Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 38
اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْهِ١ۚ فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍؕ
اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ : یا ان کے لیے کوئی سیڑھی ہے يَّسْتَمِعُوْنَ فِيْهِ ۚ : وہ غور سے سنتے ہیں اس میں (چڑھ کر) فَلْيَاْتِ : پس چاہیے کہ لائے مُسْتَمِعُهُمْ : ان کا سننے والا بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ : کھلی دلیل
کیا ان کے پاس کوئی (ایسی) سیڑھی [ ہے کہ جس پر چڑھ کر سب باتیں سن آتے ہیں ، تو سن لو کہ جو کوئی ان میں سے سن آتا ہے وہ صریح سند لائے ؟
38۔ (مسلم) کا مادہ س ل م ہی ہے اور سیڑھی کو (سلم) کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس کے ذریعہ آدمی سلامتی کے ساتھ اوپر پہنچ جاتا ہے اس لئے اس کا نام (سلم) ہوا۔ سلالم اور سلالیم ؓ اس کی جمع ہے یعنی سیڑھی اور زینہ خواہ وہ لوہے کی ہو یا مٹی اور لکڑی کی۔ فرمایا جا رہا ہے کہ کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جو انہوں نے آسمان کے ساتھ لگا لی ہے اوپر چڑھ کر انہوں نے یہ باتیں سن لی ہیں اور وہاں سے نیچے آ کر یہ لوگ اپنی سنی ہوئی باتیں لوگوں کو سنا رہے ہیں۔ لاریب ایسی نہ تو کوئی سیڑھی ہو سکتی ہے جو آسمانوں تک ان لوگوں نے لگا لی ہو اور نہ ہی ان کی رسائی وہاں تک ہو سکتی ہے۔ ہاں ! اگر ان کے پاس اس بات کی کوئی دلیل ہے تو وہ لائیں اور پیش کریں۔ ہمارے پاس تو دلیل یہ ہے کہ نبوت اور رسالت کا تعلق کسی انسان سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ رب کریم سے ہے اور وہی جانتا ہے کہ اپنے اس عہدے کو اس نے کہاں رکھنا ہے کیونکہ وہ تمام انسانوں کے دلوں کے رازوں تک کو جانتا ہے اور پھر نبوت و رسالت کا تعلق اخلاق و اعمال اور کردار سے ہے نہ کہ مال و دولت اور خاندان سے۔ ہاں ! انہوں نے یہ بات آسمان کے کسی گوشے سے سنی ہے یا اللہ میاں نے ان کے کان میں کہی ہے تو اس کی کوئی دللے تو یہ بھی پیش کریدں کیونکہ بغیر دلیل کے کوئی بات کبھی درست نہیں ہوتی۔ غور کرو کہ کفار و مشرکین کے اقوال و اعمال اور ان کے نظریات پر کس طرح سخت تنقید کی جا رہی ہے اور کس طرح ان کا محاسبہ جاری ہے جس کے بعد انہیں اپنی نوعیت اور گمراہی کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا اور اندھے تعصب اور بےجا ہٹ دھرمی کے بغیر ان کے لئے گوشہ ٔ عافیت باقی نہیں رہا۔ وہ تمام احتمالات ‘ امکانات اور غلط یا صحیح توجیہات جن کا آسرا لے کر نبی اعظم و آخر ﷺ کی نبوت اور آپ ﷺ کی تعلیمات کا انکار کرتے تھے ان سب کا بودا پن ان پر روز روشن کی طرح عیاں کردیا گیا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے فقرے ہیں لیکن کفار کے فکری اور نظری قلعوں پر بلی بن کر گر رہے ہیں اور ان کو کس طرح خاکستر بناتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے یہ نظریات مکی سورتوں میں مختلف مقامات پر اٹھائے گئے ہیں اور ان کو سن کر اچھی طرح یاد رکھا گیا ہے لکنف بروقت ان کو جو جواب دیا گیا ہے وہ نہایت نرم لہجے میں دیا گیا ہے اور اس میں جو حکمت مخفی ہے وہ اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں اور اس طرح گویا ان کو سوچنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ خود بھی ذرا غور و فکر کریں اور جب کچھ مہلت ان کو مل گئی کہ وہ خود اپنے اعتراضات کے متعلق غور کریں کہ ان کے اعتراضات کی حیثیت کیا ہے ؟ اس طرح کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کے ایک ایک اعتراض کا مسکت جواب دیا جا رہا ہے اور قرآن کریم کا یہ اسلوب نہایت ہی پر حکمت ہے۔ ترجمہ اور تفسیر تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے اب تو قرآن کریم کی اس سورت کی آیت 29 سے آخر سورت کی ایک ایک آیت کو دوبارہ نہایت آرام سے پڑھو اور ان کا مفہوم و مطلب اپنے ذہن میں رکھ کر غور کرو ان شاء اللہ العزیز براہ راست مضمون پر غور کرنے سے دل کے اندر وہ مفہوم جمتا چلا جائے گا۔ نیز آنے والی آیات کو ان ہی آیتوں میں شمار کرلو۔
Top