Tafseer-e-Usmani - Az-Zukhruf : 59
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ اِلَّا عَبْدٌ : مگر ایک بندہ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ : انعام کیا ہم نے اس پر وَجَعَلْنٰهُ : اور بنادیا ہم نے اس کو مَثَلًا : ایک مثال لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اسرائیل کے لیے
وہ کیا ہے ایک بندہ کہ ہم نے اس پر فضل کیا اور کھڑا کردیا اس کو بنی اسرائیل کے واسطے2
2  یعنی کچھ اسی ایک مسئلہ میں نہیں ان کی طبیعت ہی جھگڑالو واقع ہوئی ہے۔ سیدھی اور صاف بات کبھی ان کے دماغوں میں نہیں اترتی۔ یوں ہی مہمل بحثیں اور دوراز کار جھگڑے نکالتے رہتے ہیں۔ بھلا کہاں وہ شیطان جو لوگوں سے اپنی عبادت کراتے اور اس پر خوش ہوتے ہیں یا وہ پتھر کی بےجان مورتیں جو کسی کو کفر و شرک سے روکنے پر اصلاً قدرت نہیں رکھتیں اور کہاں وہ خدا کا مقبول بندہ جس پر اللہ نے خاص فضل فرمایا اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے واسطے کھڑا کیا۔ جس کو اپنے بندہ ہونے کا اقرار تھا اور جو اپنی امت کو اسی چیز کی طرف بلاتا تھا کہ " اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ " کیا اس مقبول بندہ کو العیاذ باللہ " حصب جہنم " یا " لیس فیہ خبیر " کہا جاسکتا ہے ؟ یا یہ پتھر کی مورتیاں اس کی ہمسری کرسکتی ہیں۔ یاد رکھو ! قرآن کریم کسی بندہ کو بھی خدائی کا درجہ نہیں دیتا۔ اس کا تو سارا جہاد ہی اس مضمون کے خلاف ہے۔ ہاں یہ بھی نہیں کرسکتا کہ محض احمقوں کے خدا بنا لینے سے ایک مقرب و مقبول بندہ کو پتھروں اور شریروں کے برابر کر دے۔
Top