Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 18
قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّ لَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِیْنَۙ
قَالَ : فرعون نے کہا اَلَمْ نُرَبِّكَ : کیا ہمنے تجھے نہیں پالا فِيْنَا : اپنے درمیان وَلِيْدًا : بچپن میں وَّلَبِثْتَ : اور تو رہا فِيْنَا : ہمارے درمیان مِنْ عُمُرِكَ : اپنی عمر کے سِنِيْنَ : کئی برس
فرعون نے کہا کیا ہم نے تجھ کو لڑکپن میں پرورش نہیں کیا اور تو اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ساتھ نہیں رہا ؟
اے موسیٰ ! کیا ہم نے بچپنے میں تیری پرورش نہیں کی اور تو ایک مدت ہم میں نہیں رہا : 18۔ غور کیجئے کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے پیغام کا جواب ہے ؟ کیا یہ وہی بات نہیں کہ سوال گندم جواب چنے ؟ جیسا کہ آپ نے پیچھے پڑھا موسیٰ (علیہ السلام) نے اطلاعا اس سے کہا تھا کہ ہم دونوں رب العالمین کے بھیجے ہوئے آئے ہیں اور آنے کا مقصد یہ بتایا تھا کہ قوم بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دے چونکہ دونوں ہی باتیں اس کے لئے ناقابل برداشت تھیں پہلی بات سے براہ راست اس کی اپنی ربوبیت پر زد پڑتی تھی کیونکہ اس کا دعوی تو رب اعلی ہونے کا تھا اس لئے دوسری جگہ اس نے کہا بھی کہ ” میں تو اپنے سوا تمہارا کوئی رب نہیں جانتا “ اور اب وہ کیسے گوارا کرتا کہ مجمع عام میں کوئی بات کہہ دے جو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہہ دی ہے اور دوسری قوم بنی اسرائیل کی رہائی کی تھی کہ ان کو آزادی ملے اور وہ آزاد ہو کر اپنے معاملہ کو سوچ سکیں اور کوئی قدم اٹھا سکیں ایک مدت تک غلامانہ زندگی بسر کرنے والی قوم میں آزادی کی روح پھونکنا اتنا آسان مسئلہ نہیں اس لئے جب تک وہ فرعون کے تسلط سے آزازد نہ ہوں وہ کسی بات پر کان نہیں دھریں گے ادھر فرعون بھی بنی اسرائیل کو ہجرت کی اجازت دے اپنی قوم کو ایسے جفاکش مزدوروں کی خدمات سے محروم نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس طرح اس کا دہرا نقصان تھا ایک تو وہ خود اور اس کی پوری قوم قبطی ان خدمات سے محروم ہوجاتی جو بنی اسرائیل سرانجام دے رہے تھے اور دوسری طرف اگر ان میں جذبہ جہاد پیدا ہوجاتا تو وہ فرعون اور اس کی پوری قوم کو یکدم نگل سکتے تھے کیونکہ ہو سب کے سب جفاکش بھی تھے اور تعداد میں بھی زیادہ تھے اور فرعون نے اپنی مختلف سکیموں کے تحت ان پر قبضہ جما رکھا تھا ، ذرا غور کریں کہ آپ کے اس ملک عزیز میں کتنے و ڈیرے ہیں ؟ بلاشبہ آج بھی وہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں لیکن متوسط درجے کے لوگوں کو اور ان کے ذریعہ سے پوری عوام کو وہ کسی طرح انگلیوں پر نچا رہے ہیں اگر یہ متوسط درجہ کے لوگ بپھر جائیں اور عوام بھی ان کا ساتھ دیں تو نتیجہ کیا ہوگا ؟ اس ملک عزیز کے و ڈیرے یعنی فراعنہ بھی سمجھتے ہیں اور اس وقت کا فرعون موسیٰ بھی اس حقیقت کو سمجھتا تھا اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو احسان فراموش ثابت کرنے کے لئے جواب دیا کہ اے موسیٰ تو وہی شخص تو نہیں ہے جس کی ماں نے تابوت میں ڈال کر دریا میں ڈال دیا تھا اور ہم نے وہاں سے پکڑ کر تیری پرورش شروع کردی اور ایک مدت تیری پرورش میں لگے رہے اور حتی الامکان تیری تربیت میں کوئی اٹھا نہ رکھی اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اس نے مزید کہا کہ :
Top