Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 9
ثَانِیَ عِطْفِهٖ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ لَهٗ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ نُذِیْقُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَذَابَ الْحَرِیْقِ
ثَانِيَ عِطْفِهٖ : موڑے ہوئے اپنی گردن لِيُضِلَّ : تاکہ گمراہ کرے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ لَهٗ : اس کے لیے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَّنُذِيْقُهٗ : اور ہم اسے چکھائیں گے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : جلتی آگ
مگر گھمنڈ کرتے ہوئے اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس کی راہ سے بھٹکا دیں ، ایسے آدمی کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی رسوائی ہے اور قیامت کے دن بھی ہم اسے عذاب آتش کا مزہ چکھائیں گے
ایسے انسان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہوگا : 9۔ (ثانی عطفہ) کے معنی ہی اس نے اعراض کیا ‘ الگ ہوگیا نخوت وتکبر کے باعث جسے کہتے ہیں کہ ” میں بھی اور کوئی اور بھی “ گویا یہ وہ حالت ہے جس میں انسان غرور وتکبر کے ساتھ کسی سے اپنا رخ موڑتا ہے تو شانہ جھٹک کر موڑتا ہے اور یہ اس شخص کی حالت ہوتی ہے جس کے پاس دولت کی ریل پیل ہو اور اہل واولاد کی کثرت بھی جس کو ہماری زبان باپ واولاد والا آدمی کہا جاتا ہے لیکن ان ساری باتوں کے باوجود اگر اس کے پاس نہ ہو تو کوئی صحیح دلیل موجود نہ ہو جو اس کے جی میں آئے کرے اور جو جی میں آئے کہے لیکن اس سے کوئی دلیل طلب کرنے کی جرات ہی نہ کرے اور ایسے ہی اگر کوئی سوال کر بھی دے تو وہ اپنی اس حرکت سے اس کے سوال کو بےوقت کرنے کی کوشش کرے فرمایا وہ نامراد خود تو بھٹکا ہی ہے لیکن اب دوسروں کو بھی بھٹکا دے گا کیونکہ خیر نام کی کوئی چیز اس کے اندر موجود نہیں وہ جو کرے گا وہ انوکھا ہی ہوگا اور جو کہے گا وہ بھی یقینا فضول ہوگا اس کے انجام کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ اس کی دنیا میں رسوائی ہوگی اور اس کی آخرت بھی یقینا برباد ہوگی ۔ یہ ان لوگوں کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ یا آیات الہی میں خواہ مخواہ جھگڑنے لگتے ہیں فرمایا ان لوگوں کی بےدلیل مخالفت اور ان کی غیر معقول کج بحثیوں کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ اللہ کی آیات میں جو سچائیاں اور خیر وصلاح کی باتیں ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں اس لئے یہ لوگ نیک نیتی کے ساتھ ان کو سمجھنے کی خاطر بحثیں کرتے ہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ ان کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا غرور نفس یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے دوسروں کی پیشوائی اور راہنمائی تسلیم کرلی جائے اور بالآخر انہیں خود بھی اس شخص کی قیادت ماننی پڑے جس کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو سرداری کا زیادہ حق دار سمجھتے ہیں ، ان لوگوں کی حالت کو قرآن کریم نے دوسری جگہ اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ : ” بلاشبہ جو لوگ کسی سند اور حجت کے بغیر جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیات میں جھگڑے کر رہے ہیں ان کے دلوں میں کبر بھرا ہوا ہے مگر وہ اس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں جس کا وہ گھمنڈ رکھتے ہیں ‘ بس اللہ کی پناہ مانگ لو وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے ۔ “ (ال مومن 40 : 56) اور ایک جگہ اس طرح ارشاد فرمایا کہ : ” لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم ‘ بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی راہنما کتاب کے جھگڑتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی چیز کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اس طریقہ کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ “ (لقمان 3 : 20 ‘ 21) بات کتنی واضح ہوگئی کہ جب بحث کا تعلق دلیل کی بجائے مجرد آباؤ و اجداد کی اندھی تقلید سے رہ جائے تو یہی کبر و غرور ہے جس میں مبتلا ہوجانے کے بعد آدمی کے سامنے ساری منطق بےکار ہو کر رہ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس بےدلیل یامن گھڑت دلیل مجادلہ کو کبر قرار دیا ہے ۔ زیر نظر آیت کے اس آخری حصہ میں ان کے اس استکبار کی سزا بیان کی ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ رسوا ہوں گے جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” لہ فی الدنیا خزی ونذیقہ یوم القیمۃ عذاب الحریق “۔ ایسے آدمی کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی رسوائی ہے اور قیامت کے دن بھی ہم اسے عذاب آتش کا مزہ چکھائیں گے ۔ “ مفسرین نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ یہ آیت رسولوں کے مخالفین کے باب میں ہے کہ اگر ان کے مخالفین اپنی مخالفت پر جمے رہتے ہیں تو اتمام حجت کے بعد لازما اس دنیا میں بھی وہ ذلت سے دوچار ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی وہ جہنم کے سزاوار ٹھہریں گے ، مفسرین نے اس کے حکم عام کو کیوں تسلیم نہ کیا ‘ اس لئے کہ انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ جو دین کے کھلے باغی ہیں وہ تو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں تو انہوں نے اس کی یہ تاویل کردی شاید اس لئے کہ ان کو ان لوگوں کی کو ٹھیوں ‘ کاروں ‘ کارخانوں ‘ اور فیکٹریوں نے یہ باور کرایا کہ وہ رسوا نہیں ہیں بلکہ ان کی تو بہت عزت کی جاتی ہے اور لوگ ان کو سلام کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں حالانکہ ان ساری چیزوں کے باوجود ان کی رسوائی میں کوئی شک نہیں ہے اور آنکھوں والوں کو یہ کو ٹھیاں ‘ کاریں ‘ کارخانے اور فیکٹریاں ہیں ان کی رسوائی کا باعث نظر آرہی ہیں اور آج تو یہ بات کسی انسان سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ اس ملک عزیز کے صدر سے لے کر بڑے بڑے وزیروں اور مشیروں ‘ چوہدریوں ‘ نوابوں ‘ مزاریوں ‘ لغاریوں ‘ دریشکوں ‘ کھوسوں ‘ گورمانیوں ‘ دولتانوں ‘ قریشیوں ‘ گیلانیوں ‘ گردیزیوں ‘ ڈا ہوں ‘ ممدوٹوں ‘ موکلوں ‘ قزلباش ‘ کلاں شیخوں ‘ بخاری فقیروں ‘ کھرلوں ‘ سیدوں ‘ سیالوں ‘ رجوعوں ‘ ٹوانوں ‘ ‘ کھوکروں ‘ ککھڑوں ‘ الیپالوں ‘ گوندلوں ‘ چٹھوں ‘ جو دھروں ‘ گھیبوں ‘ مکھڈوں ‘ اعوانوں ‘ نیازیوں ‘ اور بچھروں کی اخباروں ‘ رسالوں اور دوسرے سارے نشرواشاعت کے اداروں سے خوب رسوائی ہو رہی ہے اور اس ملک کا ہر غریب سے غریب آدمی بھی ان کی اس رسوائی کو جانتا ہے لیکن ان کی کو ٹھیوں کے طواف کرنے والوں کو وہ نظر نہ آئے تو یہ دوسری بات ہے ۔
Top