Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 79
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ
فَتَوَلّٰى : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ : تحقیق میں تمہیں پہنچا دیا رِسَالَةَ : پیغام رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تُحِبُّوْنَ : تم پسند نہیں کرتے النّٰصِحِيْنَ : خیر خواہ (جمع)
پھر صالح (علیہ السلام) ان سے کنارہ کش ہوگیا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اپنے پروردگار کا پیام تمہیں پہنچایا اور نصیحت کی مگر تم نصیحت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ہو
صالح (علیہ السلام) نے ان مرے ہوئے لوگوں پر افسوس کا اظہار کیا : 90: ” اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اپنے پروردگار کا پیغام نہیں پہنچایا اور نصیحت کی مگر تم لوگ نصیحت کرنے والوں کو پسند ہی نہیں کرتے تھے۔ “ ہلاک شدگان کی جانب حضرت صالح (علیہ السلام) کا یہ خطاب اس طرح کا خطاب تھا جس طرح بدر میں مشرکین مکہ کے سرداروں کی ہلاکت کے بعد مردہ نعشوں کے گڑھے پر کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ ( یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ وَیَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ أَیَسُرُّکُمْ أَنَّکُمْ أَطَعْتُمْ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ) (بخاری ج 2 باب المغازی ، جلد دوم : حدیث نمبر 1207 ) ” اے فلاں بن فلاں اور فلاں بن فلاں کیا تم کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پسند آئی ؟ بلاشبہ ہم نے وہ سب کچھ پالیا جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا پس کیا تم نے بھی وہ پایا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا ؟ “ یاد رہے کہ یہ طریق خطاب حزن وملال کے اظہار کے لئے ہوتا ہے مثلاً تم نے کسی شخص کو متنبہ کیا کہ اس باغ میں نہ جانا کہ اس میں سانپ بڑی کثرت سے ہیں اور ڈسے جانے کا بہت خطرہ ہے مگر وہ شخص باغ میں گیا اور ڈسا بھی گیا جب یہ تنبیہہ کرنے والا اس کی نعش پر پہنچتا ہے تو بےساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ افسوس کیا میں نے تجھ سے کہا نہیں تھا کہ باغ میں نہ جانا ورنہ ڈسا جائے گا اور آخر وہی ہوا جو میں نے کہا تھا اور بعض اوقات اس قسم کے خطاب کے اصل مخاطب وہ زندہ انسان ہوتے ہیں جو ان مردہ نعشوں کو دیکھ رہے ہیں تاکہ ان کو عبرت حاصل ہو اور وہ اس قسم کی سرکشی کی جرات نہ کرسکیں۔ اس آیت پر صالح (علیہ السلام) کی سرگزشت ختم ہو کر سیدنا لوط (علیہ السلام) کی سرگزشت شروع ہو رہی ہے۔ لوط (علیہ السلام) کی بعثت اور اپنی قوم کو سدومیت سے باز آنے کی ہدایت : 91: حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زادہ ہیں ان کے والد کا نام ہارون تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا بچپن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زیر سایہ گزرا اور ان کی پرورش ابراہیم (علیہ السلام) کی ہی آغوش تربیت کی رہین منت تھی۔ اس لئے وہ اور حضرت سارہ ملت ابراہیمی (علیہ السلام) کے پہلے مسلم اور ” السابقون والاولون “ میں داخل تھے۔ اردن کی وہ جانب جہاں آج بحرمیت یا بحر لوط واقع ہے یہی وہ جگہ ہے جس میں سدوم اور عامورہ کی بستیاں آباد تھیں۔ اس کے قریب بسنے والوں کا یہ اعتقاد ہے کہ پہلے یہ تمام حصہ جو آب سمندر نظر آتا ہے خشک زمین تھی اور اس پر شہر آباد تھے سدوم اور عامورہ کی بستیاں اسی مقام پر آباد تھیں۔ یہ مقام شروع سمندر میں نہیں بلکہ جب قوم لوط پر عذاب آیا اور اس کی سر زمین کو تہس نہس کیا گیا اور سخت زلزلے اور بھونچال آئے تب یہ زمنم تقریباً چار سو میٹر سمندر سے نیچے چلی گئی اور پانی ابھر آیا اس لئے اس کا نام بحرمیت اور بحر لوط ہے (بستانی ج 9 ص 7 53) ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کے بعد لوط (علیہ السلام) کو سدوم کی بستی میں آباد کیا اور اپنے وقت مقرر پر اللہ نے ان کو نبوت سے سرفراز فرما دیا۔ اہل سدوم اس قدر ظلم ، فحش ، بےحیائی ، بد اخلاقی اور فسق وفجور میں مبتلا تھے کہ اس زمانہ کی قوموں میں ان کی جانب اس قسم کے واقعات عام طور پر منسوب کئے جاتے ہیں جو بےحیائی کے ساتھ غیر فطری بھی تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو ان کی بےحیائیوں اور خباثتوں پر ملامت کی اور شرافت و طہارت کی زندگی کی رغبت دلائی اور حسن خطابت ، لطافت اور نرمی کے ساتھ جو طریقے ممکن ہو سکتے تھے سب اختیار کئے اور ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اپنی مخصوص بیماریوں اور بےحیائیوں سے باز آجائیں لیکن ان بد بختوں پر مطلق اثر نہ ہوا بلکہ جو اثر ہوا وہ بالکل الٹا تھا۔ ان میں غیر فطری برائیوں میں سر فہرست بیان کی جانے والی برائی یہ تھی کہ مردوں کے پاس شہوت کے ساتھ آتے تھے اور یہی فعل ” سدومیت “ سے معروف ہے لیکن افسوس کہ لوگوں نے اس کو لوط (علیہ السلام) کی طرف نسبت دے کر ” لوطی “ یا ” لواطت “ کہنا پسند کیا جو کسی صورت بھی جائز نہیں ہے۔
Top