Ruh-ul-Quran - Faatir : 8
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غالب کردے عَلَي الدِّيْنِ : دین پر كُلِّهٖ ۭ : تمام وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
کیا وہ شخص کہ مزین کردیا گیا ہے اس کے لیے اس کا برا عمل، پس وہ اسے اچھا سمجھنے لگا ہے (ایمان لانے والا بن سکتا ہے ؟ ) پس اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے، پس (اے پیغمبر) ان پر غم و افسوس میں اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ بیشک اللہ تعالیٰ باخبر ہے ان کاموں سے جو وہ کر رہے ہیں
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَـہٗ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا ط فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ صلے ز فَلاَ تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ ۔ (فاطر : 8) (کیا وہ شخص کہ مزین کردیا گیا ہے اس کے لیے اس کا برا عمل، پس وہ اسے اچھا سمجھنے لگا ہے (ایمان لانے والا بن سکتا ہے ؟ ) پس اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے، پس (اے پیغمبر ! ) ان پر غم و افسوس میں اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ بیشک اللہ تعالیٰ باخبر ہے ان کاموں سے جو وہ کر رہے ہیں۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اس آیت کریمہ میں مخالفین کے ایمان قبول نہ کرنے اور مخالفت میں مزید تیزی پیدا کردینے کے حوالے سے آپ کو تسلی دی گئی ہے۔ کیونکہ آپ لوگوں کے ایمان قبول نہ کرنے پر دو وجہ سے انتہائی دل گرفتہ ہوجاتے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ آپ یہ سمجھتے کہ ان کے ایمان قبول نہ کرنے کا سبب شاید میری تبلیغ و دعوت کی مساعی میں کوئی کمی اور کوتاہی ہے۔ ورنہ جس قدر میں پیار اور محبت اور غمگساری سے انھیں ایمان کی دعوت دیتا ہوں اور پھر جس طرح خون جگر پی پی کر انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں اس سے زیادہ کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ یہ انسانی استطاعت کی آخری حد ہے۔ اس کے باوجود ان کا ایمان قبول نہ کرنا بجز اس کے اور کیا سمجھا جاسکتا ہے کہ شاید میرے اخلاص یا میری جدوجہد میں کوئی تقصیر پائی جاتی ہے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ قرآن کریم کا کلام اللہ ہونا اور پھر اس کلام کا معجز ہونا اور دشمنوں کے یہاں بھی اس کی تأثیر کا اعتراف کیا جانا اور اس کے داعی کی شخصیت کا بےعیب سیرت و کردار کا مالک ہونا بجائے خود یہ تقاضا کرتا ہے کہ ایسی دعوت کو فوراً قبول کیا جائے اور سننے والے اس پر ایمان لانے میں تاخیر نہ کریں۔ لیکن مخالفین کے طرزعمل کو دیکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ دلگرفتہ بھی ہوتے اور سوچ میں بھی مبتلا ہوجاتے کہ آخر ان کے ایمان نہ لانے کا سبب کیا ہے۔ چناچہ آپ کو تسلی دیتے ہوئے ان دونوں باتوں کا جواب دیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ کسی بھی صداقت اور حقیقت سے کسی انسان کی دوری کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اسے حقیقت اور صداقت کا علم نہیں ہوتا، یا اس کی عادتیں اور خصلتیں اس حد تک بگڑ چکی ہیں کہ اس کے برعکس کسی بات کو تسلیم کرنا اس کے لیے مشکل ہورہا ہے۔ چناچہ مسلسل تبلیغ و دعوت اور فہمائش سے اس بات کی امید ہوتی ہے کہ عادتوں اور خصلتوں میں تبدیلی آئے گی۔ اور یہ شخص جسے برائی کے برائی ہونے سے انکار نہیں اور اچھائی کے اچھائی ہونے کا اعتراف بھی ہے۔ افہام و تفہیم بالآخر اس کی جمی ہوئی برف کو توڑے گا اور اس کا ضمیر کبھی نہ کبھی اسے ملامت کرے گا اور آخر وہ اس ہدایت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ایسے ہی لوگوں کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ایسے ہی لوگ ان کی ہدایت کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن اگر صورتحال یہ ہوجائے کہ جن لوگوں کے سامنے وہ صداقت پیش کی جارہی ہے وہ اس صداقت کے مخالف طرزعمل کو سب سے بڑی صداقت سمجھنے لگیں۔ ان کا ذہنی سانچہ اس حد تک بگڑ جائے کہ اس میں گناہ اور برائی کے داخل ہونے کے تو سو راستے ہوں لیکن نیکی کے داخل ہونے کا کوئی راستہ نہ ہو۔ اسے گناہ سے تو گہری دلچسپی ہو، برائی اس کے لیے تسکین کا باعث بن جائے۔ بدی عین تہذیب و ثقافت قرار پائے، فسق و فجور اس کی نگاہوں میں ترقی پسندی کی علامت بن جائے۔ ایسے شخص سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی بھی صداقت، نیکی اور بھلائی کی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ جن بڑے بڑے لوگوں سے آپ کو واسطہ پڑا ہے اور اشرافِ قریش جو آپ کی مخالفت میں بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہ لوگ اسی فتنے میں گرفتار ہیں۔ انھیں اپنی برائیاں بھلائیاں معلوم ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے طرزعمل میں خودپسند ہوچکے ہیں۔ یہ اپنی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں اس لحاظ سے یہ لوگ قانونِ الٰہی کی زد میں آچکے ہیں۔ اس کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی شخص بگاڑ کی اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کی زد میں آجاتا ہے جسے قرآن کریم میں ختم قلوب یا رین سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایسے لوگوں پر کوئی تذکیر و تنبیہ اثر نہیں کرتی۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہدایت و ضلالت کے قانون کی طرف اشارہ ہے۔ پھر تسلی کے اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے قانون کی زد میں آچکے اور انھیں سماع قبول سے محروم کردیا گیا ہے۔ وہ اگر آپ کی دعوت کو قبول نہیں کرتے تو آپ ان کی خاطر اپنے دل کو روگ کیوں لگاتے ہیں اور آپ ان کی خاطر غم و افسوس میں گھلتے کیوں جارہے ہیں۔ آپ کا کام تبشیر و انذار اور ابلاغ ہے، سو یہ آپ کرچکے۔ اس لیے جتنی محنت ہونا چاہیے تھی آپ نے اس سے بڑھ کر کی ہے۔ آپ نے امانت کا حق بھی ادا کیا اور ہمدردی و غمگساری کا بھی۔ ہدایت کے اعتبار سے ایک ایک آدمی کے ساتھ آپ کی ہمدردی و غمگساری اپنی جگہ، یہ یقینا مخلوقِ خدا اور اپنی منصبی ذمہ داریوں کے ساتھ غایت درجہ تعلق کی دلیل ہے۔ لیکن اس کی بھی حدود ہیں۔ اسے اس قیمت پر ادا کرنا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کو ہلکا سمجھنے لگیں اور انھیں یہ خیال پیدا ہوجائے کہ شاید اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج ہے اور مزید یہ کہ اس کی وجہ سے آپ کی صحت گرنے لگے، یہ پروردگار کو گوارا نہیں۔ اس لیے کئی مواقع پر آپ کو اس بات سے روکا گیا کہ آپ کا کام تبشیر و انذار ہے ان کی ہدایت کے لیے اپنے آپ کو روگ لگا لینا نہیں۔ سورة الکہف میں ارشاد فرمایا : فَلَعَلَّـکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَالْحَدِیْثِ اَسَفًا ” شاید آپ اپنی جان کو ہلاک کردیں گے ان لوگوں کے پیچھے افسوس کے باعث اگر وہ لوگ ایمان نہ لائے۔ “ یہاں بھی آپ کو تسلی دیتے ہوئے اس صورتحال پر توجہ دلائی گئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی مخالفین کو تنبیہ کرتے ہوئے اور آنحضرت ﷺ کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپ کی مخالفت میں جو کچھ کررہے ہیں چاہے وہ آپ کے خلاف کی جانے والی سازشیں ہوں یا منصوبہ بندیاں، اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کو جاننے والا ہے۔ اور ان باتوں کی سزا بھی دے گا۔ کیونکہ جب کوئی بڑا حکمران کسی مفسد آدمی سے یہ کہتا ہے کہ میں تمہاری ہر بات سے باخبر ہوں۔ تو اس کا مطلب صرف اپنے باخبر ہونے کی اطلاع دینا نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت ایک تنبیہ ہوتی ہے کہ تم اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو اس کے بعد تم سے بدترین سلوک ہوگا اور تمہارے کرتوتوں کی تمہیں سزا ملے گی۔ یہاں بھی یہی بات فرمائی گئی ہے۔
Top