Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
(اے پیغمبراسلام ! ) بلاشبہ آپ ﷺ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے (کیوں ؟ اس لیے کہ آپ ﷺ تو سب ہی کی ہدایت کے خواہاں ہیں) لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے (اپنے قانون کے مطابق) ہدایت دیتا ہے اور وہ راہ پانے والوں کو خوب جانتا ہے
نبی اعظم وآخر ﷺ کو مخاطب کرکے تسلی دی جا رہی ہے اور قریش مکہ کو شرم دلائی جا رہی ہے : 56۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی نبوت و رسالت کا سن کر دور دراز سے لوگ سفر کرکے آتے اور ایمان کی سعادت حاصل کرکے جاتے تھے اس سے نبی کریم ﷺ کے دل میں اپنی قوم اور اپنے خاندان کے لوگوں کے لئے یہ قلق پیدا ہونا ایک فطری امر تھا اس لئے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے تسلی دی کہ آپ ﷺ کیوں ہلکان ہوتے ہیں آپ ﷺ کا کام تو فقط پیغام پہنچانا ہے آپ ﷺ کے اختیار میں ہدایت تو دی ہی نہیں گئی کہ جس جس کو آپ ﷺ چاہیں ہدایت دیتے چلے جائیں اور دوسری طرف قریش مکہ کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ چشمہ ہدایت سے سیراب ہونے کے لئے دور دراز سے لوگ آرہے ہیں اور تم لوگ کتنے بدبخت ہو کہ چشمہ ہدایت پر بیٹھنے کے باوجود ہدایت سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہو ۔ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ اس بات پر حریص تھے کہ سب لوگ اسلام کے اس سرچشمہ فیض سے سیراب ہوں اور اللہ رب العزت کے سارے بندے اس کی بارگاہ میں سرنیاز جھکا دیں اور اپنے اہل شہر ‘ اہل قبیلہ اور اپنے رشتہ داروں کے متعلق آپ ﷺ کی دلی آرزو تھی کہ ان میں سے کوئی بھی نعمت ایمان سے محروم نہ رہے ، اللہ تعالیٰ رسول اللہ کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ہدایت بخشنا آپ ﷺ کا کام نہیں ہے کہ جس کو آپ ﷺ چاہیں ہدایت دے دین یہ بات صرف اور صرف ہم ہی سمجھتے ہیں کہ کون اس قابل ہے کہ اس کے دل میں ایمان کی شمع فروزاں کی جائے کس میں اس نعمت الیہ کو قبول کرنے استعداد ہے اور کس میں نہیں کہ غیب کا علم آپ ﷺ کو نہیں دیا گیا اس لئے آپ ﷺ کسی کے لئے بھی اتنی حرص نہ کریں کہ اپنی جان ہی سے ہاتھ دھو لیں ۔ اس سلسلہ میں مفسرین نے کئی ایک لوگوں کی ہدایت کی حرص کا نام بھی لیا ہے کہ آپ ﷺ چاہتے تھے کہ یہ یہ لوگ ہدایت پا جائیں لیکن ان کو ہدایت نصیب نہ ہوئی لیکن جب حکم عام ہے تو ان کو خاص کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رسول ﷺ کو یہ اختیار نہیں دیا تو اور کون ہوگا جس کو یہ اختیار دیا گیا ہوگا ؟ بلاشبہ ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ وہ جس کو چاہے ہدایت یافتہ کر دے اس لئے اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے ہدایت طلب کرنی چاہئے ، (آیت) ” بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر “۔
Top