Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 36
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لِیَفْتَدُوْا بِهٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ : اگر اَنَّ : یہ کہ لَهُمْ : ان کے لیے مَّا : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب کا سب وَّمِثْلَهٗ : اور اتنا مَعَهٗ : اس کے ساتھ لِيَفْتَدُوْا : کہ فدیہ (بدلہ میں) دیں بِهٖ : اس کے ساتھ مِنْ : سے عَذَابِ : عذاب يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن مَا : نہ تُقُبِّلَ : قبول کیا جائے گا مِنْهُمْ : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے اگر ان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں موجود ہے اور اتنا ہی اور بھی وہ پا لیں پھر یہ سب کچھ روز قیامت کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیہ میں دے دیں جب بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا ، ان کے لیے عذاب دردناک ہے
کفر کی راہ اختیار کرنے والوں کے لئے آخرت کی کامیابی ناممکن ہے : 112: اتنی بات تو سب جانتے اور مانتے ہیں کہ جو اس دنیا میں پیدا ہوا اس کو کسی نہ کسی دن ضرور مرنا ہے لیکن اپنے طور پر یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں اور نہ ہی اس کو کوئی معلوم کرسکتا ہے کر مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے اور کیا ہوگا ؟ اور یہ بات صرف اور صرف اللہ ہی کو معلوم ہے پھر اس کے بتلانے سے پیغمبروں کو معلوم ہوئی اور انبیائے کرام کے بتانے سے ہم اور آپ جیسے سب لوگوں کو معلوم ہوئی ہے اور اس کو اسلام کی زبان میں ایمان بالغیب کہتے ہیں۔ اس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ایمان والے لوگ وہی ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت کے سارے معاملات علم غیب ہی سے تعلق رکھتے ہیں جنت ، دوزخ اور برزخ کے واقعات کا تعلق بھی ایمان بالغیب ہی کے ساتھ ہے۔ جس طرح دنیا کی زندگی کا کامیابیاں اور کامرانیاں ہر انسان کی خواہش ہے اور وہ اپنی بساط کے مطابق ان کے حصول کی پوری پوری کوشش کرتا ہے اور یہ اس کا فطری حق بھی ہے اور اس کی خواہش بھی۔ بالکل اسی طرح ہر انسان کی خواہش ہے کہ آخرت کی کامیابیاں اور کامرانیاں بھی اس کو حاصل ہوجائیں بشرطیکہ ذرا بھی آخرت کا اس کے دل میں خیال موجود ہو ۔ پھر جس طرح دنیا کی کامیابیاں اور کامرانیاں اکثر و بیشتر موہوم ہیں اور ہر انسان ان کے لئے فرضی تانے بانے بنتا رہتا ہے اور جس طرح سارے انسان بقدر سعی اس سلسلہ میں دوڑ دھوپ کرتے ہیں بالکل اسی طرح وہ آخرت کی کامیابیاں بھی تلاش کرتے رہتے ہیں اور اپنی موہوم خواہشات کی مطابق دوسرے انسانوں کی دیکھا دیکھی ان کی یہ سعی بھی جاری وساری رہتی ہے۔ پھر انسان دیکھتا ہے کہ اس دنیا کے جتنے کام ہیں وہ سفارش ، رشوت ، اثر ورسوخ ، منت و سماجت اور خاندانی عزت و وقار اور جان پہچان سے ہوتے رہتے ہیں اس کا یہ خیال بھی پختہ ہوجاتا ہے کہ اس طرح کی سفارشات ، نذرانے اور چندے اللہ کے ہاں اثرورسوخ اور منت و سماجت اور خاندانی شرف وعزت سے آخرت میں بھی کام چل جائے گا۔ اگر آخرت کوئی شے ہے تو وہ ہماری اسکیموں کے مطابق درست کی جاسکتی ہے ۔ اس کے ان خیالات کو مزید تقویت مل جاتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ آخرت کے ٹھیکہ داروں نے بھی اس کے ان موہوم خیالات کی ترجمانی کردی ہے اور اس کی ہاں میں ہاں ملادی ہے اور کو یقین دہانی بھی کرادی ہے کہ ٹھیکہ ہمارا ہے جو چاہو گے ہوجائے گا۔ یہی وہ تخیل ہے جس نے عوام و خواص کے حوصلے اتنے بلند کردیئے ہیں کہ وہ چاہے جو بھی کریں وہ اس خطرہ سے بالکل آزاد ہیں کہ کوئی ذات ان پر گرفت بھی کرسکتی ہے اور پوچھ سکتی ہے کہ تم یہ کیا کر رہے ہو ؟ زیر نظر آیت میں ایسے ذہنوں اور دماغوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ تمہاری سراسر بھول ہے وہاں یہ نذرانے اور فدیے کام نہیں دیں گے۔ ہم تم کو قبل از وقت بتا رہے ہیں سمجھ جاؤ گے تو تمہارا فائدہ ہے اور نہ سمجھو گے تو خسارہ کھاؤ گے لیکن وہ وقت ایسا ہوگا کہ اسکا مداوا ممکن نہیں ہوگا۔ فرمایا تمہاری ان غلطیوں ہی سے یہ بھی ایک بہت بڑی غلطی ہے کہ تم وہاں کے معاملات کو بھی اس دنیا پر قیاس کر کے یہ سمجھ رہے ہو کہ جس طرح یہاں کی عدالتوں ، دفتروں اور محکموں میں لین دین سے کام چلا لیا جاتا ہے ایسے ہی نذرانوں اور رشوتوں کی گرم بزاری وہاں بھی ہوگی اور ہر خطا و لغزش پر کسی نہ کسی مالی معاوضہ سے قلم پھیر دیا جاسکے گا یا ان نذرانوں کی صورت سے قلم پھروا لیا جائے گا۔ قرآن کریم نے اس عالمگیر غلطی کی باربار تردید کی اور باربار بتایا کہ یہ نظریہ اسلام کا نظریہ نہیں بلکہ سراسر کفر کا نظریہ ہے ۔ وہاں یعنی روز قیامت کوئی فدیہ یا کفارہ کسی مال و دولت سے بھی ادا نہیں ہو سکتا فرمایا ان میں سے ہر ایک کے قبضہ میں ” وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں موجود ہے اور اتنا ہی اور بھی وہ حاصل کرلیں پھر یہ سب کچھ روز قیامت کے عذاب سے بچنے کے لئے ذریعہ میں دے دیں جب بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا ۔ “ اس لئے کان کھول کر سن لو کہ یہ تمہارے تیجے ، ساتویں ، دسویں اور چالیسویں۔ یہ قل اور برسیوں پر خرچ کی گئی دولت تمہارے کسی کام بھی نہیں آئے گی۔ یہ سب کچھ تو ان پیٹ کے پجاریوں اور قبریں چاٹنے والوں کے کام کی چیزیں ہیں جو انہوں نے تم سے آخرت کے بچاؤ کا جھانسہ دے کر وصول کرلی ہیں وہاں تو جو کچھ ہوگا وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوگا جو عمل کے ساتھ اس طرح باندھ دیا گیا ہے جس طرح پیٹ کے ساتھ پشت باندھ دی گئی ہے اور وہ کبھی جدا نہیں ہو سکتا۔ ” لو “ کا حرف اکثر جس عبارت پر آتا ہے اس سے مراد ایک ان ہونی بات بہ طور فرض محال کے ہوتی ہے اور یہاں بھی اس سے یہی مراد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس فرض محال پر بھی کوئی صورت عذاب سے نجات کی نہ ہو سکے گی ۔ اس جگہ تو صرف مال و دولت کی طرف ذہن جاتا ہے کہ اگر عذاب میں مبتلا کردیئے گئے تو خیر ہے ہمارے قبضہ میں یہ سب کچھ آجائے لیکن وہاں وہ چاہے گا کہ یہ سب کچھ دے کر میں اپنی جان اس عذاب سے بچا لوں اور دوسری جگہ بتایا گیا ہے کہ وہ سارے عزیز و رشتہ دار بھی اس عذاب سے چھوٹنے کے فدیہ میں دینے کے لئے تیار ہوگا۔ چناچہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ وہ دن ایسا ہوگا۔ ” اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لئے اپنی اولاد کو ، اپنی بیوی کو ، اپنے بھائی کو اپنے قریب ترین خاندانوں کو جو اسے پناہ دینے والا تھا اور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اسے اس دن کے عذاب سے نجات دلادے۔ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ “ (المعارج 70 : 11 ، 14) اس مضمون کی مزید تشریح دیکھنا مطلوب ہو تو تفسیر عروۃ الوثقیٰ جلد دوم ، سورة آل عمران کی آیت 91 کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں اور اس طرح سورة یونس کی آیت 54 ، سورة الرعد کی آیت 18 اور سورة الزمر کی آیت 48 میں بھی تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔
Top