Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 53
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ اَمَرْتَهُمْ لَیَخْرُجُنَّ١ؕ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا١ۚ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : اپنی زور دار قسمیں لَئِنْ : البتہ اگر اَمَرْتَهُمْ : آپ حکم دیں انہں لَيَخْرُجُنَّ : تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے قُلْ : فرما دیں لَّا تُقْسِمُوْا : تم قسمیں نہ کھاؤ طَاعَةٌ : اطاعت مَّعْرُوْفَةٌ : پسندیدہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : خبر رکھتا ہے بِمَا : وہ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور (یہ) خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تم ان کو حکم دو تو (سب گھروں سے) نکل کھڑے ہوں کہہ دو کہ قسمیں مت کھاؤ پسندیدہ فرمانبرداری (درکار ہے) بیشک خدا تمہارے اعمال سے خبردار ہے
53۔ 54:۔ منافقوں کے ذکر میں پکے مسلمانوں کا تذکرہ فرما کر اس آیت میں منافقوں کی ایک اور عادت کا ذکر فرمایا ‘ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ جو منافق لوگ اللہ کے رسول کے فیصلہ سے گھبراتے تھے وہ پھر مسلمانوں میں اپنا اعتبار جمانے کے لیے سخت سخت اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ معاملات کے فیصلے تو درکنار ہم کو لڑائی پر جانے اور جان دے دینے کا حکم ہو تو بھی ہم حاضر ہیں اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان سے کہہ دو قسمیں نہ کھاؤ ‘ تمہاری حکم برداری اور تمہارے عملوں کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دو کہ سچے دل سے اللہ کے رسول کی حکم برداری کرو کیونکہ اللہ کے رسول کا کام اللہ کے پیغام کا پہنچا دینا ہے اور امت کے لوگوں کا کام اس کے موافق عمل کرنا جب اللہ کے رسول اپنا کام کر رہے ہیں تو امت کے لوگ اگر ان کی پیروی کریں گے ‘ تو عقبیٰ کی بہبودی کا راستہ پاویں گے اور اگر نافرمانی کریں گے تو عقبیٰ میں اس کا خمیازہ بھگتیں گے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے دنیا کے پیدا ہونے کے بعد جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ‘ یہ حدیث اَنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان منافقوں کی دغا بازی کی باتیں دنیا کے پیدا ہونے سے بچ اس ہزار برس پہلے لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہیں اللہ کے علم غیب سے ان کا کوئی کام باہر نہیں ‘ وقت مقررہ پر ان کے عملوں کا بدلہ ان کی آنکھوں کہ سامنے آجاوے گا ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘’ میں لوگوں کو کو لیاں بھر بھر کے دوزخ کی آگ سے بچانا چاہتا ہوں ‘ مگر لوگ اس طرح دوزخ کی آگ میں گرنے کے کام کرتے ہیں جس طرح کیڑے پتنگے دنیا کی آگ میں گرنے کے کام کرتے ہیں۔ اس حدیث کو آیت آخری ٹکڑے کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جو کام اللہ کے رسول کے ذمہ تھا وہ انہوں نے بڑی کوشش سے پورا کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر جو لوگ لوح محفوط میں دوزخی لکھے جاچکے ہیں انہوں نے کیڑے پتنگوں کی طرح آگ میں گرنے کے کام کیے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 28 باب الا عتصام بالکتاب والسنۃ )
Top