Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 55
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : اہل جنت الْيَوْمَ : آج فِيْ شُغُلٍ : ایک شغل میں فٰكِهُوْنَ : باتیں (خوش طبعی کرتے)
بلاشبہ آج جنت والے اپنے مشغلوں میں خوش ہوں گے۔
اہل جنت کی نعمتوں کا تذکرہ، وہ اپنی بیویوں کے ساتھ سایوں میں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ان آیات میں اہل جنت کی بعض نعمتوں کا تذکرہ فرمایا، اول تو یہ فرمایا کہ یہ لوگ اپنے اپنے مشغلوں میں خوش ہوں گے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : (والمراد بہ ما ھم فی من النعیم الذی شغلھم عن کل ما یخطر بالبال) یعنی شغل سے وہاں کی نعمتوں میں مشغول رہنا مراد ہے، وہاں کی نعمتیں ہر اس چیز کے تصور سے بےپرواہ کردیں گی جن کا تصور آسکتا ہو۔ (فَاکِھُوْنَ ) کا ایک ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے یعنی وہ اپنی نعمتوں میں خوش ہوں گے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے تمتع اور تلذذ مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس میوے موجود ہوں گے جن میں سے کھایا کریں گے۔ (روح المعانی) پھر فرمایا کہ اہل جنت اور ان کی بیویاں سایوں میں ہوں گے جہاں ناگوار گرمی ذرا نہ ہوگی (اَراءِکِ ) یعنی مسہریوں پر ہوں گے، یہ (اَرِیْکَۃٌ) کی جمع ہے، (اریکہ) مسہری کو کہتے ہیں۔ (مُتَّکِؤُنَ ) تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ سورة الواقعہ میں فرمایا (عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِءِیْنَ عَلَیْہَا مُّتَقَابِلِیْنَ ) (وہ لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ )
Top