Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 55
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : اہل جنت الْيَوْمَ : آج فِيْ شُغُلٍ : ایک شغل میں فٰكِهُوْنَ : باتیں (خوش طبعی کرتے)
اہل جنت اس روز عیش ونشاط کے مشغلے میں ہوں گے
ان اصحب الجنۃ الیوم فی شغل فکھون اہل جنت اس دن بلاشبہ (اپنے) مشغلوں میں خوش دل ہوں گے۔ شغل سے کیا مراد ہے ‘ اہل تفسیر کا اس میں اختلاف ہے۔ دوشیزہ عورتوں سے صحبت مراد ہے (حضرت ابن عباس) یا سماع مراد ہے (وکیع بن جراح) شغل سے مراد یہ ہے کہ دوزخیوں کی اور ان کے احوال کی ان کو پرواہ نہ ہوگی ‘ وہ دوزخیوں کو یاد بھی نہیں کریں گے (کلبی) جنت کی نعمتوں اور راحتوں میں ایسے مشغول ہوں گے کہ دوزخیوں کے عذاب کا ان کو خیال بھی نہ ہوگا (حسن) سب اللہ کی مہمانی میں ہوں گے اور باہم ملاقاتیں کریں گے (ابن کیسان) اولیٰ یہ ہے کہ (کوئی خاص مشغلہ نام زد نہ کیا جائے بلکہ یوں) کہا جائے کہ اپنے اپنے پسندیدہ مرغوب کاموں میں مشغول ہوں گے۔ صوفیہ کا مقصود سوائے ذات خداوندی کے اور کچھ نہیں ‘ اسلئے اپنے اپنے درجات کے مطابق یہ گروہ اللہ کی ذاتی نور پاشیوں میں غرق ہوں گے (جنت کی اور کوئی نعمت سوائے تجلیات ذاتیہ کے اپنی طرف ان کو مائل نہ کرسکے گی) دوسرے اہل جنت کے مشاغل مختلف ہوں گے کھانا پینا ‘ گانا سننا ‘ عورتوں سے قربت اور خواہشات کے مطابق دوسرے مشاغل میں انہماک ان کا پسندیدہ عمل ہوگا ابونعیم نے ہمارے شیخ طریقت بایزید بسطامی کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ کے کچھ خاص بندے ایسے بھی ہیں جن سے اللہ اگر اوٹ کرلے گا تو جس طرح دوزخی ‘ دوزخ سے نکلنے کیلئے فریاد کریں گے ‘ اسی طرح وہ جنت کے اندر حجاب دیدار سے نکلنے کیلئے فریاد کریں گے۔ شُغَلٍ میں تنوین تنکیر اظہار عظمت کیلئے ہے ‘ یعنی جنت کے اندر اہل جنت کیلئے عظیم الشان خوشی اور لذت ہوگی اتنی کہ نہ وہ احاطۂ فہم کے اندر آسکتی ہے ‘ نہ اس کی حقیقت کو الفاظ میں ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ فٰکِھُوْنَ فکاہیت سے مشتق ہے ‘ یعنی وہ مزے اور عیش میں ہوں گے۔ مجاہد اور ضحاک نے کہا : جن نعمتوں میں ہوں گے ‘ اترانے کی حد تک خوش ہوں گے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : وہ خوشی میں پھولے نہ سمائیں گے۔
Top