Al-Qurtubi - Yaseen : 55
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : اہل جنت الْيَوْمَ : آج فِيْ شُغُلٍ : ایک شغل میں فٰكِهُوْنَ : باتیں (خوش طبعی کرتے)
اہل جنت اس روز عیش و نشاط کے مشغلے میں ہوں گے
حضرت ابن مسعود ‘ حضرت ابن عباس ‘ قتادہ ارمجاہد نے کہا : باکرہ عورتوں کے ساتھ حقوق زوجیت نے انہیں غافل کردیا ہوگا۔ ترمذی حکیم نے اپنی کتاب ” مشکل القرآن “ میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ ہمیں محمد بن حمیدرازی نے انہوں نے یعقوب قومی سے انہوں نے حفص بن حمید سے انہوں نے شمسر بن عطیہ سے ‘ انہوں نے شفیق بن سلمہ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ باکرہ بیویوں سے حقوق زوجیت نے انہین مشغول کر رکھا ہو (1) ۔ محمد بن حمید ‘ ہارون بن مغیرہ سے وہ نہشل سے وہ ضحاک سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس کی مثل روایت کرتے ہیں۔ ابو قلابہ نے کہا : اسی اثنا میں کہ ایک جنتی اپنے اہل کے ساتھ مصروف ہوگا کہ اسے کہا جائے گا : اپنے اہل کی طرف توجہ کرو وہ کہے گا : اپنے اہل کے ساتھ مشغول ہوں۔ اسے کہا جائے گا : اپنے اہل کی طرف توجہ کرو۔ ایک قول یہ کیا گیا : جنتی جنت کی لذات اور نعمتوں میں مصروف حوں گے انہیں نافرمانوں کے جہنم میں جانے کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی اور اس میں جو درد ناک عذاب ہوگا اس کی کوئی پرواہ نہ ہوگی اگرچہ ان لوگوں میں اس کے قریبی رشتہ دار اور گھر والے ہوں گے ‘ یہ سعید بن مسیب اور دوسروں لوگوں کا قول ہے۔ وکیع نے کہا : شعل کا معنی سماع ہے۔ ابن کیسان نے کہا : فی مشعل کا معنی ہے وہ ایک دوسرے کی ملاقات میں مصروف ہوں گے۔ ایک قول یہ کیا گیا : وہ اللہ تعالیٰ کی ضیافت میں مصروف ہوں گے۔ روایت بیان کی گئی ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا : میرے وہ بندے کہیاں ہیں جنہوں نے میری اطاعت کی وہ بن دیکھے میرے عہد کو یاد رکھا ؟ وہ کھڑے ہوں گے گویا ان کے چہرے چودھویں کے چاند اور روشن ستارے ہوں گے وہ نور کی اونٹنیوں پر سوار ہوں گے ان کی لگامیں یا قوت کی ہونگی جو لوگوں کے سروں پر سے انہیں لے کر اڑتی ہوں گی یہاں تک کہ وہ عرش کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : میرے ان بندوں پر سلام جنہوں نے میری اطعات کی اور بن دیکھے میرے عہد کی حفاظت کی ‘ میں نے تمہیں چن لیا ‘ میں و نے تمہیں منتخب کرلیا ہے اور میں نے تمہیں اختیار کیا ہے جائو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جائو ‘ نہ آج تم پر کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم غمگین ہونگے ‘ وہ پل صراط سے اچکنے والی بجلی طرح گزر جائیں گے ‘ ان کے لئے دروازے کھول دیئے جائیں گے پھر مخلوق ابھی میدان محشر میں کھڑی ہوگی تو وہ ایک دوسرے کو کہیں گے : اے قوم ! فلاں کہاں ہے ؟ فلاں کہاں ہے ؟ جس وقت وہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے تو ایک منادی ندا کرے گا : ان اصحب الجنۃ الیوم فی شغل فکھون۔۔ شعل اور شعل اس میں دو لغتیں ہیں دونوں کے ساتھ اسے پڑھا بھی گیا ہے جس طرح رعب اور رعب ‘ سحت اور سحت یہ گفتگوپہلے گزر چکتی ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : فکھون کا معنی مسرورون ہے (1) ۔ حضرت اب عباس ؓ نے کہا : اس کا معنی فرحون ہے (2) ۔ مجاہد اور صحاک نے کہا : اس کا معنی معجبون ہے۔ سدی نے کہا : اس کا معنی ناعمون ہے۔ سب کا معنی باہم قریب ہے۔ فکاھت کا معنی بھی مزاح اور اچھی گفتگو ہے۔ ابو جعفر ‘ شیبہ اور اعرج نے کہا فکھون الف کے بغیر ہے ‘ یہ دونوں لغتیں ہیں جس طرح فارہ اور فرہ اور حاذر اور حذر ‘ یہ فراء کا قول ہے۔ کسائی اور ابو عبیدہ نے کہا الفاکہ سے مراد ذوالفاکھۃ ہے یعنی اسم فاعل نسبت کے معنی میں ہے جس طرح شاتم ‘ لاحم ‘ تامر اور لابن ہے اور فکہ سے مراد متف کہ اور متنعم ہے۔ فکھون قتادہ کے قول میں الف کے بغیر ہے جس کا معنی معجبون) خوش ہونے والے ( ہے۔ ابوزید نے کہا یہ کہا جاتا ہے : رجل فکہ جب خوش ہونے والا اور مسکرانے والا ہو۔ طلحہ بن مصرف نے فاکھین پڑھا ہے یہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ھم و ازواجھم فی ظلل علی الارائک متکون۔ مبتدا اور خبر ہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ ھم تاکید ہو اور ازوجھم کا عطف ضمیر پر ہو اور متکئون ‘ فاکھون کی صفت ہوئی۔ عام لوگوں کی قرائت فی ظلل ظاء کے کسرہ اور الف کے ساتھ ہے۔ حضرت ابن مسعود ‘ عبید بن عمیر ‘ اعمش ‘ یحییٰ ‘ حمزہ ‘ کسائی اور خلف نے اسے فی ظلل پڑھا ہے ظاء پر ضمہ ہے اور الف کے بغیر ہے ظلال ‘ ظل کی جمع ہے اور ظلل ‘ ظلۃ کی جمع ہے۔ ارائک سے مراد خیموں میں پلنگ ہیں اس کا واحد اریکہ ہے جس طرح سفینہ کی جمع سفائن آتی ہے شاعر نے کہا : کان احمرار الورد فوق عضونہ بوقت الضحی فی روضۃ المتضاحک خدود عداری قد خجلن من الحیاء تھا دین بالریحان فوق الارائک گویا گلاب کے پھول کی سرخی اس کی ٹہنیوں پر چاشت کے وقت مسکراتے باغیچے میں کنواری عورتوں کے رخسار ہیں جو حیاء کی وجہ سے شرمندہ ہیں جو پلنگوں پر ریحان کا پھول باہم تحفہ دیتی ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جنتی جب بھی اپنی عوتوں سے حقوق زوجت ادا کر چکیں گے تو ان کی عورتیں باکرہ ہوجائیں گی (1) “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ایک جنتی سر سال تک حوار کے معانقہ کرے گا نہ مرد اس سے اکتائے گا اور نہ وہ مرد سے اکتائے گی جب بھی وہ جنتی اس کے پاس آئے گا اس باکرہ پائے گا جب وہ اس حور کی طرف لوٹے گا تو مرد کی شہوت لوٹ آئے گی وہ اس حور کے ساتھ ستر مردوں کی قوت کے ساتھ حقوق زوجیت ادا کرے گا ان کے درمیان منی نہ ہوگی وہ منی کے بغیر آئے گا اور وہ مغنی کے بغیرآئے گی۔ لھم فیھا فاکھۃ یہ مبتدا اور خبر ہیں لھم ما یدعون۔ میں دوسرا دال اصل میں تاء ہے کیونکہ دعا سے یفتعلون کے وزن پر ہے یعنی وہ جو طلب کرے گا وہ چیز اسے عطا کردی جائے گی ‘ یہ ابو عبید نے معنی بیان کیا ہے۔ یدعون کا معنی ہے وہ آرزو کریں گے یہ دعا سے مشتق ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان میں سے جو جس چیز کا دعویٰ کرے گا وہ اسی کی ہوجائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی فطرت سے پیدا کیا ہوگا کہ وہ ایسی چیز کا ہی دعویٰ کریں گے جوان کے لئے جمیل اور حسین ہوگی۔ یحییٰ بن سلام نے کہا یدعون کا معنی ہے وہ خواہش کریں گے (2) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : وہ سوال کریں گے۔ معنی قریب قریب ہے ابن انباری نے کہا : ولھم ما یدعون پر وقف کرنا اچھا ہے پھر سلم سے تو کلام کو شروع کرے معنی یہ ہوگا : ذلک لھم سلام ‘ سلام کو اس طریقہ پر رفع دینا بھی جائزہ ہے و لھم ما یدعون مسلم خالص جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کے لئے وہ مسلم اور خالص ہوگا۔ اس تعبیر کی بناء پر ما یدعون پر وقف کرنا اچھا نہیں۔ زجاج نے کہا : سلام یہ ما سے بدل کے طور پر مرفوع ہے معنی یہ بنے گا : ولھم ان سلام اللہ علیھم ان کے حق ہے اللہ تعالیٰ ان پر سلام بھیجے یہ جنتیوں کی خواہش ہوگی۔ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اسی اثناء میں کہ جنتی نعمتوں میں ہوں گے کہ ان کے لئے نور چمکے گا وہ اپنے سروں کو اوپر اٹھائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اوپر کی جانب سے ظاہر ہوگا فرمایا : اے جنتیوں ! تم پر سلام ہو ‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان : سلم قولا من رب رحیم۔ کا یہی مفہوم ہے (3) اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا اور وہ اس کا دیدار کریں گے جب تک وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کر رہے ہوں گے اس وقت تک وہ جنت کی کسی اور نعمت کی طرف متوجہ نہ ہوں گے یہاں تک کہ وہ حجاب میں ہوجائے گا جب کہ اس کا نور اور اس کی برکات ان کے گھروں میں باقی رہيں گے (4) یہ ثعلبی اور قشیری نے ذکر کیا ہے اس کا معنی صحیح مسلم میں بھی ثابت ہے ہم نے اس کی وضاحت سورة یونس آیت 26 میں اللہ تعالیٰ کے فرمان : للذین احسنوا الحسنی و زیادۃ میں میں بیان کردی ہے یہ بھی جائزہ ہے کہ مانکرہ ہو اور سلام اس کی صفت ہو معنی ہو جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں وہ ان کے لئے مسلم ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ مامبتدا ہونے کی حیثیت سے مرفوع اور سلام اس کی خبر ہو ان صورتوں میں ولھم ما یدعون پر وقف نہیں کیا جائے گا۔ حضرت ابن مسعود کی قرأت میں سلامامفعول مطلق ہے اگر تو چاہے تو اسے حال کی حیثیت سے منصوب تسلیم کرلے تقدیر کلام یوں ہوگی ولھم ما یدعون ذا سلام او سلامۃ او مسلما اس تاویل کی صورت میں یدعون پر وقف اچھا نہیں۔ محمد بن کعب قرظی سے سلم پڑھا ہے کیونکہ یہ جملہ مستانفہ ہے گویا کہا : ذلک سلم لھم اس میں وہ کوئی تنازع نہیں کرتے تو اس صورت میں ولھم یدعون مکمل جملہ ہے۔ یہ بھی جائز ہے سلم ولھم ما یدعون سے بدل ہو اور ما یدعون کی خبر لھم ہوگی۔ یہ بھی جائز ہے سلام دوسری خبر ہو تو اس صورت میں کلام کا معنی ہو وہ انہیں کے لئے خالص ہے اس میں کوئی نزاع کرنے والا نہیں قولا یہ مفعول مطلق ہے تقدیر کلام یوں ہوگی قال اللہ ذالک قولا یا یقولہ قولا فعل مخدوف پر مصدر کا لفظ دلالت کرتا ہے اور دوسرے مذہب کی بناء پر یدعون پر وقف کرنا اچھا نہیں۔ سبحستانی نے کہا : اللہ تعالیٰ کا فرمان سلم پر وقف مکمل ہے۔ یہ علط ہے کیونکہ قول ما قبل سے خارج ہے۔ یہ کہا جاتا ہے : تمیزوا ‘ امازو اور امتازو کا معنی ایک ہی ہے اور مجرد سے یوں مطاوعت کا صیغہ آتا ہے مزتہ فائماز و امتاز اور تفعیل سے یوں صیغہ آتا ہے میزتہ فتمیز جب جنتیوں کو جنت کی طرف جانے کا حکم دیا جائے گا تو سوال کے لئے جب وہ کھڑے ہوں گے تو اس وقت انہیں یہ بات کہی جائے گی ‘ یعنی ان سے نکل جائو۔ قتادہ نے کہا : معنی ہے یہ بہشت سے الگ کردیئے گئے (1) ۔ صحاک نے کہا : مجرم ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے (2) ۔ یہودی ایک جماعت کی صورت میں الگ ہوں گے ‘ نصاریٰ ایک جماعت کی صورت میں الگ ہوں گے ‘ مجوسی ایک فرقہ کی صورت میں الگ ہوں گے ‘ صابی ایک فرقہ کی صورت میں الگ ہوں گے اور بت پرست ایک فرقہ کی صورت میں الگ ہوں گے۔ ان سے ایک قول یہ بھی مروی ہے : ہر جماعت کا جہنم میں ایک کمرہ ہوگا جس میں اسے داخل کردیا جائے گا اور وہ دروازہ بند کردیا جائے گا وہ اس میں ہمیشہ ہمہشہ رہیں گے نہ وہ کسی کو دیکھیں گے اور نہ وہ کسی کو دکھائی دیں گے۔ دائود بن جراح نے کہا : مسلمان مجرموں سے الگ ہوجائیں گے مگر خواہش کے پجاری مجرموں کے ساتھ ہوں گے (3) ۔
Top