Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 75
اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌۚ
اَللّٰهُ : اللہ يَصْطَفِيْ : چن لیتا ہے مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں میں سے رُسُلًا : پیغام پہنچانے والے وَّ : اور مِنَ النَّاسِ : آدمیوں میں سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اللہ نے فرشتوں میں سے بعض کو پیام رسانی کے لیے برگزیدہ کرلیا اس طرح بعض انسانوں کو بھی ، بلاشبہ اللہ ہی سننے والا ، دیکھنے والا ہے
اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں سے جس کو چاہتا ہے رسول چن لیتا ہے : 75۔ اس آیت نے گزشتہ آیت 73 کی ساری پوزیشن واضح کردی کہ لوگوں نے انسانوں میں رسولوں ‘ نبیوں اور نیک لوگوں کی پرستش کی تھی اور اس طرح بعض نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کو اپنا سفارشی ‘ حاجت روا اور مشکل کشا تصور کیا تھا لہذا دونوں کی نفی فرما دی کہ نہ تو کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی الوہیت ومعبودیت میں اس کا شریک ہے اور نہ ہی فرشتوں میں ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں سے پسند کرلیتا ہے ۔ اس لئے نہ تو ان کے نبیوں ‘ رسولوں اور دوسروں نیک بندوں میں کوئی اس کا شریک وسہیم ہے اور نہ ہی فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں بلکہ دونوں گروہ اس کے بندے ہیں اور دونوں ہی گروہ اسی اللہ رب ذوالجلال والاکرام کو اپنا خالق و معبود مانتے ہیں ، یہ جاہلوں اور بیوقوفوں کی جہالت اور بیوقوفی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کو بھی کسی کو اس کا بیٹا قرار دے کر کسی کو اس کی بیٹی قرار دے کر اور کسی کو ولی سمجھ کر اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگتے ہیں حالانکہ ایسا کرنے اور ایسا سمجھنے کا ان کو کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ غور کیجئے کہ اس جگہ انسانوں اور فرشتوں کو رسول بنانے کا مضمون توحید الہی کے بعد بیان کیا اس لئے کہ انسانوں اور فرشتوں کو معبود الہ تسلیم کیا گیا تھا اس لئے ان ایسا تسلیم کرنے والوں کو باور کرایا کہ یہ تو اس کے برگزیدہ بندے ہیں تم نے ان کو ان کے اصل مرتبہ سے اٹھا کر خدائی کے مرتبہ پر کیسے بٹھا دیا کیا خالق و مخلوق کو ایک درجہ پر رکھا جاسکتا ہے ؟ زیر نظر آیت میں انسانوں کو رسول بنائے جانے کا ذکر کر کے یہ بھی ثابت کردیا کہ رسالت کے لئے پسند کئے گئے لوگ دو ہی طرح کے تھے ایک انسان اور دوسرے فرشتے اور تیسری کسی مخلوق کو اللہ نے رسالت کا مستحق نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ہو سکتا تھا ، یہ ان لوگوں کے لئے ایک زبردست کوڑا ہے جو رسولوں کی بشریت سے انکاری ہیں اور بڑی دیدہ دلیری سے یہ تحریر کرتے ہیں کہ ” فرشتے محمد رسول اللہ ﷺ کے نور سے پیدا ہوئے کیونکہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہرچیز میرے ہی نور سے پیدا فرمائی ۔ “ (مجموعہ رسائل ج اول ص 37) ” عالم نور محمدی ﷺ کا ابتدائے وجود میں محتاج تھا کہ وہ نہ ہوتا تو کچھ نہ بنتا ‘ یوں ہی ہر شے اپنی بقا میں اس کی دست گر ہے آج اس کا قدم درمیان سے نکال لیں تو عالم دفعتا فنائے محض ہوجائے وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو ۔ “ (مجموعہ رسائل ج اول ص 37) ” اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے اس لئے قرآن پاک میں جا بجا انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا اور درحقیقت انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کفار کا دستور ہے ۔ “ (تفسیر مفتی محمد نعیم الدین) سامعین کو تعجب دلانے کے لئے فرمایا گیا کہ رسول کو بشر کہنے والے ” ایسے فریبی ‘ مکار اور ایسے احمق بھی موجود ہیں ۔ “ (ایضا) لیکن حق حق ہے اور باطل باطل اس طرح تحریر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ نے زیر نظر آیت کی تفسیر میں یہ تحریر کروا دیا کہ ” یہ آیت ان کفار کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ بشر کیسے رسول ہو سکتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ مالک ہے وہ جسے چاہے اپنا رسول بنائے وہ انسانوں میں سے بھی رسول بناتا ہے جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت سید عالم صلوۃ اللہ تعالیٰ علیہم وسلامہ “ (تفسیر نعیمی تفسیر سورة الحج آیت 75 ص 493) اب عبارت کے دونوں حصوں کو قریب کرکے ایک بار پھر پڑھ لو اور فیصلہ خود کرلو کہ حقیقت کیا ہے چناچہ تحریر ہے کہ ” اس لئے قرآن پاک میں جا بجا انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا ہے “ اور دوسری عبارت یہ ہے کہ ” یہ آیت ان کفار کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا تھا “ گویا جو رسول کو بشر کہے وہ کافر ہے اور جو رسول کو بشر نہ کہے وہ بھی کافر ہے تو مسلمان کون ہے ؟ یہ فیصلہ آپ خود کرلیں یا مفتی محمد نعیم الدین مرحوم کے روحانی اور حقیقی وارثوں سے پوچھ لیں ہم کچھ کہیں گے تو شاید وہ صحیح نہ ہو اور وہ ہم کو وہابی کہہ کر ہماری بات کا گلا گھونٹ دیں گے ، ارشاد الہی کو ایک بار پھر سن لو کہ ” اللہ نے فرشتوں میں سے بعض کو پیام رسانی کے لئے برگزیدہ کرلیا اور اس طرح بعض انسانوں کو بھی بلاشبہ اللہ ہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ “ اس کو معلوم ہے کون کیا کہہ رہا ہے اور کیوں کہہ رہا ہے ؟
Top