Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 32
وَ اِنْ كُلٌّ لَّمَّا جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ۠   ۧ
وَاِنْ : اور نہیں كُلٌّ : سب لَّمَّا : مگر جَمِيْعٌ : سب کے سب لَّدَيْنَا : ہمارے روبرو مُحْضَرُوْنَ : حاضر کیے جائیں گے
اور یہ سب مجتمع طور پر ہمارے پاس ضرور حاضر ہوں گے۔
(وَاِِنْ کُلٌّ لَمَّا جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ ) (اور یہ سب لوگ مجتمع طور پر ہمارے رو برو حاضر کیے جائیں گے) یعنی جو لوگ کفر کی وجہ سے ہلاک کیے گئے ان کا جو دنیا میں ہلاک کیا جانا اور عذاب دیا جانا ہے اسی پر بس نہیں ہے مزید عذاب آخرت میں دیا جائے گا جو دائمی ہوگا جو لوگ بھی ہلاک کیے جائیں گے وہ سب مجتمع طور پر ہمارے رو برو حاضر ہوں گے، حجتیں قائم ہوں گی پھر دائمی عذاب کی جگہ یعنی دوزخ میں جائیں گے۔ فوائد مستنبطہ از قصہ مذکورہ تین حضرات مذکورہ بستی میں دعوت اور تبلیغ کے کام کے لیے گئے ان کے بارے میں بیان فرمایا کہ پہلے دو حضرات کو بھیجا تھا پھر تیسرا شخص بھی ان کی تقویت کے لیے بھیج دیا، اس سے جماعتی طور پر دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کا ایک طریقہ معلوم ہوا، یوں تو ایک شخص تنہا بھی اپنی بساط کے موافق جتنا چاہے کرسکتا ہے اور بعض مرتبہ مخاطبین کی بدسلوکی کی وجہ سے اسے بہت زیادہ ثواب بھی مل سکتا ہے لیکن جماعت بن کر لوگوں کے پاس جانے اور انہیں حق کی تبلیغ کرنے اور ایمان اور ایمانیات کی دعوت دینے کے لیے نکل کر لوگوں کے پاس پہنچنے سے بعض مرتبہ نفع زیادہ ہوتا ہے اور فی نفسہٖ یہ طریقہ بہت مفید ہے۔ قصہ بالا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو حضرات دینی دعوت کے لیے کہیں جائیں تو مقامی لوگوں کو بھی ان کی تائید میں کھڑا ہونا چاہیے جیسا کہ مذکورہ بستی کے دور دراز حصہ سے آکر ایک شخص نے اصحاب ثلاثہ کی تائید کی، اس سے دعوت دینے والے حضرات کو تقویت ہوتی ہے۔ ان حضرت کے قصہ سے دو باتیں اور مزید معلوم ہوئیں، اول یہ کہ دور دراز سے جو شخص آیا اس نے خطاب کی ابتداء کرتے ہوئے یا قوم کہا پھر یوں کہا (اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا یَسْءَلُکُمْ اَجْرًا) (کہ اے میری قوم تم ان لوگوں کا اتباع کرو جو کسی معاوضہ یا اجرت کا سوال نہیں کرتے) (وَّ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ ) (اور وہ لوگ خود بھی ہدایت پر ہیں) معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت کا کام کہیں لے کر جائیں وہ بغیر کسی دنیاوی غرض کے دعوت کے کام کے لیے نکلیں اور جن لوگوں کے پاس پہنچیں ان سے کسی قسم کا ذرا سا بھی کوئی لالچ نہ رکھیں نہ دعوت و ضیافت کا نہ روٹی پانی کا نہ بوریا اور بستر کا، اپنا خرچہ خود ہی کریں۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا یہ خاص وصف تھا کہ وہ اپنے دعوت کے کام کا ثواب صرف اللہ تعالیٰ سے چاہتے تھے مخاطبین سے ذرا سی بھی نہ امید رکھتے تھے نہ ان سے کچھ طلب کرتے تھے، ان حضرات کا فرمانا تھا : (وَمَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ الاَّ عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) (اور میں تم سے توحید کی دعوت پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر صرف اللہ کے ذمہ ہے) سورة سبا میں ہے (قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَھُوَ لَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ الاَّ عَلَی اللّٰہِ ) (آپ فرما دیجیے کہ میں نے جو کچھ کوئی عوض تم سے طلب کیا ہو تو وہ تمہارے ہی لیے ہے میرا اجر صرف اللہ پر ہے) سورة ص کے آخر میں فرمایا (قُلْ وَمَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ ) (آپ فرما دیجیے کہ میں تم سے اپنے دعوت کے کام پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور میں بناوٹ کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ ) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو لوگ ہدایت کی دعوت دیں وہ خود بھی ہدایت یافتہ ہوں، اگر خود بھی ہدایت پر ہوں گے تو مخاطبین ان کی بات کا اثر جلدی لیں گے اور ان میں سے کوئی شخص یوں نہ کہہ سکے گا کہ نکلے ہو دوسروں کو بتانے اور دینی اعتبار سے تمہارا اپنا حال پتلا ہے۔ داعی حق کو مخاطبین سے بات کرنے کا اسلوب بھی ایسا اختیار کرنا چاہیے جسے ان کے کان خوشی سے سن لیں اور قلوب گوارا کرلیں۔ مذکورہ بالا بستی کا جو شخص دور سے دوڑا ہوا آیا تھا ایک تو بستی والوں کو (یَاقَوْم) کہہ کر اپنایا اور یہ بتایا کہ تم اور میں ایک ہی قوم کے افراد ہیں ان کے ذہنوں کو قریب کرنے کے لیے یہ بتایا کہ میں تمہی میں سے ہوں۔ پھر یہ صاحب جب اصحاب ثلاثہ (تینوں فرستادوں) کی تائید سے فارغ ہوئے تو اپنے اوپر رکھ کر یوں کہا (وَمَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ ) (اور کیا ہوا کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا فرمایا) وہ شخص خود تو ہدایت پر تھا، موحد تھا اور جو مخاطب تھے وہ مشرک تھے، لیکن بات کرنے میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا کہ مجھے کیا ہوا جو میں اپنے خالق کی عبادت نہ کروں، حالانکہ بظاہر یوں کہنا چاہیے تھا۔ (وَمَا لَکُمْ لاَ تَعْبُدُوْنَ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ ) کہ تمہیں کیا ہوا کہ اس ذات کی عبادت نہیں کرتے جس نے تمہیں پیدا کیا، خطاب ان سے کیا بات اپنے اوپر رکھی اور توحید کی دلیل بھی بتادی اور شرک کی تردید بھی کردی کہ جس نے پیدا کیا ہے صرف وہی مستحق عبادت ہے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے کیونکہ اس کی صفت خالقیت میں کوئی بھی شریک نہیں اور چونکہ اصل تبلیغ مخاطبین ہی کو کرنی تھی اس لیے آخر میں (وَاِلَیْہِ ارجع) نہیں کہا (کہ میں اس کی طرف لوٹایا جاؤں گا) بلکہ (وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) کہا کہ تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے، اب تم سمجھ لو کہ تمہارا کیا حال بنے گا، شرک کی پاداش میں سزا بھگتنا ہے تو تم جانو۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے صاحب موصوف نے کہا (اِنِّیْ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ) (اگر میں اپنے خالق کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے لگوں تو کھلی ہوئی گمراہی میں پڑجاؤں گا) یہ بات بھی اپنے اوپر رکھ کر کہی اور مخاطبین کو بتادیا کہ دیکھو تم مشرک ہو اور کھلی ہوئی گمراہی میں ہو۔ آخر میں کہا (اِنِّیْ اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوْنِ ) (بلاشبہ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا سو تم میری بات سنو) اس میں اپنے ایمان کا واضح طور پر اعلان کردیا اور اس میں بھی ان کو ایمان کی دعوت دے دی (اٰمَنْتُ بِرَبِّیْ ) کے بجائے (اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ ) کہا اور یہ بتادیا کہ جو تمہارا پروردگار ہے اسی پر ایمان لانا اور اسی کی عبادت کرنا لازم ہے پرورش تو کرے خالق اور مالک جس میں اس کا کوئی شریک نہیں اور عبادت دوسروں کی کی جائے یہ تو ہلاکت اور ضلالت کی بات ہے۔ بات یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے دعوت و ارشاد کا کام کرتے ہیں، ناصح اور امین ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے قلوب میں اس کا طریقہ ڈال دیتے ہیں اور ان کی زبانیں حسن اسلوب، حسن اداء اور عمدہ سلیقہ سے متصف ہوجاتی ہیں۔ (ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ )
Top