Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠ ۧ
وَمَكَرُوْا
: اور انہوں نے مکر کیا
وَ
: اور
مَكَرَ
: خفیہ تدبیر کی
اللّٰهُ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
خَيْرُ
: بہتر
الْمٰكِرِيْنَ
: تدبیر کرنیوالے ہیں
اور انہوں نے (برائی کی) خفیہ تدبیریں کیں اور اللہ نے ان کی (برائی کی) خفیہ تدبیروں کو ضائع کردیا اور لوگوں کی خفیہ تدبیروں کو ضائع کرنے میں اللہ سے بہتر کوئی نہیں ہے
عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف بنی اسرائیل کی خفیہ سازشیں اور حواریوں کا قبول حق : 124: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل بنی اسرائیل ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے اور انفرادی و اجتماعی عیوب و نقائص کا کوئی پہلو ایسا نہیں تھا جو ان سے بچ رہا ہو وہ اعتقاد و اعمال دونوں ہی قسم کی گمراہیوں کا مرکز و محور بن گئے تھے حتیٰ کہ اپنی ہی قوم کے ہادیوں اور پیغمبروں کے قتل تک پر جری اور دلیر ہوگئے تھے۔ یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کے متعلق معلوم کر کے ہو کہ اس نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو اپنی محبوب کے اشارہ پر کیسے عبرتاک طریقے سے قتل کرادیا تھا اور اس نے یہ سفاکانہ اقدام صرف اس لیے کیا کہ وہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی بڑھتی ہوئی روحانق مقبولیت کو برداشت نہ کرسکے اور اپنی محبوبہ سے ناجائز رشتہ پر ان کے نہی عن المنکر یعنی برائی سے بچنے کی ترغیب کی تاب نہ لاسکا اور یہ عبرت ناک سانحہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی مبارک ہی میں ان کی بعثت سے قبل پیش آچکا تھا۔ اس کی مزید وضاحت بھی تاریخ کے صفحات میں موجود ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے یہود کے عقائد و اعمال کا یہ حال تھا کہ وہ مشرکانہ رسوم و عقائد کو جزو مذہب بنا چکے تھے اور جھوٹ ، فریب ، بغض و حسد جیسی بد اخلاقیوں کو تو عملاً اخلاق کریمانہ کی حیثیت سے درکھی تھی اور اسی بنا پر بجائے شرمسار ہونے کے وہ ان پر فخر کا اظہر کرتے تھے اور ان کے علماء و احبار نے تو دنیا کے لالچ اور حرص میں کتاب اللہ یعنی توراة تک کو تحریف کیے بغیر نہ چھوڑا تھا۔ اور درہم و دینار پر اللہ کی آیات کو فروخت کر ڈالا یعنی عوام سے نذر اور بھینٹ حاصل کرنے کی خاطر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانے سے بھی دریغ نہ کیا اور اس طرح قانون الٰہی کو مسخ کرڈالا چناچہ توراة ہی میں موجود ہے کہ خاوند فرماتا ہے یہ امت بنی اسرائیل سے تو میری عزت کرتی ہے مگر ان کا دل مجھ سے دور ہے اور یہ بےفائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ میرے حکموں کو پیچھے ڈال کر آدمیوں کے حکموں کی تعلیم دیتے ہیں۔ لیکن بدبخت یہود اپنی فطرت کج ، صدیوں کی مسلسل سرکشی اور تعلیم الٰہی سے بغاوت کی بدولت اس درجہ متشدد ہوگئے تھے اور انبیاء و رسول کے قتل نے ان کے دلوں کو حق و صداقت کے قبول میں اس درجہ سخت بنا دیا تھا کہ ایک مختصر سی جماعت کے علاوہ ان کی جماعت کی بڑی اکثریت نے ان کی مخالفت اور ان کے ساتھ حسد و بغض کو اپنا شعار اور اپنی جماعتی زندگی کا معیار بنالیا اور اس لیے انبیاء کی سنت راشدہ کے مطاق رشدو ہدایت کے حلقہ بگوشوں میں دنیوی جاہ و جلال کے لحاظ سے کمزور ناتواں اور زیردست پیشہ و طبقہ کی اکثریت نظر آتی تھی۔ صعفاء کا یہ طبقہ اگر اخلاص و دیانت کے ساتھ حق کی آواز پر لبیک کہتا تو بنی اسرائیل کا وہ سرکش اور مغرور حلقہ ان پر اور اللہ کے پیغمبر پر پھبتیاں کستا ، توہین و تذلیل کا مظاہرہ کرتا اور اپنی عملی جدوجہد کا بڑا حصہ معاندت و مخالفت میں صرف کرتا رہتا تھا۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے۔ وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ 1ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ 0063 اِنَّ اللّٰهَ ہُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ 1ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ 0064 فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ 1ۚ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ 0065 (الزخرف 43 : 53 ، 65) ” اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کھلی نشانیاں لے کر آئے تو اس نے کہا ، لوگو ! میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے سامنے بعض ان باتوں کی حقیقت واضح کردوں جنمیں تم اختلاف کر رہے ہو سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ بلاشبہ اللہ یہ میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہ۔ پس اس کی بندگی کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ مگر ان کے بہت سے گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا سو ایسے ظالموں کے لیے ایک درد ناک عذاب کے دن کی تباہی ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” اور وہ وقت یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا۔ اے بنی اسرائیل بلاشبہ میں تمہاری جانب اللہ کا پیغمبر ہوں۔ تصدیق کرنے والا ہوں توراة کی جو میرے سامنے ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا کہ نام اس کا احمد ہے۔ پس جب عیسیٰ (علیہ السلام) آیا ان کے پاس روشن دلائل لے کر تو وہ بنی اسرائیل کہنے لگے یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ “ (الصف 6 : 61 ) عیسیٰ (علیہ السلام) معاندین و مخالفین کی ان دریدہ دہنیوں اور ہرزہ رسائیوں کے باوجود اپنے فرض منصی دعوة الی الحق میں سرگرم عمل رہتے اور شب و روز بنی اسرائیل کی آبادیوں اور بستیوں میں پیغام حق سناتے اور روشن دلائل اور واضح آیات کے ذریعے لوگوں کو قبول حق اور صداقت پر آمادہ کرتے رہے اور خدا اور حکم خدا سے سرکش اور باغی انسانوں کی اس بھیڑ میں ایسی سعید روحیں بھی نکل آتی تھیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت حق پر بیک کہتی اور سچائی کے ساتھ دین حق کو قبول کرلیتی تھیں۔ انہی پاک بندوں میں وہ مقدس ہستیاں بھی تھیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے شرف صحبت سے فیض یاب ہو کر نہ صرف ایمان ہی لے آئی تھیں بلکہ دین حق کی سربلندی اور کامیابی کے لیے انہوں نے جان و مال کی بازی لگا کر خدمت دین کے لیے خود کو وقف کردیا تھا اور اکثر و بیشتر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ رہ کر تبلیغ و دعوت کو سرانجام دیتی تھیں۔ اس خصوصیت کی وجہ سے وہ ” حواری “ اور ” انصار اللہ “ کے مقدس القاب سے معزز ممتاز کی گئیں چناچہ ان بزرگ ہستیوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات پاک کو اپنا اسوہ بنایا اور سخت سے سخت اور نازک سے نازک حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہر طرح معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ ان معدودے چند آدمیوں کے سوا جو ” حواری “ کے لقب سے یاد کیے گئے یہود کے اکابر اور سرداروں نے مخالفت و ایذا کے بہت سے درجے طے کرنے کے بعد بالآخر یہ طے کرلیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ختم کر ہی دینا چاہیے۔ چناچہ انہوں نے پہلے اپنی مذہبی عدالت میں الحاد کا الزام لگایا جس کے نتیجہ میں آپ کو واجب القتل قرار دیا پھر رومی حاکموں کی ملکی عدالت میں لا کر ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے مخالفین کا یہ معرکہ اس وقت کے ملک شام کے صوبہ فلسطین میں پیش آیا تھا۔ شام اس وقت رومی سلطنت کا ایک جزء تھا اور یہاں کے یہودی باشندوں کو اپنے معاملات میں نیم آزادی اور نیم خود مختاری حاصل تھی۔ اس وقت شہنشاہ رومہ کی طرف سے ایک نائب السلطنت یعنی وائسرائے شام کا تھا اور اس کے ماتحت ایک والی یا امیر فلسطین کا تھا۔ رومیوں کا مذہب شرک و بت پرستی کا تھا۔ تاہم یہود کو اتنا اختیار حاصل تھا کہ اپنے لوگوں کے مقدمات اپنی مذہبی عدالتوں میں لائیں لیکن سزاؤں کے نفاذ کے لیے انہیں پھر انہیں مجرموں کو ملکی عدالتو کے سامنے لانا پڑتا تھا۔ جرم الحاد میں فتویٰ قتل خود یہود کی مذہبی عدالت دے سکتی تھی لیکن واقعتہً سزائے موت کا نفاذ صرف رومی ملکی عدالت کے قبضہ میں تھا اور سزائے موت رومی حکومت کے قانوں میں سولی کے ذریعہ سے دی جاتی تھی۔ قرآن کریم نے مکروا کے الفاظ سے یہود کی اس گہری اسکیم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بنی اسرائیل کی ان خفیہ سازشوں کا ناکام ہوجانا : 125: وَمَكَرُ اللّٰه کے الفاظے یہ بات واضح کردی کہ اللہ تعالیٰ نے ان مسیح (علیہ السلام) کے مخالفین و معاندین کی ساری سازشوں اور خفیہ کاریوں کو ناکام بنادیا اور کسی ایک سازش کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا۔ یعنی ان کی ساری سازشوں اور مکاریوں میں بڑی سازش اور مکاری مسیح (علیہ السلام) کو سولی چڑھاوان کی تھی اس کے باوجود کہ ان کی مذہبی عدالت نے یہ فیصلہ دے دیا کہ مسیح واجب القتل ہے اس لیے ملکی عدالت اس کو سولی چڑھادے لیکن ملکی عدالت نے اس پر عمل درآمد روک دیا۔ اس طرح اللہ نے ان کی اس آخری سازش کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا اور مسیح (علیہ السلام) کو سولی کی موت سے بچالیا سولی چڑھنے نہیں دیا۔ اس بات کو دوسری جگہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : وَّقَوْلِهِمْ اِنَّاقَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ 1ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ 1ؕ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ 1ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ 1ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢا . (النساء 4 : 107 ) ” اور ان کا یعنی یہود کا یہ کہنا کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو جو اللہ کے رسول تھے سولی پر چڑھا کر قتل کردیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو انہوں نے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھا کر ہلاک کیا بلکہ اس واقعہ کی اصل حقیقت ان پر مشتبہ ہو گئی اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا یعنی عیسائیوں نے تو بلاشبہ وہ بھی شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ ظن و گمان کے سوا کوئی علم ان کے پاس نہیں اور یقیناً یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا۔ “ مکر اللہ کے الفاظ کے متعلق سمجھ لینا چاہیے کہ عربی زبان میں ایک قاعدہ مشاکلت کا ہے یعنی کسی فعل کی سزا یا جواب کو بھی بجنسہ اس فعل کے لفظ سے ادا کردیا جاتا ہے اور اسطرح ادا میں مطلق کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ مثلاً کسی نے زید پر حملہ کیا اور زید نے اس کا جواب دیا تو عربی محاورہ میں اس طرح کہیں گے کہ فلاں نے زید پر حملہ اور زید نے اس پر حملہ کیا حالانکہ زید کا ” حملہ “ مطلق نہ ہوگا بلکہ صرف سزائے حملہ ہوگی یا زیادہ سے زیادہ وہ جوابی حملہ یا کوئی کسی کو ٹھگ لے اور وہ اس سے انتقام لے لے تو عربی میں پیرایہ ادا یہ ہوگا کہ اس نے فلاں کو ٹھگا لیکن اس فلاں نے اسے ٹھگ لیا۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ اس فلاں نے تو صرف ٹھگنے کی سزا ہی اس کو دی۔ اس اصول کو ذہن نشین کرلینے کے بعد قرآن کریم کی آیتوں سے کہ 1: مَكَرُوْا وَمَكَرَاللّٰهَ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے بھی مکر کیا یعنی ان کے مکر کی سزا دی۔ 2: اِنَّھُمْ یَكِیْدُوْنَ کَیْدًا وقَاَكِیْدُ کَیْدًا کہ وہ کید سے کام لیتے ہیں اور میں بھی ان کے کید کی ان کو خوب سزا دوں گا۔ 3: قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُوْنَ اللّٰهَ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو محض ہنسی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو ہنسی کی یقیناً سزا دے گا۔ ان امثال میں جو بای اور سزائی ” مکر “ نہ مکر ہے نہ کیں ” كید “ ہے اور نہ استہزاء ” استہزاء “ ہے۔ بلکہ مراد صرف اور صرف سزائے مکر۔ سزائے کید اور سزائے استہزاء۔ اس لیے یہ بات جان لینا چاہیے کہ جس کسی نے اردو کے مکروفریب پر قیاس کر کے ” مکر اللہ “ پر حرف گیری کی ہے اس نے خود اپنی جہالت کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود نے ہر ممکن خفیہ تدبیروں سے کام لیا تاکہ کسی نہ کسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی پر لٹکا دینے میں کامیاب ہوجائیں لیکن اللہ نے ان سب خفیہ تدبیروں کو ناکام بنادیا اور واللہ خیر الماکرین اور اللہ ہی کی تدبیریں دراصل کامیاب ہونے والی ہیں اس لیے اللہ نے ان کی خفیہ تدبیروں کو بالکل مؤثر نہ ہونے دیا اور وہ اپنے پختہ ارادہ میں ہرگز کامیاب نہ ہو سکے۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کو بالکل صاف کردیا تھا لیکن اس کے باوجود کلیسا کا آج عام عقیدہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مصلوب ہونے اور صلیب پر وفات پانے اور پھر تیسرے روز جی اٹھنے کا ہے جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر۔ بس ایک عقیدہ ہے جو من حیث القوم عیسائیت نے قبول کرلیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ کوئی قوم من حیث القوم جب کسی عقیدہ کو مان لیتی ہے تو اس کے لیے وہ خود ہی دلیل ہوجاتی ہے۔ جس کا چھوڑنا ممتنع نہیں تو ممکن بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔
Top