Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 45
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا
وَاضْرِبْ : اور بیان کردیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلَ : مثال الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی كَمَآءٍ : جیسے پانی اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَاخْتَلَطَ : پس مل جل گیا بِهٖ : اس سے ذریعہ نَبَاتُ الْاَرْضِ : زمین کی نباتات (سبزہ) فَاَصْبَحَ : وہ پھر ہوگیا هَشِيْمًا : چورا چورا تَذْرُوْهُ : اڑاتی ہے اس کو الرِّيٰحُ : ہوا (جمع) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر مُّقْتَدِرًا : بڑی قدرت رکھنے والا
اور آپ ان لوگوں سے دنیاوی زندگی کی حالت بیان کیجیے، جیسے کہ پانی ہو جو ہم نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ذریعہ زمین سے اگنے والی چیزیں خوب گنجان ہوگئیں، پھر وہ چورا چورا ہو کر رہ گیا، جسے ہوائیں اڑا رہی ہیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
دنیا کی بےثباتی کی ایک مثال اور قیامت میں مجرمین کی حیرت کا منظر یہ رکوع پانچ آیات پر مشتمل ہے اس میں اول تو دنیا کی ظاہری چند دن کی زیب وزینت کو بیان فرمایا اور ساتھ ہی یوں فرمایا کہ اعمال صالحہ ہی باقی رہنے والے ہیں اور ثواب اور امید کے اعتبار سے بہتر ہیں، پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونے اور اعما لنامے سامنے آنے کا تذکرہ فرمایا یہ سب باتیں عبرت اور نصیحت کے لیے ہیں۔ دنیا کی حالت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ ) (الآیۃ) یعنی دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا اور اس پانی کی وجہ سے زمین سے پیدا ہونے والی چیزیں ظاہر ہوئیں۔ انسانوں نے جو بیج ڈالے تھے وہ بھی نکلے اور اس کے علاوہ اور بھی گھاس پھونس اور مختلف قسم کی سبزیاں برآمد ہوئیں۔ اس سرسبز پیداوار کو دیکھ کر لوگ خوش ہو رہے ہیں لہلہاتی ہوئی کھیتیاں دلوں کو ابھار رہی ہیں اور اتنی زیادہ پیداوار ہے کہ گنجان ہونے کی وجہ سے ایک ٹہنی دوسری ٹہنی میں اور ایک پودے کے پتے دوسرے پودوں کے پتوں میں گھسے ہوئے ہیں۔ چند دن تو یہ پیداوار ہری بھری رہی پھر سوکھ گئی کسانوں نے کھیتی کو کاٹ کر دانہ نکال لیا بھوسہ ہی بھوسہ رہ گیا اور دوسری سبزیاں بھی سوکھ کر رہ گئیں اب ان پر آدمی چلے پھرے، مویشیوں نے ان کو روندا، سب چورا چورا ہو کر خس و خاشاک بن کر رہ گئیں اب ہوائیں آتی ہیں اس بھوسے کو اور سبزیوں کے ذرات کو اڑاتی پھرتی ہیں جو حال ان سبزیوں اور کھیتوں کا ہوا وہی حال دنیا کا ہے چند دن کی چہل پہل ہے ہر شخص کی موت پر ختم ہوجاتی ہے اور قیامت کے دن تو ساری دنیا ختم ہو ہی جائے گی۔ یہ زمین ہی وہ نہ رہے گی جو اب ہے نہ مخلوق میں زمین کا کوئی مالک ہوگا نہ وہ ہری بھری ہوگی نہ اس میں پیداوار ہوگی، اس عارضی ذرا سی چہل پہل پر بھروسہ کرنا اور اس میں دل لگانا اور خالق مجدہ کو بھول جانا اور آخرت کے لیے فکر مند نہ ہونا یہ انسان کی ناسمجھی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا میٹھی ہے ہری بھری ہے اور بلاشبہ اللہ نے اس میں تمہیں اپنا خلیفہ بنایا ہے سو وہ دیکھے گا کہ تم کیا عمل کرتے ہو، لہٰذا دنیا (میں دل لگانے) سے بچو اور عورتوں (کے فتنہ) سے بچو۔ بنی اسرائیل میں جو سب سے پہلا فتنہ ظاہر ہوا وہ عورتوں ہی کا فتنہ تھا۔ (رواہ مسلم)
Top