Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 46
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا
اَلْمَالُ : مال وَالْبَنُوْنَ : اور بیٹے زِيْنَةُ : زینت الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے نزدیک ثَوَابًا : ثواب میں وَّخَيْرٌ : اور بہتر اَمَلًا : آرزو میں
مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زینت ہیں، اور باقی رہنے والے اعمال صالحہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی
(وَکَان اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا) اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے (جب چاہے وجود بخشے اور جن چیزوں کو چاہے ترقی دے اور جب چاہے فنا کردے۔ ) (اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) (مال اور بیٹے مالی زندگی کی زینت ہیں) ان پر اترانا اور ان میں دل لگانا ہوش مند آدمی کا کام نہیں۔ (وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا) (باقی رہنے والے اعمال صالحہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی) یعنی ہوش مند بندوں کو اعمال صالحہ میں لگا رہنا چاہیے جو اجرو ثواب کے اعتبار سے باقی رہنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اعمال صالحہ کا بہت بڑا ثواب ملے گا، اللہ تعالیٰ سے ان کا ثواب ملنے کی امید رکھیں یہ امید تمام امیدوں سے بہتر ہے۔ اسی سورت کے ختم پر فرمایا (فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا) (سو جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو سو وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ ) باقیات کو جو صالحات کے ساتھ متصف فرمایا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو اعمال صالحہ نہیں یا جن اعمال صالحہ کو دوسرے اعمال کی وجہ سے حبط کردیا یا ارتداد کی وجہ سے باطل کردیا وہ باقی رہنے والے نہیں ہیں یعنی آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہ ملے گا، اور ان پر ثواب ملنے کی امید رکھنا عبث ہے۔
Top