Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠   ۧ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا وَ : اور مَكَرَ : خفیہ تدبیر کی اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہتر الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنیوالے ہیں
اور انہوں نے (برائی کی) خفیہ تدبیریں کیں اور اللہ نے ان کی (برائی کی) خفیہ تدبیروں کو ضائع کردیا اور لوگوں کی خفیہ تدبیروں کو ضائع کرنے میں اللہ سے بہتر کوئی نہیں ہے
عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف بنی اسرائیل کی خفیہ سازشیں اور حواریوں کا قبول حق : 124: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل بنی اسرائیل ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے اور انفرادی و اجتماعی عیوب و نقائص کا کوئی پہلو ایسا نہیں تھا جو ان سے بچ رہا ہو وہ اعتقاد و اعمال دونوں ہی قسم کی گمراہیوں کا مرکز و محور بن گئے تھے حتیٰ کہ اپنی ہی قوم کے ہادیوں اور پیغمبروں کے قتل تک پر جری اور دلیر ہوگئے تھے۔ یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کے متعلق معلوم کر کے ہو کہ اس نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو اپنی محبوب کے اشارہ پر کیسے عبرتاک طریقے سے قتل کرادیا تھا اور اس نے یہ سفاکانہ اقدام صرف اس لیے کیا کہ وہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی بڑھتی ہوئی روحانق مقبولیت کو برداشت نہ کرسکے اور اپنی محبوبہ سے ناجائز رشتہ پر ان کے نہی عن المنکر یعنی برائی سے بچنے کی ترغیب کی تاب نہ لاسکا اور یہ عبرت ناک سانحہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی مبارک ہی میں ان کی بعثت سے قبل پیش آچکا تھا۔ اس کی مزید وضاحت بھی تاریخ کے صفحات میں موجود ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے یہود کے عقائد و اعمال کا یہ حال تھا کہ وہ مشرکانہ رسوم و عقائد کو جزو مذہب بنا چکے تھے اور جھوٹ ، فریب ، بغض و حسد جیسی بد اخلاقیوں کو تو عملاً اخلاق کریمانہ کی حیثیت سے درکھی تھی اور اسی بنا پر بجائے شرمسار ہونے کے وہ ان پر فخر کا اظہر کرتے تھے اور ان کے علماء و احبار نے تو دنیا کے لالچ اور حرص میں کتاب اللہ یعنی توراة تک کو تحریف کیے بغیر نہ چھوڑا تھا۔ اور درہم و دینار پر اللہ کی آیات کو فروخت کر ڈالا یعنی عوام سے نذر اور بھینٹ حاصل کرنے کی خاطر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانے سے بھی دریغ نہ کیا اور اس طرح قانون الٰہی کو مسخ کرڈالا چناچہ توراة ہی میں موجود ہے کہ خاوند فرماتا ہے یہ امت بنی اسرائیل سے تو میری عزت کرتی ہے مگر ان کا دل مجھ سے دور ہے اور یہ بےفائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ میرے حکموں کو پیچھے ڈال کر آدمیوں کے حکموں کی تعلیم دیتے ہیں۔ لیکن بدبخت یہود اپنی فطرت کج ، صدیوں کی مسلسل سرکشی اور تعلیم الٰہی سے بغاوت کی بدولت اس درجہ متشدد ہوگئے تھے اور انبیاء و رسول کے قتل نے ان کے دلوں کو حق و صداقت کے قبول میں اس درجہ سخت بنا دیا تھا کہ ایک مختصر سی جماعت کے علاوہ ان کی جماعت کی بڑی اکثریت نے ان کی مخالفت اور ان کے ساتھ حسد و بغض کو اپنا شعار اور اپنی جماعتی زندگی کا معیار بنالیا اور اس لیے انبیاء کی سنت راشدہ کے مطاق رشدو ہدایت کے حلقہ بگوشوں میں دنیوی جاہ و جلال کے لحاظ سے کمزور ناتواں اور زیردست پیشہ و طبقہ کی اکثریت نظر آتی تھی۔ صعفاء کا یہ طبقہ اگر اخلاص و دیانت کے ساتھ حق کی آواز پر لبیک کہتا تو بنی اسرائیل کا وہ سرکش اور مغرور حلقہ ان پر اور اللہ کے پیغمبر پر پھبتیاں کستا ، توہین و تذلیل کا مظاہرہ کرتا اور اپنی عملی جدوجہد کا بڑا حصہ معاندت و مخالفت میں صرف کرتا رہتا تھا۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے۔ وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ 1ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ 0063 اِنَّ اللّٰهَ ہُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ 1ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ 0064 فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ 1ۚ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ 0065 (الزخرف 43 : 53 ، 65) ” اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کھلی نشانیاں لے کر آئے تو اس نے کہا ، لوگو ! میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے سامنے بعض ان باتوں کی حقیقت واضح کردوں جنمیں تم اختلاف کر رہے ہو سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ بلاشبہ اللہ یہ میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہ۔ پس اس کی بندگی کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ مگر ان کے بہت سے گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا سو ایسے ظالموں کے لیے ایک درد ناک عذاب کے دن کی تباہی ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” اور وہ وقت یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا۔ اے بنی اسرائیل بلاشبہ میں تمہاری جانب اللہ کا پیغمبر ہوں۔ تصدیق کرنے والا ہوں توراة کی جو میرے سامنے ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا کہ نام اس کا احمد ہے۔ پس جب عیسیٰ (علیہ السلام) آیا ان کے پاس روشن دلائل لے کر تو وہ بنی اسرائیل کہنے لگے یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ “ (الصف 6 : 61 ) عیسیٰ (علیہ السلام) معاندین و مخالفین کی ان دریدہ دہنیوں اور ہرزہ رسائیوں کے باوجود اپنے فرض منصی دعوة الی الحق میں سرگرم عمل رہتے اور شب و روز بنی اسرائیل کی آبادیوں اور بستیوں میں پیغام حق سناتے اور روشن دلائل اور واضح آیات کے ذریعے لوگوں کو قبول حق اور صداقت پر آمادہ کرتے رہے اور خدا اور حکم خدا سے سرکش اور باغی انسانوں کی اس بھیڑ میں ایسی سعید روحیں بھی نکل آتی تھیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت حق پر بیک کہتی اور سچائی کے ساتھ دین حق کو قبول کرلیتی تھیں۔ انہی پاک بندوں میں وہ مقدس ہستیاں بھی تھیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے شرف صحبت سے فیض یاب ہو کر نہ صرف ایمان ہی لے آئی تھیں بلکہ دین حق کی سربلندی اور کامیابی کے لیے انہوں نے جان و مال کی بازی لگا کر خدمت دین کے لیے خود کو وقف کردیا تھا اور اکثر و بیشتر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ رہ کر تبلیغ و دعوت کو سرانجام دیتی تھیں۔ اس خصوصیت کی وجہ سے وہ ” حواری “ اور ” انصار اللہ “ کے مقدس القاب سے معزز ممتاز کی گئیں چناچہ ان بزرگ ہستیوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات پاک کو اپنا اسوہ بنایا اور سخت سے سخت اور نازک سے نازک حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہر طرح معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ ان معدودے چند آدمیوں کے سوا جو ” حواری “ کے لقب سے یاد کیے گئے یہود کے اکابر اور سرداروں نے مخالفت و ایذا کے بہت سے درجے طے کرنے کے بعد بالآخر یہ طے کرلیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ختم کر ہی دینا چاہیے۔ چناچہ انہوں نے پہلے اپنی مذہبی عدالت میں الحاد کا الزام لگایا جس کے نتیجہ میں آپ کو واجب القتل قرار دیا پھر رومی حاکموں کی ملکی عدالت میں لا کر ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے مخالفین کا یہ معرکہ اس وقت کے ملک شام کے صوبہ فلسطین میں پیش آیا تھا۔ شام اس وقت رومی سلطنت کا ایک جزء تھا اور یہاں کے یہودی باشندوں کو اپنے معاملات میں نیم آزادی اور نیم خود مختاری حاصل تھی۔ اس وقت شہنشاہ رومہ کی طرف سے ایک نائب السلطنت یعنی وائسرائے شام کا تھا اور اس کے ماتحت ایک والی یا امیر فلسطین کا تھا۔ رومیوں کا مذہب شرک و بت پرستی کا تھا۔ تاہم یہود کو اتنا اختیار حاصل تھا کہ اپنے لوگوں کے مقدمات اپنی مذہبی عدالتوں میں لائیں لیکن سزاؤں کے نفاذ کے لیے انہیں پھر انہیں مجرموں کو ملکی عدالتو کے سامنے لانا پڑتا تھا۔ جرم الحاد میں فتویٰ قتل خود یہود کی مذہبی عدالت دے سکتی تھی لیکن واقعتہً سزائے موت کا نفاذ صرف رومی ملکی عدالت کے قبضہ میں تھا اور سزائے موت رومی حکومت کے قانوں میں سولی کے ذریعہ سے دی جاتی تھی۔ قرآن کریم نے مکروا کے الفاظ سے یہود کی اس گہری اسکیم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بنی اسرائیل کی ان خفیہ سازشوں کا ناکام ہوجانا : 125: وَمَكَرُ اللّٰه کے الفاظے یہ بات واضح کردی کہ اللہ تعالیٰ نے ان مسیح (علیہ السلام) کے مخالفین و معاندین کی ساری سازشوں اور خفیہ کاریوں کو ناکام بنادیا اور کسی ایک سازش کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا۔ یعنی ان کی ساری سازشوں اور مکاریوں میں بڑی سازش اور مکاری مسیح (علیہ السلام) کو سولی چڑھاوان کی تھی اس کے باوجود کہ ان کی مذہبی عدالت نے یہ فیصلہ دے دیا کہ مسیح واجب القتل ہے اس لیے ملکی عدالت اس کو سولی چڑھادے لیکن ملکی عدالت نے اس پر عمل درآمد روک دیا۔ اس طرح اللہ نے ان کی اس آخری سازش کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا اور مسیح (علیہ السلام) کو سولی کی موت سے بچالیا سولی چڑھنے نہیں دیا۔ اس بات کو دوسری جگہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : وَّقَوْلِهِمْ اِنَّاقَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ 1ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ 1ؕ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ 1ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ 1ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢا . (النساء 4 : 107 ) ” اور ان کا یعنی یہود کا یہ کہنا کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو جو اللہ کے رسول تھے سولی پر چڑھا کر قتل کردیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو انہوں نے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھا کر ہلاک کیا بلکہ اس واقعہ کی اصل حقیقت ان پر مشتبہ ہو گئی اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا یعنی عیسائیوں نے تو بلاشبہ وہ بھی شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ ظن و گمان کے سوا کوئی علم ان کے پاس نہیں اور یقیناً یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا۔ “ مکر اللہ کے الفاظ کے متعلق سمجھ لینا چاہیے کہ عربی زبان میں ایک قاعدہ مشاکلت کا ہے یعنی کسی فعل کی سزا یا جواب کو بھی بجنسہ اس فعل کے لفظ سے ادا کردیا جاتا ہے اور اسطرح ادا میں مطلق کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ مثلاً کسی نے زید پر حملہ کیا اور زید نے اس کا جواب دیا تو عربی محاورہ میں اس طرح کہیں گے کہ فلاں نے زید پر حملہ اور زید نے اس پر حملہ کیا حالانکہ زید کا ” حملہ “ مطلق نہ ہوگا بلکہ صرف سزائے حملہ ہوگی یا زیادہ سے زیادہ وہ جوابی حملہ یا کوئی کسی کو ٹھگ لے اور وہ اس سے انتقام لے لے تو عربی میں پیرایہ ادا یہ ہوگا کہ اس نے فلاں کو ٹھگا لیکن اس فلاں نے اسے ٹھگ لیا۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ اس فلاں نے تو صرف ٹھگنے کی سزا ہی اس کو دی۔ اس اصول کو ذہن نشین کرلینے کے بعد قرآن کریم کی آیتوں سے کہ 1: مَكَرُوْا وَمَكَرَاللّٰهَ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے بھی مکر کیا یعنی ان کے مکر کی سزا دی۔ 2: اِنَّھُمْ یَكِیْدُوْنَ کَیْدًا وقَاَكِیْدُ کَیْدًا کہ وہ کید سے کام لیتے ہیں اور میں بھی ان کے کید کی ان کو خوب سزا دوں گا۔ 3: قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُوْنَ اللّٰهَ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو محض ہنسی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو ہنسی کی یقیناً سزا دے گا۔ ان امثال میں جو بای اور سزائی ” مکر “ نہ مکر ہے نہ کیں ” كید “ ہے اور نہ استہزاء ” استہزاء “ ہے۔ بلکہ مراد صرف اور صرف سزائے مکر۔ سزائے کید اور سزائے استہزاء۔ اس لیے یہ بات جان لینا چاہیے کہ جس کسی نے اردو کے مکروفریب پر قیاس کر کے ” مکر اللہ “ پر حرف گیری کی ہے اس نے خود اپنی جہالت کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود نے ہر ممکن خفیہ تدبیروں سے کام لیا تاکہ کسی نہ کسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی پر لٹکا دینے میں کامیاب ہوجائیں لیکن اللہ نے ان سب خفیہ تدبیروں کو ناکام بنادیا اور واللہ خیر الماکرین اور اللہ ہی کی تدبیریں دراصل کامیاب ہونے والی ہیں اس لیے اللہ نے ان کی خفیہ تدبیروں کو بالکل مؤثر نہ ہونے دیا اور وہ اپنے پختہ ارادہ میں ہرگز کامیاب نہ ہو سکے۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کو بالکل صاف کردیا تھا لیکن اس کے باوجود کلیسا کا آج عام عقیدہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مصلوب ہونے اور صلیب پر وفات پانے اور پھر تیسرے روز جی اٹھنے کا ہے جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر۔ بس ایک عقیدہ ہے جو من حیث القوم عیسائیت نے قبول کرلیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ کوئی قوم من حیث القوم جب کسی عقیدہ کو مان لیتی ہے تو اس کے لیے وہ خود ہی دلیل ہوجاتی ہے۔ جس کا چھوڑنا ممتنع نہیں تو ممکن بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔
Top