Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 53
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ اَمَرْتَهُمْ لَیَخْرُجُنَّ١ؕ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا١ۚ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : اپنی زور دار قسمیں لَئِنْ : البتہ اگر اَمَرْتَهُمْ : آپ حکم دیں انہں لَيَخْرُجُنَّ : تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے قُلْ : فرما دیں لَّا تُقْسِمُوْا : تم قسمیں نہ کھاؤ طَاعَةٌ : اطاعت مَّعْرُوْفَةٌ : پسندیدہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : خبر رکھتا ہے بِمَا : وہ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور انہوں نے پکی پکی قسمیں کھائیں کہ اگر تم ان کو جہاد کا حکم دو گے تو وہ ضرور نکلیں گے۔ کہہ دو کہ قسمیں نہ کھائو بس دستور کے مطابق اطاعت اصل چیز ہے ! جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے
منافقین کی روش جہاں کے معاملہ میں سمع وطاعت کا عہد کرنے کے باوجود منافقین جس طرح رسول اللہ ﷺ کی عدالت سے کتراتے تھے اسی طرح جہاد سے بھی کتراتے تھے۔ زبان سے لاف زنی کا تو یہ حال تھا کہ جب جہاد کا ذکر آتا تو بڑی زور دار قسمیں کھا کھا کے حضور ﷺ کو یقین دلاتے کہ جب آپ کا حکم ہوگا ہم جان و مال سے حاضر ہیں لیکن جب وقت آتا تو کترا جاتے۔ فرمایا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ قسمیں زیادہ نہ کھائو، قسمیں عمل کا بدل نہیں بن سکتیں۔ اصل شے جو مطلوب ہے وہ اصول کے مطابق اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔ اگر یہ چیز موجود نہیں تو خالی خولی قسموں سے تم کتنے دن اپنے کردار پر پردہ ڈالے رکھ سکو گے ! ان اللہ خبیربما تعملون یعنی ان جھوٹی قسموں سے تم دوسروں کو دھوکا دے سکتے ہو لیکن اس علام الغیوب کو کس طرح دھوکا دے سکتے ہو جو تمہارے ہر قول و فعل سے اچھی طرح باخبر ہے۔ قرآن میں منافقین کے زیادہ قسمیں کھانے کا ذکر دوسرے مقامات میں بھی گزر چکا ہے اور آگے بھی آئے گا اس کی نفسیاتی وجہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ جن کے پاس کردار کی شہادت موجود نہیں ہوتی وہ اپنے کو معتبر ثابت کرنے کے لئے قسموں ہی کو ذریعہ بناتے ہیں۔ ان کے دلوں کے اندر یہ چور چھپا ہوا ہوتا ہے کہ جب تک وہ قسم نہیں کھائیں گے مخاطب ان کی بات باور نہیں کرے گا۔ ثقلہ اور صاحب کردار آدمی کو اپنے کردا رپراعتماد ہوتا ہے اس وجہ سے اس کو قسم کھانے کی ضرورت زیادہ پیش نہیں آتی۔ طاعۃ مفردنۃ میں تالیف کلام طاعۃ معروفۃ اسی طرح کا جملہ ہے جس طرح فمبرجمیل ہے۔ یہ خبر محذوف کا مبتدا بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ اگر نکرہ موصوف ہو تو اس کے اندر مبتدا ہونے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور مبتدائے محذوف کی خبر بھی دونوں ہی صورتوں میں مفہوم میں کوئی خاص فرق پیدا نہیں ہوگا اس لئے کہس قسم کے حذف سے اصل مقصود مخاطب کی پوری توجہ کو مذکور پر مرتکز کرنا ہوتا ہے اور یہ چیز دونوں ہی صورتوں میں یہاں حاصل ہے۔
Top