Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 39
وَ اسْتَكْبَرَ هُوَ وَ جُنُوْدُهٗ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ
وَاسْتَكْبَرَ : اور مغرور ہوگیا هُوَ : وہ وَجُنُوْدُهٗ : اور اس کا لشکر فِي الْاَرْضِ : زمین (دنیا) میں بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق وَظَنُّوْٓا : اور وہ سمجھ بیٹھے اَنَّهُمْ : کہ وہ اِلَيْنَا : ہماری طرف لَا يُرْجَعُوْنَ : نہیں لوٹائے جائیں گے
اور (اس طرح) فرعون اور اس کے لشکر ناحق زمین میں مغرور ہو رہے تھے اور سمجھ رکھا تھا کہ ان کو ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آنا ہے
فرعون اور اس کے لشکر نے بغیر حق کے تکبر کیا اور وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے تھے : 39۔ فرعون اور اس کے لشکر نے تکبر و غرور کی راہ اختیار کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں پر دھیان کرنے کی زحمت گوارار ہی نہ کی حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت عقل وفکر کی دعوت تھی لیکن بڑے لوگوں کی باتوں پر کوئی عقل سے کام لے تو آخر کیوں لے ان کا حکم تو صرف ماننے کیلئے ہوتا ہے سمجھنے کے لئے نہیں اور ہماری مذہبی پیشوا ان کی اس حرکت سے اتنے متاثر ہوچکے ہیں کہ ہو جو بات چاہیں اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے نام سے کہہ دیتے ہیں اور پھر جب کوئی شخص عقل سے کام لے کر سوچنے کی کوشش کرتا ہے کہ آیا ایسا حکم اللہ تعالیٰ کی ذات دے بھی سکتی ہے یا نہیں تو یہ لوگ جھٹ کفر کا فتوی جڑ دیتے ہیں کہ دیکھو اللہ کی کہی ہوئی بات کو عقل سے سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ بڑوں کی باتوں کو عقل سے نہیں پرکھا جاسکتا بلاشبہ یہ تفہیم فرعون اور اس کے لشکر کی طرف سے آئی ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے نہیں اور انہوں نے یعنی فرعون اور اس کے درباریوں نے ایسی باتیں اس لئے کی اور کہی تھیں کہ وہ حقیقت میں آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے اس لئے وہ اپنے آپ کو کسی ضابطے کا پابند بھی نہیں سمجھتے تھے اور ان کے خیال میں قانون کی پابندی کرنا کمزوری کی علامت خیال کی جاتی تھی اور ہمارے مذہبی پیشواؤں نے بھی اس کی تقلید میں اس کو کمزوری قرار دیا ہے حالانکہ اگر غور کیا جائے تو وعدہ خلافی نہ کرنا اور نہ ہونے دینا طاقت وقوت کی ایک بہت بڑی اہم دلیل ہے ۔
Top