Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 7
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا
لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار مِمَّا : اس میں سے قَلَّ : تھوڑا مِنْهُ : اس سے اَوْ كَثُرَ : یا زیادہ نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقرر کیا ہوا
ماں ، باپ اور (قریبی) رشتے داروں کے ترکے میں لڑکوں کا حصہ ہے (اور اسی طرح) ماں ، باپ اور (قریبی) رشتہ داروں کے ترکے میں لڑکیوں کا بھی حصہ ہے (وہ ترکہ) تھوڑا ہو یا زیادہ اور یہ حصہ (تمہاری مرضی کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مقرر کیا گیا ہے
بات یتیموں اور بےسہارا بچوں کی ہو رہی تھی کہ وراثت کی تقسیم کا حکم عام آگیا : 22: عرب میں عورتوں اور بچوں کی تو میراث سے ویسے ہی محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ اس بات میں یہ تھا کہ میراث کا حق صرف اس مردوں کو پہنچنا ہے جو لڑنے اور کنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں۔ اس کے علاوہ مرنے والوں کے وارثوں میں جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا تھا وہ بلا تامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا اور ان سب لوگوں کا حصہ مار کھاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ رکھتے ہوں۔ حق اور فرض کی کوئی اہمیت ان کی نگاہ میں نہ تھی کہ دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض سمجھ کر حق دار کو اس کا حق دیں خواہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ اس لئے اس آیت کے شان نزول یعنی نازل ہونے کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک انصاری صحابی کا نتقال ہوا اور اس نے پسماندگان میں ایک بیوی اور تین لڑکیاں چھوڑیں۔ کچھ جو میت کے چچا کے بیٹے تھے وہ اٹھے اور اپنے چچا زاد بھائی کے سارے ترکہ پر قبضہ کرلیا متوفی کی بیوی اور اس کی تینوں بچیوں کو کچھ بھی نہ دیا۔ ایسا کیوں کیا ؟ اس وجہ سے کہ عربوں کے ہاں اس کا رواج ہی نہ تھا بلکہ وہ کیا کرتے تھے کہ مال صرف اس کو مل سکتا ہے جو دشمنوں سے لڑے اور یہ تینوں تو ویسے ہی بچیاں تھیں اور ان کی والدہ بھی آخر ایک عورت تھی اس لئے ان سب کی پروا نہ کی گئی۔ متوفی کی بیوی جو محروم کردی گئی تھی آپ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے خاوند کا انتقال ہوگیا اس نے تین بیٹیاں چھوڑیں اور میرے پاس اتنا بھی مال نہیں کہ میں ان کو کھانا ہی کھلا سکوں اس لئے کہ میرے پاس بھی اس کے چچا زاد بھائیوں نے کچھ چھوڑا بلکہ سارا ہی وہ لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے متوفی کے بھائیوں کی طلب کیا جو حقیقی بھائی نہیں تھے بلکہ چچا زاد تھے۔ آپ ﷺ نے ان سے یہ بات پوچھی جو اس عورت نے عرض کی تھی انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس عورت کی اولاد اس قابل نہیں کہ گھوڑے پر سوار ہو سکے اور نہ ہی وہ کسی طرح کا کوئی بار اٹھا سکتی ہے نہ دشمن سے لڑ سکتی ہے۔ اس لئے وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی۔ چناچہ اس میں اس بات کی پوری وضاحت کردی گئی اور حکم ہوا ” ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکہ میں خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ لڑکوں کا حصہ ہے اور بالکل اس طرح ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکے میں لڑکیوں کا حصہ بھی ہے اور یہ حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو مقرر فرما کا اعلان کردیا ہے۔ اب رشتہ داروں کے حقوق مورث کے ورثہ میں مقرر ہوچکے ہیں جن کی وضاحت آگے آرہی ہے۔ ان حصص میں نہ کمی پیشی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی کو بالکل محروم کی جاسکتا ہے الا یہ کہ قانون خود کسی کو محروم کر دے۔ زیر نظر آیت میں واضح طور پر پانچ احکام بیان کر دئے گئے ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں۔ ہاں ! ان کے حصص کی صورت کیا ہوگی اس کا حکم آگے آرہا ہے کہ اگرچہ مرد اور عورت برابر ہونے کے حصہ دار نہیں تاہم شریک میراث ضرور ہیں۔ دوم یہ کہ میراث بہر حال تقسیم ہوگی خواہ کتنی ہی کم اور کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اور باقاعدہ حساب کتاب سے ہوگی ایسا نہیں کہ جو جس کے پاس ہے وہ اس کی سنبھال رکھے۔ ہاں ! حساب کتاب ہوجانے کے بعد اگر کوئی وارث اپنا حصہ کسی ایک وارث کو دے یا سب کو پنے حصہ میں شریک کر دے وہ دوسری بات ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک وارث دوسرے وارث کا حصہ خرید لے۔ سوم یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ وارثت کا حکم ہر ایک قسم کے مال پر ہے خوہ وہ نقد ہو سونا چاندی ہو یا املاک ہوں خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ۔ زرعی ہوں یا صنعتی مختصر یہ کہ وہ کسی صنف مال میں شمار ہوں وہ سب قابل تقسیم ہیں۔ چہارم یہ کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ کر انتقال کر جائے۔ جب تک وہ زندہ ہے اور اپنی زندگی میں جو کچھ وہ دے گا وہ میراث نہیں کہلائے گا۔ عطیہ ، ہبہ یا چاہو جو بھی اس کا نام رکھو۔ پنچم یہ کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تو رشتہ دار میراث نہیں پائے گا۔
Top