Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 45
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ١ۖۗ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
اِذْ : جب قَالَتِ : جب کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُبَشِّرُكِ : تجھے بشارت دیتا ہے بِكَلِمَةٍ : ایک کلمہ کی مِّنْهُ : اپنے اسْمُهُ : اس کا نام الْمَسِيْحُ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم وَجِيْهًا : با آبرو فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمِنَ : اور سے الْمُقَرَّبِيْنَ : مقرب (جمع)
پھر اس وقت کا ذکر کرو جب فرشتوں نے کہا تھا ، اے مریم ! اللہ تجھے اپنے کلام کے ذریعے ایک لڑکے کی بشارت دیتا ہے اس کا نام مسیح عیسیٰ ہوگا اور مریم کا بیٹا کہلائے گا ، وہ دنیا و آخرت دونوں میں ارجمند ہوگا اور اللہ کے حضور پہنچا ہوا ہو گا
سیدہ مریم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے لڑکے کی بشارت دی : 107: سیدہ مریم ہیکل کی کفالت اول سے نکل کر کفالت ثانی میں داخل ہوچکی تھیں ابھی زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی ایک جماعت کو اپنے کلام کے ذریعے ایک لڑکے کی بشارت دے کر بھیجا اور ساتھ ہی اس ہونے والے لڑکے کا لقب اور نام بھی تجویز فرمادیا اور اس ہونے والے بچے کی کنیت بھی مقرر فرمادی فرمایا کہ اس ہونے والے لڑکے کا لقب مسیح ، نام عیسیٰ اور کنیت ابن مریم رکھی گئی ہے اور وہ انہی ناموں سے یاد کیا جائے گا۔ سبحان اللہ ! کیا شان ہے اس بچے کی جو سیدہ مریم کے ہاں جنم لینے والا تھا۔ گویا سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ان مبارک بچوں میں سے ایک تھے جن کے متعلق ان کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تھی جیسے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحٰق اور اسماعیل (علیہ السلام) کی خبردی تھی بلکہ اسحٰق (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت ہی ان کے ہاں بچہ پیدا ہونے کی خبر دی اور اس کا نام بھی رکھ دیا گیا کہ اسحٰق (علیہ السلام) کے ہاں جو بچہ پیدا ہوگا اس کا نام یعقوب ہوگا پھر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو بیٹے کی خوشخبری دی اور اس کی زندگی بچانے کی اطلاع دے کر باقاعدہ اس کے لیے ایک پروگرام مرتب کر کے موسیٰ کی والدہ کو سمجھا دیا اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی خبر سیدہ مریم کو دے کر اس کا لقب ، نام اور کنیت بھی رکھ دی۔ قرآن کریم میں اس ہونے والے لڑکے یعنی مسیح (علیہ السلام) کو اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ 1ۖۗ گیا ہے اور ترجمہ یوں کیا جاتا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ تجھے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے “ اس لحاظ سے گویا سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا ایک کلمہ کہا گیا ہے۔ پھر عیسائیوں کا اس پر بہت زور ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو ” کلمہ “ کہه کر قرآن کریم نے ایک ایسی خصوصیت دے دی ہے جو دوسرے نبی کو نہیں دی گئی۔ پھر اس خصوصیت کو بنیاد بنا کر مسیح کو خدا بنایا جاتا ہے۔ کبھی خدا کا بیٹا اور خدا کا ایک تیسرا جزو قراردیاجاتا ہے۔ یہی وہ دلیل ہے جو ہم مسلمانوں کے ہاں مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت کو ” بس باب “ ثابت کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہی وہ دلیل ہے جو وفد نجران نے نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کی اور یہی وہ دلیل ہے جو آج بھی عیسائی قرآن کریم سے مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ وفد نجران کا سوال اور نبی کریم ﷺ کا جواب کی تفصیل ” عیون زمزم فی میلاد عیسیٰ ابن مریم “ نامی کتاب میں مل جائے گی اور اسی طرح ہم مسلمانوں کے ہاں مسیح (علیہ السلام) کی ” بن باپ “ پیدائش کے متعلق بھی وہی ذکر کیا گیا ہے وہاں سے ملاحظہ فرمالیں۔ اس جگہ صرف یہ بیان کرنا ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ مسیح (علیہ السلام) ’ ’ كلمة من اللہ “ کہا گیا ہے اور کسی دوسرے نبی کا نام لے کر اس کے ساتھ ” كلمة اللہ “ کا لفظ نہیں بولا گیا تو کیا اس سے مسیح کی خدائی ثابت ہوتی ہے یا بشریت کے دائرہ سے وہ نکل جاتے ہیں۔ اگر یہ دعویٰ ہے تو آخر اس کی دلیل کیا ہے ؟ کوئی دلیل نہیں تو کیونکر صرف اسی خصوصیت سے مسیح (علیہ السلام) دائرہ بشریت سے نکل کر خدا بن جاتے ہیں ؟ جب کہ قرآن کریم صرف اسی خصوصیت سے مسیح (علیہ السلام) دائرہ بشریت سے نکل کر خدا بن جاتے ہیں ؟ جب کہ قرآن کریم میں مسیح (علیہ السلام) کو ” كلمة منہ “ کہا ہے یعنی اپنی طرف سے ایک کلمہ جس سے یہ واضح ہوگیا کہ وہ اکیلا ہی ” کلمہ “ نہیں بلکہ کلموں میں سے ایک کلمہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے کلمات کے متعلق قرآن کریم میں اسی طرح بیان فرمایا : قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ (الکہف 18 : 109) ” اے پیغمبر اسلام ! اعلان کردیجیے کہ اگر میرے رب کے کلمات لکھنے کے لیے دنیا کے تمام سمندر سیاہی بن جائیں تو سب سمندروں کا پانی جو سیاہی بن چکا ہے وہ ختم ہوجائے گا مگر میرے رب کے کلمات نہ ختم ہوں گے اگر ان سمندروں کا ساتھ دینے کے لیے ایسے ہی اور سمندر بھی پیدا کردیں جب بھی وہ کفایت نہ کریں۔ “ پھر یہ جو زور دے دے کر کہا جاتا ہے کہ صرف کلمہ ہی نہیں کہا بلکہ ” كلمة منہ “ کہا یعنی ” منہ “ کہه کر اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ سے ہونے کا شرف عطا فرمایا گیا ہے۔ ہاں ! تو مسیح (علیہ السلام) کے اس اعزاز سے کس کو انکار ہو سکتا ہے ؟ لیکن اس سے یہ بات جو بیان کی گئی ہے کہ اس سے ” اللہ سے ہونا “ قرار پاتا ہے یہ کہاں تک صحیح ہے قرآن کریم ہی سے پوچھ لیتے ہیں تاکہ قرآن کریم کے الفاظ کے لیے کم از کم باہر کی مدد کی ضرورت رہے اور جو مطلب اس جگہ بھی لے لیاجائے۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے : وَسَخَّرَلَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِنْهُ (الجاثیہ 45 : 13) ” اور جو کچھ آسمانوں و زمین میں ہے وہ سارے کا سارا تمہارے لیے اس نے مسخر کردیا ہے اپنی طرف سے۔ اگر ” كَلِمَةً مِّنْهُ “ کا اللہ سے ہونا نکلتا ہے تو اس آیت سے یعنی الجاثیہ کی آیت 13 سے ” جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب کا سب اس سے ہونا “ ثابت ہوگا۔ حالانکہ حقیقت صرف یہ ہے کہ جس طرح آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ان سب کا خالق اللہ ہے اس سے ثابت ہوتا ہے بالکل اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے سیدنا مسیح (علیہ السلام) بھی اسی طرح اللہ کی مخلوق اور بندہ ہیں جس طرح دنیا کی ہرچیز اللہ ہی کی مخلوق ہے۔ اور جس طرح دوسرے انسان اللہ نے پیدا کیے ہیں اسی طرح سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے۔ ہاں ! جس طرح دوسرے بہت سے انسانوں کو اللہ نے نبی و رسول بنایا تھا اسی طرح مسیح (علیہ السلام) کو بھی نبی و رسول بنایا تھا۔ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق بشارت تھی کہ وہ اللہ کے برگزیدہ نبی ہوں گے : 108: مسیح (علیہ السلام) کے اس لقب ” مسیح “ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنا نبوت کا ہاتھ پھیر کر لوگوں کی بدرسومات کا خاتمہ کریں گے اور نام ” عیسیٰ “ سے بھی اسم بامسمّیٰ ہوں گے کہ بہت سے علاقہ میں سیرو سیاحت کرتے اور نبوت کا پیغام پہنچاتے جائیں گے اور یہ دونوں باتیں بھی تورات و انجیل سے ثابت ہوتی ہیں اور خود قرآن کریم میں بھی اس کی تصریحات پائی جاتی ہیں۔ وجیہ کے معنی ہیں ” نو وجاھة “ یعنی عزت و مرتبہ والا اور بلند مقام و وجاہت والا ہوگا۔ جو کبھی ذلیل و رسوا نہیں ہوگا۔ جدھر جائے گا ضرور عزت و تکریم پائے گا۔ اس جگہ ان کے ذکر کی اس لیے ضرورت پیش آئی کہ یہودو نصاریٰ نے سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی زندگی بہت خراب طریقوں سے گزرتی ہوئی بتائی تھی قرآن کریم نے ان کا رد فرمایا دیا کہ یہ سب تمہاری اپنی اختراع ہے وہ تو پیدا ہونے سے بھی پہلے عزت و وجاہت والا بتایا گیا تھا اور اس دنیا میں بھی اس نے ایک بلند مقام حاصل کیا۔ ہاں ! اس کی مخالفت ضرور ہوئی لیکن ان ساری مخالفتوں کے باوجود اس نے ایک بہت بلند مقام پایا۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ کی انسان کی جتنی زیادہ مخالفیں ہوں گی اس کا کردار اتنا ہی نکھر تا چلا جائے گا۔ جس طرح سونا بھٹی میں ڈالنے سے مزید کھرا ہوجاتا ہے اور اس کے اندر جو میل کچیل ہوتی ہے وہ ساری کی ساری جل کر راکھ ہوجاتی ہے۔ سچے انسان کی مخالفتیں اس کی سچائی میں مزید نکھار پیدا کردیتی ہیں۔ انبیاء کرام تو مجسمہ سچائی ہوتے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کی مخالفت کرنے والے بھسم ہوگئے لیکن انبیاء کرام کی سچائی کی داستانیں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں اور اب بھی ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گی۔ یہ تو دنیا کا حال تھا کہ ان کی سچائی کا نور چمکتا رہا۔ چمکتا ہے اور چمکتا رہے گا اور رہا آخرت کا معاملہ سو اس کے متعلق بھی ارشاد فرما دیا کہ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۠ اور آخرت میں بھی یقیناً وہ مقربوں میں سے ہوں گے۔ اور انبیائے کرام تو سارے ہی مقرب ہوتے ہیں لیکن امت محمدیہ کے ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ نے اس فضیلت سے نوازا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَۚۙ0010 اُولٰٓىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَۚ0011 (الواقعہ ) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا : ” عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ “ (التطفیف ) نبی اعظم و آخر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر پہلے پہلے ایمان لانے والے سارے کے سارے لوگ مقرب الٰہی ہیں۔ قرآن کریم نے یہ اعزاز ان لوگوں کو بھی نوازش کردیا جو بعثت نبوی ﷺ کا سنتے ہی ایمان لے آئے اور یہ بشارت تھی جو ان نیک نفوس کو دنیا ہی میں سنا دی گئی۔ پھر آخروی وجاہت کے ساتھ جو دنیوی وجاہت بھی عطا فرمائی جانے کا وعدہ فرمایا تھا جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے وہ بھی حرف بھی حرف پورا ہوا کیونکہ دنیوی وجاہت میں خاندان کی عزت و ناموس کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ پھر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت سے کون واقف نہیں ؟ یہودو نصاری ! اور مشرکین مکہ سب ہی آپ کی دنیوی عزت و وجاہت کے قائل ہیں اور اس طرح سیدنا دائود (علیہ السلام) کی عزت و ناموس کون نہیں جانتا ؟ یہودونصاریٰ دونوں ہی گروہ زبور کے ثنا خوان ہیں اور داؤد (علیہ السلام) کی نبوت کو بھی مانتے اور تسلیم کرتے ہیں اور سیدنا مسیح (علیہ السلام) کا حسب نسب بھی داؤد (علیہ السلام) کے واسطے سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے مل جاتا ہے چناچہ اناجیل میں ہے کہ ” یسوع مسیح ابن داؤد ابن ابراہیم “ اور اس طرح لوقا اور متی کے نسب ناموں میں اس کی وضاحت موجود ہے اور مسلمانوں کے ہاں بھی سیدنا مسیح (علیہ السلام) ذریت ابراہیم میں شمار کیے گئے ہیں۔ چناچہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ ” اور ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں سے دائود ، سلمان ، ایوب ، یوسف ، موسیٰ ، ہارون کو بھی ہم اسی طرح نیک کرداروں کو بدلہ دیتے ہیں اور زکریا ، یحییٰ ، عیسیٰ اور الیاس کو بھی کہ یہ سب ہی نیک انسان تھے۔ “ (الانعام 6 : 84) اس طرح قرآن کریم کی زبان میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ” ذریة طیبة “ اور ” غلام زکیا “ کے الفاظ سے یاد کیے گئے ہیں ان الفاظ سے بھی آپ کی دنیوی وجاہت اور خاندانی عزت و تکریم ہی کی طرف اشارات ہیں کیونکہ دنیوی حالات کے مطابق بھی جس شخص کے ماں باپ بلکہ باپ دادا اوپر تک عزت و شرف کے مالک ہوں ان کی پہچان بہت آسان ہوتی ہے اور اس طرح ہر کس و ناکس ان کی عزت و تکریم پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے سارے انبیاء کرام اپنے اپنے وقت میں حسب و نسب کے لحاظ سے مشہور و معروف اور جانے پہچانے انسان ہوتے تھے۔ بلکہ یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ نبی کی اصل و نسل میں کفرو شرک تو ہو سکتے ہیں جن کی امثال موجود ہیں لیکن حسب و نسب میں دنیوی عزت و شرف اور جان پہچان اچھی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔ قرآن کریم میں جن انبیاء کرام کا تذکرہ موجود ہے تقریباً سب ہی میں یہ پہلو نظر آتا ہے کیونکہ ان کے حسب و نسب میں کسی مخالف سے مخالف آدمی نے بھی انگشت زنی نہیں کی۔ اگر کسی بد طینت نے کہیں زبان کھولی بھی ہے تو الٰہی قانون نے اس کی زبان کو فوراً کھینچ لیا ہے اور ایسا جواب دیا کہ وہ انگشت بدنداں رہ گیا ہے۔ بشارت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی میں ان کی عمر کی بھی رجسٹری کردی گئی: 109: سیدہ مریم (علیہ السلام) کو جس بچہ کی بشارت دی جارہی ہے اس کے لقب ، نام اور کنیت کے ساتھ اس کی صفت کو ملا دیا گیا اور اس کی عمر کی بھی قانون الٰہی نے رجسٹری کردی تاکہ مریم (علیہ السلام) اپنے ہونے والے بچے کے ساے پہلوؤں سے واقف ہوجائیں۔ اور جہاں جہاں جیسے جیسے خطرات ہوں ان کا دفاع بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہے تاکہ انسانی سعی و کوشش کے قانون الٰہی کی پابندی بھی ساتھ ساتھ کی جاسکے۔ فرمایا تیرا موعود بیٹا اپنے بچپنے ہی میں نبوت کے کلام سے سرفراز کردیا جائے گا اس کو چالیس سال تک کی مدت کا انتظار نہیں کرنا ہوگا اور پھر یہ بھی کہ اس کے بچپنے اور ادھیڑ عمر کی باتوں میں کوئی تناقض نہیں ہوگا کیونکہ اس کی زبان ایک عام انسان کی زبان نہیں ہوگی بلکہ ہوش سنبھالتے ہی وہ لسان الٰہی کا ترجمان نظر آئے گا اور دنیا گواہ ہے کہ بالکل ایسا ہی ہوا۔ ” اس کے ماں باپ ہر برس عید فسخ پر یروشلم کو جایا کرتے تھے اور جب وہ بارہ برس کا ہوا تو وہ عید کے دستور کے مطابق یروشلم کو گئے۔ جب وہ ان دونوں کو پورا کر کے لوٹے تو وہ لڑکا یسوع یروشلم میں رہ گیا اور اس کے ماں باپ کو خبر نہ ہوئی۔ مگر وہ یہ سمجھ کر کہ وہ قافلہ میں ہے ایک منزل نکل گئے۔ اور اس کو اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں میں ڈھونڈنے لگے۔ جب نہ ملا تو اسے ڈھونڈتے ہوئے یروشلم تک واپس آگئے اور تین روز کے بعد ایسا ہوا کہ انہوں نے اسے ہیکل میں استادوں کے بیچ میں بیٹھے ان کی سنتے اور ان سے سوال کرتے ہوئے پایا۔ اور جتنے اس کی سن رہے تھے اس کی سجھ اور اس کے جوابوں سے دنگ تھے۔ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئے اور اس کی ماں نے اس سے کہا بیٹا ! تو نے کیوں ہم سے ایسا کیا ؟ دیکھ تیرا باپ اور میں کڑھتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے تھے۔ اس نے ان سے کہا تم مجھے کیوں ڈھونڈتے تھے ؟ کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضروری ہے ؟ مگر جو بات اس نے کہی اسے وہ نہ سمجھے۔ اور وہ ان کے ساتھ روانہ ہو کر ناصرہ آیا اور ان کے تابع رہا اور اس کی ماں نے یہ سب باتیں اپنے دل میں رکھیں۔ “ (لوقا باب 2 درس 50 ۔ 40) یہ صرف ایک حوالہ ہے جو انجیل ہی سے لیا گیا ہے۔ غور سے پڑھو اور ساتھ یہ قرآن کریم کی وہ پیش گوئی بھی دیکھو جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد ﷺ پر نازل فرمائی ہے کہ ” اے مریم تیرا یہ بیٹا بچپنے اور ادھیڑ عمر میں یکساں طور پر نبوت کا کلام کرے گا۔ “ کس طرح صحیح ثابت ہو رہی ہے اور ان دونوں کاموں میں چھ سات سو سالوں کا وقفہ پایا گیا ہے۔
Top