتا رہا اور پھر کھنکھارنے لگا سب سے پہلے زندگی کا جرثومہ اسی میں نمودار ہوا تھا پھر حکمت الہی نے اسے درجہ تکمیل تک پہنچایا ، سوال یہ ہے کہ اگر زندگی عدم حقیقی سے وجود میں آسکتی تھی تو کیا ایک مرتبہ وجود میں آ کر پھر دہرائی نہیں جاسکتی ؟ زیادہ عجیب بات کونسی ہے ؟ کسی چیز کی ابتدائی پیدائش یا پیدائش کے بعد اعادہ ؟ اگر تمہارے لئے ابتدائی پیدائش میں کوئی اچنبھا نہیں تو اعادہ میں کیوں ہو ؟ کیوں تم قطعی فیصلہ کر دو کہ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ؟ جس قدرت پر یہ دشوار نہیں ہوا کہ زندگی پیدا کر دے اس پر یہ کیوں دشوار ہونے لگا کہ پیدا شدہ زندگی کو کہ بکھر گئی ہے پھر سمیٹ دے ‘ اگر کمہار نئی مٹی سے نیا برتن بنا سکتا ہے تو یقینا ٹوٹے ہوئے برتن کے ٹکڑوں کو بھی دوبارہ ڈھال سکتا ہے ۔ پیدائش کا تناسلی سلسلہ اور قانون تحول : اچھا یہ تو ابتدائی پیدائش ہوئی ۔ اس کے بعد پیدائش کا جو سلسلہ قائم ہوا ٗاس کا کیا حال ہے ؟ اس کا حال یہ ہے کہ دو حقیقتیں ہر وقت تمہارے سامنے آتی رہتی ہیں ۔ ایک یہ کہ انسانی وجود کا پورا درخت صرف ایک بیچ سے پیدا ہوتا ہے جس کا نام ” نطفہ “ ہے لیکن نطفہ کیا ہے ؟ کیا گوشت پوست ہے ؟ ہڈیوں کا ڈھانچا ہے ؟ ڈیل ڈول ہے ؟ شکل و صورت ہے ؟ عقل و حواس ہے ؟ نہیں ‘ کچھ بھی نہیں ہے اور پھر سب کچھ ہے ، ایک قطرہ حقیر مگر اسی سے انسان کا حجم ‘ اس کی قامت ‘ اس کی صورت ‘ اس کی ساری معنوی قوتیں ظہور میں آجاتی ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں یکسر تغیر وتحول کا قانون جاری ہے ۔ شکم مادر میں جنین کو دیکھو کتنی مختلف حالتوں سے گزرتا ہے ؟ نطفہ سے علقہ علقہ سے مضغہ ‘ مغضہ سے عظم لحم ‘ عظم ولحم سے شکل و صورت پھر پیدائش کے بعد بچے کو دیکھو ‘ کس طرح یکے بعد دیگر نشو وبلوغ کے درجے بدلتا رہتا ہے ؟ جوان آدمی کو دیکھو ‘ کس طرح جسم وعقل کے کمال تک پہنچتا ہے اور پھر زوال کی طرف پلٹتا ہے گویا انسان کی ہستی سراسر تبدل ہے ‘ تطور ہے ‘ تحمول ہے ۔ ایک حالت سے بدل کر دوسری حالت میں داخل ہوتے رہنا ہے ۔ عالم نباتات اور اعادہ تحول : یہی حال عالم نباتات کا ہے ، زمین کی گود میں بھی زندگیاں اور پیدائشیں ہیں جس طرح یہاں ” نطفہ “ ہے وہاں بھی تخم اور تخم کے ذرات ہیں ۔ تم دیکھتے ہو کہ اس کی گود زندگیوں سے بالکل خالی ہوگئی ، پھر دیکھتے ہو کہ زندگیوں کی فراوانی سے شاداب ہوگئی ۔ یہ انقلاب کس طرح ظہور میں آیا ؟ اسی طرح کہ محض ایک تخم سے ‘ تخم کے ایک ذرہ سے ‘ حیات نباتاتی کی ایک جوہری تلقیح سے ‘ پورا وجود نباتاتی پیدا ہوگیا اور تبدل وتحول کی تمام حالتیں اس پر بھی اسی طرح گزریں جس طرح تمہاری ہستی پر گزرتی رہتی ہیں ۔ ساتھ ہی غور کرو ‘ یہاں ایک تیسرا قانون بھی کام کر رہا ہے تم دیکھتے ہو کہ تبدل کے لئے ایک اجل مسمی ہے یعنی ایک مقررہ وقت جونہی وہ وقت آیا ‘ احیاء و اجسام ظہور میں آگئے ۔ (نطفۃ) کو دیکھو (نقر فی الارحام مانشآء الی اجل مسمی) وہ اندرونی طور پر بنتا رہتا ہے ‘ مگر ایک مقررہ وقت تک ارحام کے اندر چھپا رہتا ہے اجسام نباتیہ کو دیکھو ‘ ان کی زندگی کا جو ہر موجود ہوتا ہے ‘ مگر ابھرتا نہیں ‘ ابھرتا کب ہے ؟ (اذا انزلنا علیھا المآئ) جب بارش کی گھڑی آتی ہے اور زندگی کے بروز ونمود کا اعلان کردیتی ہے اس وقت (آیت) ” اھتزت وربت وانبتت من کل زوج بھیج “ کا عالم نمایاں ہوجاتا ہے۔ تخم حیات اور اعادہ نشتہ : یہ انسان وحیوان کی کامل ہستی جو محض ” نطفہ “ سے ظہور میں آجاتی ہے کیوں ظہور میں آتی ہے ؟ اس لئے کہ اس میں جوہر حیات بالقوۃ موجود ہے اور پھر وہ بالفعل نمود کرتا ہے ۔ اچھا اگر تمہاری روزانہ زندگی کا یہ معاملہ تمہارے لئے عجیب نہیں تو یہ بات کیوں عجیب ہوجائے کہ اسی طرح کوئی نطفہ حیات ہے جو مرنے کے بعد بھی موجود رہتا ہے اور اس سے دوبارہ وجود انسانی ظہور میں آجائے گا ؟ تم کہو گے ‘ اس کی کوئی مثال نہیں لیکن تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو جب کہ اس کی مثال ہمیشہ تمہاری نگاہوں سے گزرتی رہتی ہے ؟ (آیت) ” وتری الارض ھامدۃ “۔ تم زمین کو دیکھتے ہو ‘ وہی زمین جو کچھ عرصہ پہلے شاداب تھی ‘ یک قلم سوکھ گئی ہے ۔ پھر جب اس کی زندگی کی (اجل مسمی) آجاتی ہے ‘ یعنی پانی برسنے لگتا ہے تو اچانک مرئی ہوئی شادابی دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے اور ہر تخم نباتی اٹھ کھڑا ہوتا ہے ‘ جس طرح نباتات کا اعادء نشۃ کا یہ منظر ہمیشہ دیکھتے رہتے ہو ٹھیک اسی طرح انسانی زندگی کے اعادہ نشۃ کا معاملہ بھی سمجھو بارش نے نئی زندگی نہیں پیدا کردی ۔ اسی پیدا شدہ زندگی کو دہرا دیا جو زمین کو آغوش میں محفوظ موجود تھی ، قیامت کی اجل مسمی بھی نئی زندگی پیدا نہیں کرے گی ، اسی پیدا شدہ زندگی کو دہرا دے گی جو کائنات کی آغوش میں موجود ہے ۔ اب تم کہو گے اگر موجود ہے تو دکھائی کیوں نہیں دیتی ؟ لیکن تمہیں کونسی چیز دکھائی دیتی ہے ؟ تمہیں نطفہ میں انسان اور تخم میں درخت دکھائی دیتا ہے ؟ تم کہو گے کہ نطفہ اور تخم تو دکھائی دیتا ہے اور زندگی کے جو جراثیم آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے ‘ آلات کے ذریعے دیکھ لئے جاسکتے ہیں ، ہاں دیکھ لئے جاسکتے ہیں ‘ مگر اس لئے کہ زیادہ دقیق نہیں ‘ جو دقیق نہیں تھے وہ تمہیں صاف نظر آتے رہے ، جو دقیق تھے وہ ہزاروں برس تک نظر نہیں آئے یہاں تک کہ تم نے طاقتور خوردبینیں ایجاد کیں پس تم کیسے حکم لگا سکتے ہو کہ ان سے بھی دقیق تر تخم ہائے حیات موجود نہیں ؟ اگر تمہیں صرف اتنی سی بات کیلئے دس ہزار برس تک انتظار کرنا پڑا تو نطفہ حیوانی کے جراثیم دیکھ لو تو تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ ان سے بھی دقیق تر تخم ہائے حیات کے لئے تمہیں چند ہزار برس اور مطلوب نہیں ؟ اور ان کا مرئی نہ ہونا ان کی معدومیت کا قطعی ثبوت ہے ؟ اب دیکھو مندرجہ صدر موعظت سے ان پانچوں باتوں پر کس طرح اذعان ویقین کی روشنی پڑ رہی ہے ؟ ا : (آیت) ” ان اللہ ھو الحق “۔ کیونکہ یہ سب کچھ بغیر اس کے نہیں ہو سکتا کہ خالقیت اور قدرت کی ایک حقیقت کام کر رہی ہے ۔ تم وجدانی طور پر ایسا اعتقاد رکھنے پر مجبور ہو۔ ب : (آیت) ” انہ یحی الموتی “۔ کیونکہ زندگی نہ تھی اس نے اس کو پیدا کیا اور پھر برابر اسے دہراتا رہتا ہے ۔ ج : (آیت) ” انہ علی کل شیء قدیر “۔ کیونکہ جس کی قدرت نے ایک ایسے مواد سے جو مٹی اور پانی کا ملا جلا کیچڑ تھا زندگی کا شعلہ روشن کیا اور اس کا ایسا نظم قائم کردیا کہ نطفہ کا ایک قطرہ اور تخم کے ایک ذرہ سے پیدائشیں نکلتی اور زندگیاں بنتی رہتی ہیں ‘ اس کی قدرت سے کونسی بات بعید ہو سکتی ہے ؟ د : (آیت) ” ان الساعۃ اتیۃ لا ریب فیھا “۔ ایک مقررہ گھڑی قیامت کی ضرور آنے والی ہے کیونکہ یہاں تبدیلی کا قانون نافذ ہے اور ہر تبدیلی کے لئے ایک اجل مسمی مقرر ہے ، پس جس طرح بارش کی مقررہ گھڑی تمام اجسام نباتیہ کو موت کی حالت سے زندگی کی حالت میں لے آتی ہے ضروری ہے کہ نوع انسانی کے لئے بھی ایک ایسی ہی اجل مسی ہے ۔ ہ : (آیت) ” وان اللہ یبعث من فی القبور “۔ اور جب وہ گھڑی آئے تو تمام اموات لہلہاتی ہوئی کو نپلوں کی طرح اٹھ کھڑی ہوں ۔ (من فی القبور) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردے قبر نامی محل دفن میں مدفون کئے گئے ہیں بلکہ عربی کا محاورہ ہے کہ مردوں کو اصحاب قبور کہتے ہیں (ما انت بمسمع من فی القبور) یعنی تو مردوں کو مخاطب نہیں کرسکتا زندوں ہی سے بات چیت کی جاسکتی ہے ۔ قرآن کی اصطلاح میں ” بعث “ ” موت “ اور ” حیات “ ۔ قرآن کی اس موعظت کو ٹھیک طور پر سمجھ لینے کے لئے ضروری ہے کہ چند مقامات واضح ہوجائیں ۔ اولا : قرآن نے جا بجا حیات بعد الموت کو (بعث) سے تعبیر کیا ہے ۔ (بعث) کے معنی اٹھ کھڑا ہونے کے ہیں ۔ گویا اس کے نزدیک یہ معاملہ ایسا ہوگا جیسے کوئی سو رہا تھا ‘ پر اٹھ کھڑا ہوا ۔ وہ اسے خلقت کے ” اعادہ “ سے بھی تعبیر کرتا ہے ۔ (آیت) ” کما بدانا اول خلق نعیدہ “۔ (21 : 104) ثانیا : موت اور حیات کا اطلاق وہ صرف انہی دو حالتوں پر نہیں کرتا جو فلسفیانہ اصطلاح کی معدومیت اور تخلیق ہیں بلکہ ہر ایسی حالت پر کرتا ہے جس میں زندگی کی نمود مفقود ہوجائے یا بالفاظ دیگر صورت معدوم ہوجائے اور پھر نمایاں اور متشکل ہوجائے ، اس باب میں اس کا اطلاق اس درجہ وسیع ہے کہ نیند کی حالت پر بھی اس نے موت کا اطلاق کیا ہے اور دراصل یہ خود عربی زبان کا لغوی اطلاق ہے ، بعد کو موت اور حیات نے جو فلسفیانہ معانی پہن لئے وہ قرآن کی زبان نہیں ہے ۔ انسان کا مشاہدہ اور اعتقاد بھی یہی ہے ” نطفہ “ کو ہم زندہ نہیں کہتے ‘ حالانکہ اس میں زندگی کا جرثومہ موجود ہے ۔ آم کی گٹھلی اور پتھر کے ایک ٹکڑے میں ہم کوئی فرق نہیں کرتے دونوں ہماری زبان ‘ ہمارے اعتقاد اور ہمارے مشاہدہ میں بےجان ہیں ‘ حالانکہ علمی اصطلاح میں گٹھلی بےجان نہیں ۔ اس میں نباتی زندگی کا تخم موجود ہے ۔ پس قرآن کریم کے اختیارات لغویہ کو کہ لغت کے اعتبار سے ہیں ‘ علمی مصطلحات پر ڈھالنا نہیں چاہئے ۔ اس کی زبان میں ” موت “ عام ہے خواہ انعدام محض ہو ‘ خواہ انعدام صورت ہو۔ اسی طرح ” حیات “ بھی عام ہے ‘ خواہ معدومیت محضہ سے تخلیق ہو ‘ خواہ کسی جوہر حیات سے بروز وانبعاث ہو ۔ چناچہ جس طرح وہ اس ابتدائی حالت کو موت سے تعبیر کرتا ہے جو عدم محض کی حالت تھی ؟ اسی طرح نطفہ کی اور تخم ہائے نباتات کی حالت کو بھی موت سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے پہلی زندگی مٹی سے ہوئی جب کہ حیات حیوانی میں سے کچھ نہ تھا ‘ پھر نطفہ سے ہوتی ہے جبکہ نطفہ کا جوہر حیات موجود ہوتا ہے ۔ ثالثا : اس نے حشر اجساد کے معاملہ کو بھی اسی حالت سے تشبیہہ دی ہے ‘ جو نطفہ سے زندگی کے ابھرنے اور تخم سے درختوں کے نکلنے کی حالت ہوتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا انسان کی دوسری زندگی کا ظہور اس طرح کا ظہور نہ ہوگا جیسا کہ ابتدائی تخلیق کا ظہور تھا یعنی بغیر کسی اصل حیات کے حیات ظہور میں آگئی تھی بلکہ ایسا ہوگا جیسا نطفہ سے ‘ ایک نئی پیدائش اور بزور نباتات سے ایک نیا انبعاث ظہور میں آجاتا ہے یعنی اصل حیات بالقوہ موجود ہوتی ہے اور یہ بالفعل ظہور میں آجاتی ہے ۔ اسی لئے وہ اسے (بعث) سے تعبیر کرتا ہے یعنی جیسے کوئی آدمی بہت دیر تک سوتا رہا تھا ‘ پھر اٹھ کھڑا ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے انبعاث کے احساسات و واردات ایسے بیان کئے ہیں جیسے نیند کے بعد بیدار ہونے پر طاری ہوا کرتے ہیں ، مثلا جا بجا کہا ہے ‘ اس وقت لوگ سوچیں گے ‘ ہم کتنے عرصہ حیات بیخبر رہے ؟ کوئی کہے گا تھوڑی دیر ۔ کوئی کہے گا زیادہ عرصہ تک اور پھر یہی وجہ ہے کہ وہ اس حالت کو اعادہ حیات سے تعبیر کرتا ہے اور عالم ہستی کے تبدل وتحول سے استدلال کرتا ہے یعنی جب فطرت کائنات کے ہر گوشہ میں تبدل حالت کا قانون کام کر رہا ہے اور یہاں ہر قدم پر تبدل اور ہر منزل پر تجدد ہے تو کیوں تمہیں اس سے انکار ہو کہ ایک اور تبدل بھی پیش آنے والا ہے اور اس کا نام بعث وحشر ہے ؟ انسان اپنی ہستی کی جس منزل تک پہنچ چکا ہے ‘ وہاں سے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھے کتنے بیشمار تبدلات ہیں جن سے اس کی ہستی گزرتی رہی ہے ؟ پھر اگر ماضی میں بیشمار تبدلات ہوچکے ہیں تو کیوں مستقبل میں بھی نہ ہوں ؟ کیوں تبدلات کا سفر اسی منزل تک پہنچ کر رک جائے ؟ کیوں اس پر تعجب ہو کہ جہاں ایک ہزار تبدیلیاں ہوچکی ہیں وہاں ایک آخری تبدیلی اور بھی ہونے والی ہے ؟ ہم نے اضافی حیثیت سے یہاں ” آخری “ کہہ دیا ‘ ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ تبدل بھی آخری ہوگا ؟ (آیت) ” وما اوتیتم الا قلیلا “۔ رابعا : ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں جو چیز بھی اپنا وجود پالیتی ہے ‘ پھر اس کی حقیقت معدوم نہیں ہوتی صرف صورت معدوم ہوجاتی ہے اور اسی صورت کا انعدام ہمارے لئے اس کا معدوم ہوجانا ہوتا ہے ۔ تم درخت کو چیر کر تختہ بنا لیتے ہو ۔ اب درخت معدوم ہوگیا ۔ تختہ پیدا ہوگیا ‘ مگر جو چیز معدوم ہوگئی وہ کیا تھی ؟ صورت یا حقیقت ؟ محض صورت جو پیدا ہوگئی وہ کیا پیدا ہوئی ؟ نئی حقیقت یا نئی صورت ۔ کیونکہ درخت پر جو تبدیلی طاری ہوئی ‘ وہ صرف صورت کی ہوئی ‘ حقیقت تختے کی بھی وہی ہے جو درخت کی تھی ، اب تختہ جلا دو تختہ نابود ہوگیا ‘ راکھ پیدا ہوگئی ، راکھ بھی اڑا دو راکھ نابود ہوگئی ، منتشر ذرات پیدا ہوگئے ‘ مگر ان دونوں حالتوں میں بھی جو انعدام ہوا وہ کس چیز کا ہوا ؟ محض صورت کا ، اگر تم منتشر ذروں کا بھی تعاقب کرسکتے ہو تو کر دیکھو صورت بدلتی جائے گی حقیقت کبھی معدوم نہیں ہوگی ، کیونکہ یہاں ہر گوشہ میں تبدل صرف صورت کے لئے ہے حقیقت کیلئے نہیں ہے ۔ لیکن صورت کے اس تبدل کا سلسلہ کس نقطہ پر جا کر ختم ہوتا ہے ؟ اس کا کھوج ہم آج تک نہ پا سکے ۔ ہماری جستجو کا قافلہ ہمیشہ کی طرح اب بھی رواں ہے ، ہم نے عرصہ تک عناصر کا خواب دیکھا ، ہم مدتوں جزء لا یتجزی کی سراغ رسانی میں رہے ہم نے ذی مقراطیسی سالمات پر صدیوں تک اعتماد کیا اب ہم الیکڑون (ELECTRON) کی مثبت اور منفی لہروں میں اسے دیکھ رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آگے بڑھیں گے یا یہیں رکے رہیں گے ، البتہ اس آخری منزل نے حقیقت کا ایک نیا جلوہ آشکارا کردیا ہے یعنی یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مادہ کا آخری بقایا محض ایک جامد ذرہ ہی ہے بلکہ حرکت و خواص حرکت کی ایک مشتعل قوت ہے اور نہیں معلوم اس نقطہ قوت میں فعل وانفعال کی کتنی دنیائیں پوشیدہ ہیں۔ تبدل صورت اور بقاء حقیقت سے استدلال : قرآن کہتا ہے جب تم دیکھ رہے ہو کہ یہاں تبدل صورت اور بقاء حقیقت کا قانون ہر گوشہ میں کام کر رہا ہے تو پھر تم نے کیسے سمجھ لیا کہ ایک انسانی ہستی وجود میں آکر پھر مطلقا نابود ہوجاتی ہے اور اس کی کوئی حقیقت جوہری باقی نہیں رہتی ؟ فطرت کا جو قانون وجود ہستی کے ہر گوشہ میں نافذ ہے وہ زندگی اور روح کے لئے کیوں معطل ہوجائے ؟ وہ انسان کی زندگی کے لئے کیوں معطل ہوجائے جو کرہ ارضی کی تمام مخلوقات کا ماحصل اور سلسلہ تخلیق کا منتہی اور مقصود ہے ؟ نہیں یہاں کوئی ہستی بھی جو وجود میں آجائے نابود محض نہیں ہو سکتی ۔ بلاشبہ اس کی صورت مٹ جاتی ہے مگر حقیقت نہیں مٹے گی ۔ اس کی صورت پر ہزار تبدیلیاں طاری ہوجائیں مگر بالآخر کوئی نہ کوئی حقیقت جوہری ضرور باقی رہے گی ، وہ ایک دانہ تخم کی طرح ہو ‘ ایک نطفہ پیدائش کی طرح ہو ‘ ایک ذرہ حیات کی طرح ہو مگر ممکن نہیں کہ موجود نہ ہو ۔ وہ کسی نہ کسی حالت میں ضرور موجود رہتی ہے اور پھر جونہی بعث و اعادہ کی گھڑی آئے گی اور زندگی کا صور پھونکا جائے گا ہر انسانی زندگی اس سے نمودار ہو کر اٹھ کھڑی ہوگی ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح نطفہ پیدائش سے شکم مادر میں تخم نباتی سے آغوش ارضی میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ یہاں کوئی ہستی جو پیدا ہوجائے ‘ پھر نابود نہیں ہوجاتی ۔ وہ کسی مخفی نشیمن میں سوئی رہتی ہے ۔ اب اسے دوبارہ خلق کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ صرف اٹھا دینے کی ضرورت ہوتی ہے ، نباتات کی ہستی ذرات تخم کی نشیمنوں میں سوئی رہتی ہے جب نمو وبروز کا موسم آتا ہے تو وہ نئی ہستیاں پیدا نہیں کردیتا سوئی ہوئی ہستیوں کو بیدار کردیتا ہے ۔ اسی طرح انسان کی ہستی بھی کسی نہ کسی ذرہ تخم میں بند ہو کر سو رہتی ہے اور جب وقت آئے گا تو اٹھ کھڑی ہوگی تم اسے دیکھتے نہیں لیکن تم اور کتنی حقیقتوں کو دیکھ رہے ہو ؟ تمہیں اس حقیقت کا پتہ نہیں لیکن تم نے اور کتنی حقیقتوں کا پتہ لگا لیا ہے ؟ تمہارے عدم ادراک سے حقیقت معدوم نہیں ہو سکتی تم اگر اعتقاد وجود کے لئے مشاہدہ وجود کو شرط سمجھ لو گے تو تم کو آدھی دنیا سے انکار کردینا پڑے گا تم نے اگر ایسا سمجھ لیا ہوتا تو آج حقائق مادیہ کی دو تہائی حقیقتیں غیر معلوم ہوتیں ، تم عرفان حقیقت کی راہ میں صرف حواس کے سہارے چل نہیں سکتے تمہیں ادراک عقلی کا سہارا پکڑنا پڑتا ہے اور پھر جب یہ سہارا بھی جواب دے دیتا ہے تو تم رک جاتے ہو اور انتظار کرتے ہو تمہیں اس گوشہ میں بھی مان لینا چاہئے اور انتظار کرنا چاہئے ۔ خامسا : قرآن نے بعث وحشر کے معاملہ کا جس طرح ذکر کیا ہے اور عالم نباتات کے اعادئہ حیات کی مقررہ گھڑی سے جس طرح اسے تشبیہہ دی ہے اس سے ایسا متبادر ہوتا ہے کہ تبدل کائنات کے معاملہ کو بھی موسموں کی تبدیلیوں کا سا معاملہ تصور کرنا چاہئے ، دنیا میں ہم دیکھتے ہیں ‘ خزاں و بہار ‘ خشک سالی وسیرابی ‘ گرمی وسردی کے مختلف موسم آتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح تبدل کائنات کا بھی ایک موسم ہے اور ہمارے سال کی طرح اس کا بھی کوئی سال اور ہماری روز شماریوں کی طرح اس کی بھی روز شماری ہے لیکن ہم اپنی تقویم پر جو کائنات کے صرف ایک حقیر کرہ کی سیروگردش کا نتیجہ ہے اس کی تقویم کو قیاس نہیں کرسکتے ۔ اس کی مدت کوئی بڑی ہی طولانی مدت ہے ‘ اتنی طولانی کہ ہماری وقت شماری کا پچاس ہزار سال اور اس کا صرف ایک دن ، چناچہ آگے چل کر سورة معارج میں پڑھو گے (آیت) ” تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ “۔ (70 : 4) ہمارے سال کے موسموں کی طرح اس کا بھی ایک موسم ختم ہوتا اور دوسرا موسم شروع ہوتا ہے ‘ یہاں جب حیات ارضی کا موسم آتا ہے تو اس کی محرک اول بارش ہوتی ہے ‘ بارش گرتی ہے اور اموات نباتات کو زندگی کا حکم مل جاتا ہے ۔ (آیت) ” اھتزت وربت وانبتت من کل زوج بھیج “۔ ٹھیک اسی طرح جب سال کائنات کا وہ مقررہ موسم آئے گا تو بارش ہی کی طرح زندگی کا کوئی صور پھونک دیا جائے گا (آیت) ” فاذا نفخ فی الصور نفخۃ واحدۃ “۔ (69 : 13) اور اس مجرد حکم سے تمام اموات انسانی اٹھ کھڑی ہوں گی (آیت) ” یخرجون من الاجداث کانھم جراد منتشرہ مھطعین الی الداع “۔ (54 : 7 ‘ 8) علم اس مقام میں نہیں کہ جرات انکار کردے : آخر میں ایک اصل عظیم نہیں بھولنی چاہئے جہاں تک مسئلہ حیات کی حقیقت کا تعلق ہے علم انسانی کے سامنے کوئی یقینی روشنی موجود نہیں ۔ ہم اس وقت تک یہ بھی نہیں جان سکے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ ارنست ہیکل ( Ernst Hacckal) کے لفظوں میں ہم زیادہ سے زیادہ جو کرسکے ہیں وہ صرف یہی ہے کہ ” اس کے آنے کا انتظار کریں اور جب آجائے تو اس کے اطورا واحوال اور خواص وافعال کے تعاقب میں نکل جائیں ۔ “ لیکن وہ ہے کیا ؟ آتی کہاں سے ہے ؟ وہ جاتی کہاں ہے ؟ تو اس بارے میں علم انسانی کا قدم اس جگہ سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکا جہاں ہزاروں برس سے متحیر و درماندہ کھڑا ہے ۔ جب حقیقت حیات کے بارے میں ہماری عقلی معلومات کا یہ حال ہے تو کیا ہمیں ایسا مقام حاصل ہے کہ وحی الہی کے اعلانات علم ویقین کے معاملہ میں نفی و انکار کی جرات کریں ؟ اگر کریں گے تو یہ ویسی ہی جرات ہوگی جیسے اسی سورت میں جدال فی اللہ بغیر علم سے تعبیر کیا ہے ۔ (آیت) ” ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولا ھدی ولا کتاب منیرا)
Top