Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 55
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسٰٓى : اے عیسیٰ اِنِّىْ : میں مُتَوَفِّيْكَ : قبض کرلوں گا تجھے وَرَافِعُكَ : اور اٹھا لوں گا تجھے اِلَيَّ : اپنی طرف وَمُطَهِّرُكَ : اور پاک کردوں گا تجھے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَجَاعِلُ : اور رکھوں گا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْكَ : تیری پیروی کی فَوْقَ : اوپر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْٓا : کفر کیا اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن ثُمَّ : پھر اِلَيَّ : میری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹ کر آنا ہے فَاَحْكُمُ : پھر میں فیصلہ کروں گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان فِيْمَا : جس میں كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے تھے
اس وقت کا ذکر کرو جب اللہ نے فرمایا تھا اے عیسیٰ ! میں تیرا وقت پورا کروں گا ، تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا ، تیرے منکروں سے تجھے پاک کر دوں گا اور جن لوگوں نے تیری پیروی کی انہیں قیامت تک تیرے منکروں پر برتری دوں گا اور بالآخر تم سب کو میری طرف لوٹنا ہے ، اس دن ان باتوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہے ہیں
سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی پوری زندگی کا خاکہ بدل کر رکھ دیا گیا : 126: ” جن بزرگوں کی نبوت معلوم و مسلم ہے ان میں سب سے بڑھ کر ظلم سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر کیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ویسے ہی ایک انسان تھے جیسے سب انسان ہوا کرتے ہیں۔ بشریت کی تمام خصوصیتیں ان میں بھی اس طرح موجود تھیں جس طرح ہر انسان میں ہوتی ہیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اللہ نے ان کو حکمت و نبوت اور اعجاز کی قوتیں عطا فرما کر ایک بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کے لیے معمور فرمایا تھا لیکن اول تو ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور پورے تین سال بھی ان کے وجود مسعود کو برداشت نہ کرسکی یہاں تک کہ عین عالم شباب میں انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا اگرچہ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر جب وہ ان کے بعد ان کی عظمت کے قائل ہوئے تو اس قدر حد سے تجاوز کر گئے کہ ان کو خدا کا بیٹا بلکہ عین خدا بنا دیا اور یہ عقیدہ ان کی طرف منسوب کیا کہ خدا مسیح کی شکل میں اس لیے نمودار ہوا تھا کہ صلیب پر چڑھ کر انسابن کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے کیونکہ انسان فطرتاً گناہ گار ہے اور خود اپنے عمل سے اپنے لیے نجات حاصل نہ کرسکتا تھا۔ “ ” تم دیکھو گے کہ اس کی ذات پر سب سے زیادہ ظلم اس کے معتقدین ہی نے کیا ہے انہوں نے اس پر اپنے تخیلات و اوہام سے اتنے پردے ڈال دیے ہیں کہ اس کی شکل و صوت دیکھنا ہی محال ہوگیا ہے صرف یہی نہیں کہ ان کی محرف کتابوں سے یہ معلوم کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ اس کی اصل تعلیم کیا تھی بلکہ ہم ان سے یہ بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ وہ خود اصل میں کیا ہے ؟ اس کی پیدائش میں اعجوبگی اس کی طفولیت میں اعجوبگی اس کی جوانی اور بڑھاپے میں اعجوبگی۔ اس کی زندگی کی ہر بات میں اعجوبگی اور اس کی موت تک میں اعجوبگی۔ غرض ابتداء سے انتہاء تک وہ ایک افسانہ ہی افسانہ نظر آتا ہے اور اس کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ خدا کا بیٹا یا خدا اس میں حلول کر گیا تھا یا کم از کم خدائی میں وہ کسی حد تک شریک و مبہم تھا۔ “ ” اس کے معتقدوں نے جوش عقیدت میں اس پر یہ بہتان اٹھایا اور اس کی تعلیمات میں اپنے ہوائے نفس کے مطابق اتنی تحریف کی کہ آج دنیا کی کسی کتاب میں سوائے قرآن کریم کے مسیح کی اصل تعلیم اور خود ان کی حقیقت کا نشان نہیں ملتا۔ بائبل کے عہد جدید میں جو کتابیں اناجیل اربعہ کے نام سے موجود ہیں انہیں اٹھا کر دیکھو تو سب کی سب حلول انیتخ اور عیسایت کے فاسد تخیلات سے آلودہ ہیں۔ کہیں حضرت مریم (علیہ السلام) کو بشارت ہوتی ہے کہ ” تیرا بچہ خدا کا بیٹا کہلائے گا “ (لوقا : 35) کہیں ” خدا کی روح کبوتر کی ، مانند یسوع پر اتر آتی ہے اور پکار کر کہتی ہے کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے “ (متی : 17:16) کہیں مسیح خود کہتا ہے کہ ” میں خدا کا بیٹا ہوں اور تم مجھے قادر مطلق کی داہنی جانب بیٹھے ہوئے دیکھو گے۔ “ (مرقس : 63:14) کہیں خود مسیح (علیہ السلام) کے منہ سے کہلوایا گیا کہ ” باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ہوں۔ “ (یوحنا : 42:8) کہیں اس کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتا ہے کہ ” جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا “ اور وہ باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے۔ “ (یوحنا : 10 ۔ 9:14) لیکن افسوس کہ ” جب قرآن کریم نے اس قوم کے انبیاء (علیہم السلام) کی صفائی پیش کی اور ان کا لگایا ہوا ایک ایک داغ ان کے دامنوں سے دھویا تو یہ خوش ہونے کی بجائے مقابلے پر اتر آئے اور انہوں نے ان سب داغوں کو جنہیں قرآن کریم نے دھویا تھا پھر سے داغدار کرنے کی کوشش کی۔ قرآن کریم جب نازل ہوا تو مدینہ میں یہودی موجود تھے اور نزول قرآن سے چند سال بعد جب مسلمان ایشیاء اور افریقہ کے وسیع علاقوں پر پھیلتے چلے گئے تو یہودیوں کی ایک کثیر تعداد کو ان سے میل جول کا موقع ملا۔ ان لوگوں نے ہر نبی کے متعلق وہی تمام پرانے قصے جو ان کے ہاں موجود تھے مسلمانوں میں بھی پھیلا دیے نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کریم کی بہت سی تفاسیر جو مسلمانوں نے لکھیں ان کے اثر سے مسموم ہو کر رہ گئی اور یہ معاملہ متداول تفاسیر کا مطالعہ کرنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ “ توفی کے معنی میں پورا پورا دینے کا مفہوم شامل ہے اس لیے اشارۃً یہ بات سمجھا دی کہ تمہیں طول حیات پورا پورا ملے گا یعنی تمہاری وفات تو اپنے وقت پر جب ہوگی یقینا ہوگی تمہارے دشمن تمہاری ہلاکت کے کسی منصوبہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور یقینا وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ تیرے منکر یعنی یہود تیرا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے : 127: سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیش گوئی کے طور پر گویا یہ بتا دیا گیا کہ تیرے خون کے پیاسے نہ صرف یہ کہ تجھے قتل نہیں کرسکیں گے بلکہ ان کو تہس نہس کردیا جائے گا اور پوری قوم کی قوم تیرے مقابلے میں خائب و خاسر ہوگی۔ اس سے زیادہ اور بڑی کون سی رسوائی ہوگی کہ جب پوری قوم کی قوم عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے درپے تھی اور آپ کو ان سے اس طرح نکال دیا گیا جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے اور یہ بات بھی بالکل صحیح ہے کہ انبیاء کرام سب کے سب پاک و مطہر ہی ہوتے ہیں مگر لوگ ان پر جھوٹے الزامات لگا کر ان کو نعوذ باللہ ناپاک مشہور کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان الزامات کی قرار واقعی تردید بھی ہوتی رہی ہے اور آج بھی بتوفیقہ ان بدباطنوں کے لگائے گئے الزامات رد کرنے والے موجود ہیں اور ان شاء اللہ قیامت تک موجود رہیں گے۔ اگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کے مخالفین و معاندین زندہ ہیں تو ان کو ہر طرح سے زک پہنچانے والے بھی بحمدللہ موجود ہیں۔ ان کا منہ کھلنے کی دیر ہوتی ہے کہ ان کی زبان نکالنے والے ان کے سروں پر پہنچ جاتے ہیں جو ان کے کہے کا مزا چکھا کر دم لیتے ہیں۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اس تطہیر کا ذکر یہاں فرمایا گیا کہ تیرے دشمنوں کی طرف سے آپ پر الزامات تراشیاں ہوں گی یقینا ان کا دفاع ہوتا رہے گا اور تیرے دشمن کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین یقینا کامیاب و کامران ہوں گے : 128: ” اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا “ سے یہاں پہلی اور واضح مراد یہی ہے جیسا کہ اوپر بھی وضاحت کی گئی ہے اور ” اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ “ یعنی جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کے قائل ہیں مراد مسلمان اور سچے عیسائی ہیں۔ سچے عیسائیوں سے مراد اس وقت کے عیسائی ہیں جو مسیح (علیہ السلام) کو نبی مان گئے اور یہود کے ان الزامات کی تردید کرتے رہے جو انہوں نے اس وقت عیسیٰ (علیہ السلام) پر لگائے اور ایک مسلمان تو آج بھی تب ہی مسلمان ہو سکتا ہے کہ وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کرے اور دل و جان سے قبول کرے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا اقرار نہ کرے وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اسلام کا یہ متفق علیہ عقیدہ ہے کہ کیی ایک نبی کا انکار سارے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے انکار کے مترادف ہے جن کی نبوت کا اعلان قرآن کریم میں ہوچکا کیونکہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی اور قرآن کریم کے بعد کوئی وحی آسمان سے نازل نہ ہونے کا اعلان قرآن کریم میں کردیا گیا ہے۔ آیت کریمہ کے جس حصہ کا یہ ترجمہ ہے کہ ” جن لوگوں نے تیری پیروی کی ہے انہیں قیامت تک تیرے منکروں پر برتری دوں گا “ اس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور غیر تو غیر اپنے بھی اس میں مبہوت ہوتے دکھائی دیتے ہیں کیوں ؟ اس لیے کہ دن بدن اسرائیلی حکومت قدم جماتی نظر آتی ہے اور مسلمان جو صحیح معنوں میں اس آیت کا مصداق ہیں وہ دن بدن دبتے چلے جا رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہود من حیث القوم پوری دنیا میں مالدار قوم ہونے کے باوجود اب بھی دوسروں کے سہارے زندہ ہے اور جو قوم بھی کسی کے سہارے زندہ ہو اس کو زندہ نہیں کہا جاسکتا عرف اسلام میں وہ مردہ ہی ہوتی ہے۔ اس نگاہ سے آپ دیکھیں گے تو یقینا آج بھی نہ کہیں یہود کی حکومت قائم ہے اور نہ ہی قائم ہونے کا امکان ہے۔ بلکہ وہ آج بھی اور کل بھی جب تک اس کا وجود قائم ہے دوسروں کے سہارے پر ہے۔ ابھی سہارا ٹوٹا اور ابھی حکومت دھڑام سے گر جائے گی اور ایسا یقینا ہوگا یہ ممکن نہیں کہ ایسا نہ ہو۔ ظاہری طور پر جو حالاتپدہا ہوچکے ہیں ایک طرف مسلم قوم کی فرقہ بندی اور گروہی سیاسی کا نتیجہ ہے اور دوسری طرف ان سہارا دینے والوں کے لیے ایک عذاب الٰہی تیار ہو رہا ہے اور وہ خود اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان کر رہے ہیں۔ ایک سچے مسلمان کا یہ حق نہیں کہ وہ ڈانواں ڈول ہو بلکہ اس کا ایمان تو اتنا ہی پختہ اور مضبوط ہونا چاہیے کیوں ؟ اس لیے کہ سنت اللہ یہی ہے کہ جب کسی قوم کو اللہ تعالیٰ عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے تو وہ قوم اپنی ہلاکت کے سامان خود تیار کرنا شروع کردیتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ تہہ وبالا کر کے رکھ دی جاتی ہے اور ان لوگوں کو جو زمین میں نہایت ہی کمزور ، گرے پڑے نظر آتے ہیں ان کی حیات کا سامان وہیں سے پیدا ہوجاتا ہے کسی چیزم کا دھڑام سے گرنا کتنا وقت لیتا ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے بینا آنکھ رکھنے والوں سے ذرا بھی پوشیدہ نہیں۔ عیسائی قوم جو بظاہر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو مانتی اور تسلیم کرتی ہے دراصل عیسیٰ (علیہ السلام) کی متبع نہیں رہی کیونکہ انہوں نے بالکل ایک نیا دین بنا کر عیسیٰ (علیہ السلام) کے نام سے شائع کردیا ہے تاہم ظاہری طور پر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے اقراری ہیں یہی وجہ ہے کہ ظاہری طور پر دنیا میں ان کی فوقیت بھی موجود ہے۔ جس طرح صرف ظاہری طور پر ایمان آخرت میں کچھ کام نہ آئے گا اسی طرح ظاہری طور کی یہ فوقیت بھی چند روزہ ہے۔ مسلمان یقینی طور پر عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو مانتے ہیں اور دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) کی طرح ان کی حیثیت بھی صرف ایک نبی ہی کی تسلیم کرتے ہیں نہ ان کو خدا اور نہ خدا کا بیٹا اور نہ ہی خدائی میں کوئی حصہ دار مانتے ہیں۔ ہاں ! محمد رسول اللہ ﷺ کو خوشخبری دینے والا قوم بنی اسرائیل کا آخری رسول تسلیم کرتے ہیں اس لیے سچے متبع وہی کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ یقینا وہ وقت آئے گا کہ عیسائی قوم بھی ایک دن اپنے کیے کے نتیجہ میں اسی طرح نیست و نابود ہوگی جس طرح یہود ہوچکے ہیں اور مسلمان اپنا آپ سنبھالیں گے اور اپنی اصلی حیثیت کو پہچان جائیں گے کہ وہ کیا تھے اور آج کیا ہوگئے ؟ یہ وقت کب آئے گا اور کون اس تحریک کا بانی ہوگا جو مسلمانوں کو من حیث القوم ایک اور صرف ایک ہونے کی دعوت دے گا۔ یہ ساری باتیں مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں جس کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کو ہے جس کے لیے ماضی ، حال اور مستقبل ایک ہی جیسا ہے۔ ہم سنت اللہ کے تحت یہ بات یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں اور کہہ رہے ہیں اور آیت زیر نظر اسی نظریہ کے متقاضی ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں ان سے کیے گئے وعدوں کا بیان : مختصر یہ کہ زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے چار کیے گئے الٰہی وعدوں کا ذکر کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی اپنے وعدوں کا خلاف نہیں کرتا اور نہ ہی خلاف ہونے دیتا ہے۔ وہ سب طاقتوروں سے زیادہ طاقت ور اور سارے قوت والوں کی قوت کو زائل کرنے والا ہے۔ وہ سب تدبیر کنندوں سے زیادہ تدبیر کنندہ اور سارے مکاروں کی مکاریوں کو زائل کرنے والا ہے۔ اس کا سب سے پہلا وعدہ یہ تھا کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت یہودیوں کے ہاتھوں قتل کے ذریعہ یا سولی پر چڑھانے سے نہیں ہونے دے گا بلکہ طبعی طور سے وقت موعود پر ہوگی۔ اس آیت نے ” وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًاُ “ کے الفاظ سے اس کی وضاحت فرما دی۔ یہود لاکھ کہیں کہ ہم عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی چڑھا دیا یہ بات اس سے بھی زیادہ غلط ہے جتنی یہ بات کہ کوئی کہے گدھے کے سر پر سینگ۔ اور پھر بَلْ رَفَعُہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ کہہ کر اس کی مزید توثیق کردی۔ دوسرا گروہ دشمنوں کی تہمتوں سے پاک کرنے کا تھا وہ اس طرح پورا ہوا کہ خاتم الانبیاء ﷺ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے یہود کے سارے غلط الزامات کو صاف کردیا۔ مثلاً یہود سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے نسب کو مطعون کرتے تھے قرآن کریم نے اس کی پوری پوری وضاحت کردی اور ان کو وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ بیان کیا۔ یہود نامسعود نے آپ کی والدہ ماجدہ کے متعلق وریدہ دہنی سے کام لیا اللہ تعالیٰ نے مریم (علیہ السلام) کو اس وقت کی ساری دنیا کی عورتوں پر فضیلت دینے کا اعلان کیا۔ یہود نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر خدائی کے دعویٰ کا الزام لگایا تھا قرآن کریم کی کثیر التعداد آیات و مقامات پر عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف بیان نقل کر کے ثابت کردیا کہ وہ اپنی عبدیت اور بشریت کا اعلان کرتے تھے اور ایک اللہ کی بندگی کا اقرار کرتے تھے اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ تیسرا وعدہ یہ ہے کہ تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر قیامت تک غالب رکھا جائے گا۔ یہ وعدہ بھی یقینا پورا ہوا اور پورا رہے گا کہ یہاں اتباع سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا اقرار و اعتقاء ہے اسی طرح نصاریٰ اور اہل اسلام دونوں اس میں داخل ہوگئے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کے معتقد ہیں اور یہ اعتقاد دنیوی سیادت و کامیابی کے لیے کافی تھا کیونکہ اس سے یہود کی عداوت و دشینس واضح ہوجاتی ہے اور دنیوای کامیاب و کامرانی آج بھی نصاریٰ ہی کی تسلیم ہے اور آخرت کی کامیابی کا ذکر ہی اس میں موجود نہیں بلکہ نجات آخرت اس پر موقوف ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے تمام احکام پر اعتقاد و ایمان رکھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے قطعی اور ضروری احکام میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کے بعد خاتم الانبیاء ﷺ پر بھی ایمان لائیں چونکہ نصاریٰ نے اس پر اعتقاد و ایمان اختیار نہ کیا اس لیے وہ یقینا نجات آخرت سے محروم رہے۔ مسلمانوں نے اس کو بھی قبول کیا اس لیے وہ نجات آخرت کے مستحق ہوگئے۔ لیکن دنیا میں یہودیوں پر غالب رہنے کا وعدہ صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کرنے پر موقوف تھا وہ آج بھی یہود کے مقابلہ میں نصاریٰ اور مسلمانوں کو حاصل ہے اور یقینا تا قیامت حاصل رہے گا جیسا کہ پیچھے اس کا بیان گزر چکا۔ یہود کو ان کے کئے کا نتیجہ مل رہا ہے تو ان شاء اللہ نصاریٰ کو بھی ان کے کیے کا نتیجہ مل کر رہے گا جس کا متعین وقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ چوتھا وعدہ قیامت کے روز ان مذہبی اختلافات کا فیصلہ فرمانے کا ہے اور یہ وعدہ بھی ان شاء اللہ یقینا اور حتماً اپنے وقت پر ضرور پورا ہوگا جیسا کہ زیر نظر آیت میں فرمایا گیا کہ ” اس دن ان باتوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہے ہیں “ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاحْکُمْ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُم فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ ۔ مرزا جی کا ایک پھندا اور علمائے اسلام کی سادگی : ہیں معلوم ہے کہ آیت زیر نظر یعنی سورة آل عمران کی آیت 55 پر پچھلے سو سال سے ایک معرکہ بپا رہا جس کی اصل وجہ مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک خواہ مخواہ بحث میں مبتلا کردیا جس میں ان کا اپنا فائدہ تو نظر آتا ہے کہ اس کو بنیاد بنا کر انہوں نے اپنی نبوت کی عمارت کھڑی کی لیکن علمائے اسلام کو کیا ہوا انہوں نے اس مسئلہ کو مرزا جی کی نبوت کی بنیاد کیوں تسلیم کرلیا جب کہ نبوت کا منصب ختم ہوجانے کے بعد کسی کی نبوت کا جواز ہی نہ تھا اور مرزا جی کے پاس نبوت کے لیے کوئی بنیاد ہی نہ تھی جس چیز کو انہوں نے بنیاد بنایا وہ کسی صورت بھی بنیاد نہ بن سکتی تھی۔ متوفیک کے معنی ممیتک کے صدر اول سے ہوتے چلے آ رہے تھے۔ مرزا جی نے صرف ایک شاطرانہ چال چلی اور علمائے اسلام کی اکثریت اس پھندے میں پھنس گئی۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب اس بھان متی کے تماشا کے اختتام کا وقت آیا تو اس وقت بھی علمائے اسلام نے ” احمدی غیر مسلم “ کے الفاظ ملک کے قانون میں تحریر کروانے پر رضامندی ظاہر کردی اور یہ الفاظ تحریر کرا دیے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مرزائی قادیانی قوم کو ” احمدی “ کسی صورت بھی نہیں کہا جاسکتا تھا اور مرزائیوں یا قادیانیوں کے پاس ” احمدی “ کہلانے کی کوئی دلیل نہ تھی اور نہ ہے۔ مسیلمہ کذاب سے لے کر آنجہانی مرزا ادیانی تک بائیس تئیس لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا جن کا ذکر آج بھی تاریخ اسلام میں موجود ہے لیکن الحمدللہ کہ مسلمانوں نے کسی ایک کو بھی چند یوم یا چند مہینوں سے زیادہ وقت نہیں دیا کہ اس کو واصل جہنم کردیا۔ صرف مرزا جی واحد وہ شخص ہیں جنہوں نے اسلام کو اتنی مدت تک نقصان پہنچایا یہاں تک کہ وعدہ الٰہی نے اسے آ لیا۔ اس کے کیا وجوہ تھے ایسا کیوں ہوا ؟ تاریخ میں یہ سب کچھ روشن ہے اور تفسیر کے موضوع سے یہ بات حتمی طور پر باہر ہے اس لیے اس سے صرف نظر کی جا رہی ہے۔
Top