Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 21
وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ
وَقَاسَمَهُمَآ : اور ان سے قسم کھا گیا اِنِّىْ : میں بیشک لَكُمَا : تمہارے لیے لَمِنَ : البتہ سے النّٰصِحِيْنَ : خیر خواہ (جمع)
اس نے قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ میں تم دونوں کو خیر خواہی سے نیک بات سمجھانے والا ہوں
فریبی کا کیا کام ہے ؟ یہی کہ وہ فریب دینے کے لئے ہر حربہ اختیار کرتا ہے : 22: کیا آدم (علیہ السلام) نے وسوسہ ڈالنے والے کی وسوسہ اندازی کا یقین نہیں کیا تھا ؟ یہ بات پہلے عرض کی گئی ہے کہ کوئی وسوسہ یکبارگی عمل تک نہیں لے جاتا بلکہ وسوسہ ڈالنے والا خود اس وسوسہ میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کو میری بات پر یقین آیا یا ابھی نہیں آیا اس لئے جب تک وسوسہ اندازی کرنے والا یہ دیکھ نہ لے کہ جس کو وسوسہ ڈالا گیا اس نے اس کی وسوسہ اندازی کے مطابق عمل کرلیا اس کا اپنا شک رفع نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے اندر کی وسوسہ اندازی بھی ایک مدت تک جاری رہتی ہے تب جا کر انسان عمل پر آمادہ ہوتا ہے۔ اس فطرت کو اس آیت میں بیان کیا گیا کہ ” اس نے قسمیں کھا کھا یقین دلایا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں اور نیک بات سمجھانے والا ہوں۔ “ کس قدر فطرت انسانی کا سچا بیان ہے کہ ہر انسان یہ جاننے کے باوجود کہ بات بات پر قسمیں کھانے والا جھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی بات پھر مان جاتا ہے جو قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں نے سچ کہا اگرچہ وہ جھوٹ کہہ رہا ہو۔ آج بھی جھوٹ کا دور دورہ ہے اور ہر جھوٹا قسمیں کھا کھا کر کہتا ہے کہ سچ کہہ رہا ہوں اور لوگ ہیں کہ مانے چلے جا رہے ہیں۔ پوچھو کہ تم نے اس کی بات کو کیسے مان لیا ؟ تو جواب یہی ہوگا کہ اس نے قسم کھا کر کہا تھا اس لئے میں مان گیا گویا انسانی فطرت جو اس وقت تھی آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
Top