Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 16
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا١ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا قُلْتُمْ : تم نے کہا مَّا يَكُوْنُ : نہیں ہے لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ نَّتَكَلَّمَ : کہ ہم کہیں بِھٰذَا : ایسی بات سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے ھٰذَا : یہ بُهْتَانٌ : بہتان عَظِيْمٌ : بڑا
اور جب تم نے اسے سنا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں شایان نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں (پروردگار) تو پاک ہے یہ تو (بہت) بڑا بہتان ہے
16۔ 18:۔ جس بہتاں کا ذکر اوپر گزرا ‘ اس بہتان میں دو طرح کے آدمی تھے ‘ کچھ تو عبداللہ بن ابی کے ساتھ منافق لوگ تھے جو حقیقت میں دل سے مسلمانوں کے بدخواہ تھے ‘ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں یہ فرمایا ‘ ان کو عاقبت میں سخت عذاب ہوگا اور کچھ مسلمان لوگ منافقوں سے سن سنا کر دل میں اس بہتان کی بات کو سچا گمان کرنے لگے تھے یا بعض لوگ زبان سے بھی اس بہتان کی بات کا چرچا کرنے لگے تھے ‘ ان دونوں قسموں کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی کہ اوپر کے حکم کے موافق جب شریعت میں چار گواہوں کی گواہی کے بغیر یہ بہتان ثابت نہیں ہوسکتا تو پھر جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں انہوں نے اس بہتان کو اپنے دل میں کیوں کر سچا گمان کیا اور زبان پر کیوں اس کا چرچا لائے۔ اس میں ابو ایوب انصاری ؓ ابی ؓ بن کعب اور ان صحابہ کی تعریف نکلتی ہے جنہوں نے بغیر شہادت کے اس بہتان کو سنتے ہی جھوٹ جانا۔ ابو ایوب ؓ کی بی بی نے ان سے ایک روز کہا۔ اجی تم نے کچھ سنا حضرت عائشہ ؓ کے باب میں لوگ کیا کیا کہتے ہیں ‘ انہوں نے جواب دیا کیا تم سے ایسا کام ہوسکتا ہے جس کام میں لوگ حضرت عائشہ ؓ کو بدنام کرتے ہیں ان کی بی بی نے کہا ہرگز نہیں۔ حضرت ایوب ؓ نے کہا پھر اللہ کے رسول کی بی بی سے ایسا کام کیونکر ہوسکتا ہے ‘ جو کچھ چرچا لوگ کر رہے ہیں وہ بالکل بہتان ہے ‘ صحیحین 1 ؎ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں سات بڑے سخت گناہوں کا جو ذکر آیا ہے ‘ اس طرح کا بہتان بھی ان گناہوں میں سے ہے ‘ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگ اس طرح کی باتوں کو معمولی باتیں خیال کرتے ہیں اور اللہ کے نزدیک یہ بڑا سخت گناہ ہے ‘ صحیح مسلم ‘ ابوداود ‘ ترمذی اور نسائی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت 2 ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک روز صحابہ ؓ سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے کہ غیبت کیا چیز ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ہم کو معلوم نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کسی کے حق میں کوئی ایسی بات کہنی کہ اس کے سننے سے اس کو رنج ہو ‘ اسی کو غیبت کہتے ہیں ‘ کسی نے عرض کیا کہ حضرت کسی میں کوئی بات حقیقت میں ہو تو کیا پیٹھ پیچھے اس کا ذکر کرنا بھی غیبت میں داخل ہے ‘ آپ نے فرمایا غیبت تو یہی ہے ورنہ جو بات کسی آدمی کے حق میں کہی جاوے اور حقیقت میں وہ بات اس میں نہ ہو ‘ اس کا نام تو بہتان ہے ‘ صحیح مسلم ‘ ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت 3 ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک روز صحابہ ؓ سے فرمایا ‘ تم کو معلوم ہے کہ مفلس کس شخص کو کہتے ہیں ‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ جس شخص کے پاس کچھ مال متاع نہ ہو ‘ ہم لوگ تو اس کو مفلس کہتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا اصل مفلس میری امت میں وہ شخص ہے کہ جو نیک عمل کر کے پھر قیامت کے دن اس سبب سے خالی ہاتھ رہ جاوے گا کہ لوگوں میں غیبت کا کرنا لوگوں پر بہتان باندھنا اس کی عادت ہوگی اور اس عادت کی سزا میں قیامت کے دن اس کی سب نیکیاں چھین کر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دے گا جن لوگوں کی اس نے برائی کی تھی ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ بہتان ‘ غیبت ‘ چغل خوری یہ اس طرح کے گناہ ہیں کہ اکثر لوگ ان کو ایک زبانی بات چیت اور محفل کا ایک مشغلہ گنتے ہیں اور شریعت میں یہ باتیں بڑے گناہ کی چیزیں ہیں ایسی باتوں کے باب میں ابوہریرہ ؓ کی صحیحین کی روایت 4 ؎ گزر چکی ہے کہ بعض باتوں کو انسان خفیف جان کر دنیا میں منہ سے کہہ دیتا ہے ‘ عاقبت میں جن کی سزا کے سبب سے ایک مدت دراز تک اس کو دوزخ میں رہنا پڑے گا۔ یہ تو عاقبت کے وبال کا ذکر ہوا ‘ علاوہ اس کے ایسے شخص پر جو بہتان ‘ چغل خوری ‘ غیبت میں لگا رہے ‘ دنیا میں بھی وبال پڑتا ہے ‘ مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ثوبان ؓ سے روایت 1 ؎ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی کسی کی غیبت اور ایذا میں لگے گا وہ خود بھی دنیا میں فضیحت ہوگا ‘ معتبر سند سے اوسط اور صغیر طبرانی میں بھی ثوبان ؓ سے اس کے قریب قریب روایت ہے جس سے اس سند کی روایت کو تقویت ہوجاتی علاوہ اس کے صحیح سند سے ترمذی 2 ؎ میں عبداللہ بن عمر ؓ سے ابوداود میں ابوبرزہ سے ‘ ابن ماجہ 3 ؎ میں ابن عباس ؓ سے معتبر روایتیں اس مضمون کی ہیں جس سے سند کے راوی ابو محمد میمون تمیمی کا ضعف جاتا رہتا ہے ‘ یہی حال دوسرے راوی میمون بن موسیٰ مراغی کے ضعف کا ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ تم میں کا ایک منافقوں کی جماعت نے جب اے مسلمانوں اس بہتان کا چرچا تمہارے کانوں تک پہنچایا تھا تو تم نے یہ سیدھی بات کیوں نہ کہہ دی کہ بغیر گواہی کے ہم کو یہ چرچا تو بہتان معلوم ہوتا ہے ‘ پھر فرمایا ‘ آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ تم کو یہ نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم ایمان دار ہو تو پھر کبھی تم کو ایسی بات کی جرأت نہ کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور حکمت کے موافق قرآن کی آیتوں کے ذریعہ سے صاف صاف تم کو یہ سمجھا دیا ہے کہ بغیر گواہی کے ایسی بےٹھکانے کی باتیں شریعت میں سزا کے قابل ہیں۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 17 باب الکبائرو علامات النفاق ) (2 ؎ مشکوٰۃ باب حفظ اللسان والغیبہ والشتم ) (3 ؎ مشکوٰۃ ص 435 باب الظلم ) (4 ؎ یعنی پچھلے صفحہ پر ) (1 ؎ 2 ؎ 3 ؎ تینوں حدیثوں کے لیے ملاحظہ ہو ‘ الرغیب والترہیب ص 239 ج 1 الترغیب فی ستر المسلم والترہیب من ہت کہ وتتع عوراتہ۔ )
Top