Asrar-ut-Tanzil - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ جب تک میں دو سمندروں کے ملنے کی جگہ پر نہ پہنچ جاؤں میں سفر جاری رکھوں گا یا یونہی زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا
(رکوع نمبر 9) اسرارومعارف جہاں تک ان لوگوں کے متکبرانہ رویے کا تعلق ہے تو وہ ایسا ہے کہ اگر کسی مقبول بارگاہ یعنی نبی اور رسول سے بھی کوئی کلمہ غیر ارادی طور پر بھی نکل جائے تو اس پر بھی تنبیہ کی جاتی ہے اور انہیں تعلیم فرمانے کے لیے آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے جیسے پہلے گذر چکا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کل جواب دوں گا تو پندہ روز وحی نہ آئی اور کفار نے بہت تمسخر اڑایا پھر تعلیم فرمایا گیا کہ انشاء اللہ فرمایا کیجئے ایسے ہی موسیٰ (علیہ السلام) سے جو الوالعزم رسول اور کلیم اللہ تھے ایک چھوٹی سی بات صادر ہوئی تو انہیں تعلیم فرمانے کے لیے ایک پوری آزمائش سے گذارا گیا ، اگر مقبولان بارگاہ سے غیر ارادی طور پر کوئی برائی کا حکم صادر ہو تو اس کا نتیجہ اتنا سخت ہو سکتا ہے تو کفار جو پہلے ہی بوجہ کفر غضب الہی کا نشانہ بن رہے ہیں متکبرانہ باتیں بھی کریں تو انہیں مزید گمراہی اور ہدایت سے محرومی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکے گا چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا ہوا اور ان پر کیا بیتی کا احوال بھی سن لیجئے آگے ان آیات میں قصہ ارشاد ہوتا ہے جس کی مختصر روئداد حدیث شریف کے مطابق یہ ہے ، صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ ّ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ اور خضر (علیہ السلام) سے ملاقات) کہ ایک بار موسیٰ (علیہ السلام) سے لوگوں نے سوال کیا کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ علم والا کون ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے زیادہ علم والا ہوں اگرچہ یہ بات تو حق تھی کہ آپ (علیہ السلام) اولوالعزم رسول تھے اور مکالم الہی آپ (علیہ السلام) کو حاصل تھا مگر آپ کو تو تشریعی علوم دیئے گئے تھے جبکہ تکوینی امور فرشتوں وغیرہ کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے عطا ہوتے ہیں ، اسی طرح بعض انسانوں کو بھی اللہ کریم یہ ذمہ داری عطا کردیتے ہیں ، خصوصا اولیاء اللہ کا ایک طبقہ جو خاص منازل قرب حاصل کرلیتا ہے ان کی ارواح بعد وصال ” ملاء الاعلی “ یعنی عرش عظیم پر رہنے والے فرشتوں کی سی ہئیت میں ہوجاتی ہیں اور بعض سے فرشتوں کی طرح خدمت بھی لی جاتی ہے جیسے مثال کی طور پر یہاں خضر (علیہ السلام) کا واقعہ ارشاد ہوا ہے گویا یہ دولت پہلی امتوں کو بھی نصیب تھی تو امت محمدیہ میں تو یقینا ہوگی اور ہے ۔ (کیا خضر (علیہ السلام) نبی تھے یا کیا وہ زندہ ہیں یا تب تھے) اس پر یقینا مختلف آراء ہیں جو دونوں احتمال بیان کرتی ہیں مگر تحقیق یہ ہے کہ خضر (علیہ السلام) نبی نہ تھے نہ ان کی کسی کتاب کا تذکرہ ہے نہ کسی امت کا بیان اور موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے فوت ہوچکے تھے یہ تمام تکوینی امور ان کی روح انجام دے رہی ہے جیسے یہ کام فرشتے انجام دیتے ہیں تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ انہیں مدد کے لیے پکارنا بھی ویسا ہی جرم اور گناہ ہوگا جیسے فرشتوں کو کفار پکارا کرتے تھے ۔ چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ جواب دیا تو حکم ہوا کہ آپ معاملہ میرے سپرد کرتے اور کہہ دیتے کہ اللہ جل جلالہ بہتر جانتا ہے یا اللہ جل جلالہ نے مجھے سب سے زیادہ علم دیا ہے اب آپ ہمارے ایک بندے سے ملئے جو مجمع البحرین میں ہے اور دیکھئے کہ ہم نے اپنے بندوں کو کیسے علوم سے نوازا ہے چناچہ آپ روانہ ہوئے تو یہی بات ان آیات میں ارشاد ہوتی ہے جن کا مفہوم شروع ہوتا ہے ، اور ساتھ حدیث شریف کے مطابق تشریح بیان ہوتی چلی جائے گی ۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اب تو میں چلتا ہی رہوں گا تا آنکہ مجمع البحرین یعنی وہ جگہ جہاں دو سمندر یا دو دریا ملتے ہیں پالوں خواہ مدت العمر چلنا ہی پڑے ، حقبہ قرنوں کے معنی میں آتا ہے مراد یہ ہے کہ چونکہ اللہ جل جلالہ کا حکم ہے لہذا اگر ہمیشہ چلتے ہی بیت جائے تو بھی تعمیل ارشاد میں چلتا ہی رہوں گا ، آپ کے ساتھ یوشع بن نون بحیثیت خادم تھے اور اللہ جل جلالہ کا حکم ہوا کہ ایک مچھلی ساتھ رکھ لیں ، جب مجمع البحرین پہ آپ پہنچیں گے تو وہ معجزانہ طور پر زندہ ہو کر پانی کے اندر چلی جائے گی وہاں آپ کی ملاقات اس بندے سے ہوگئی ۔ چناچہ آپ چلتے رہے حتی کہ ایک ایسی جگہ پہنچے اور ایک جگہ آرام فرمایا تو مچھلی کا خیال نہ رہا ، حالانکہ وہ زندہ ہو کر نہ صرف پانی میں چلی گئی بلکہ جس طرف گئی پانی کے اندر ایک سرنگ جیسا راستہ بنتا چلا گیا آپ کو یاد نہ رہا اور اٹھ کر آگے چل دیئے لیکن اللہ جل جلالہ کی شان آگے کے سفر نے آپ کو تھکا دیا اور جہاں رات بسر کی وہاں صبح اٹھ کر ناشتہ طلب فرمایا تو کھانا نکالتے وقت خادم کو یاد آیا کہ میں عرض کرنا بھول گیا تھا شاید ہم منزل سے آگے چلے آئے ہیں ، اس لیے آپ کو تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے ۔ (عجیب بات) یہ عجیب نکتہ ارشاد ہوا کہ خلوص کے ساتھ اللہ جل جلالہ کی اطاعت میں کام کیا جائے تو تھکاوٹ نہیں ہوتی ، اسی لیے اہل اللہ سے شب بھر کی عبادات کا پتہ ملتا ہے مگر ہم اگر عبادت کا بوجھ محسوس کرتے ہیں تو یہ دلیل ہے کہ اطاعت سے تجاوز ہو رہا ہے اور خلوص نہیں رہا ، تو فورا خادم کو یاد آیا عرض کرنے لگا کہ دیکھئے جب ہم نے وہاں چٹان پر آرام کیا تھا اور آپ سو رہے تھے تو مچھلی تو زندہ ہو کر پانی کے اندر چلی گئی اور جس طرف وہ گذرتی چلی گئی عجیب و غریب راستہ بنتا چلا گیا مگر میں آپ سے ذکر کرنا ہی بھول گیا اور یقینا مجھے شیطان نے بھلا کر دوسری باتوں میں لگا دیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمیں وہی جگہ تو تلاش کرنا تھی چناچہ انہی نشانات پہ چلتے ہوئے واپس ہو لئے اور وہی راستہ دریافت کرلیا جہاں سے مچھلی گذر کرگئی تھی ، تو وہاں میرے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا یعنی خضر (علیہ السلام) کو جنہیں ہم نے اپنی خاص رحمت اور مقبولیت عطا کر رکھی تھی اور انہیں ایک خاص علم عطا فرمایا تھا جو انہوں نے بلاواسطہ ہماری ذات سے حاصل کیا تھا ۔ (کیا یہ نعمت صرف خضر (علیہ السلام) کو عطا ہوئی ؟ ) یہ فرمانا کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے بہت بندے ہو سکتے ہیں جنہیں علم لدنی کی دولت نصیب ہوئی ہو اور یہ محض اللہ جل جلالہ کی عطا سے اور بغیر معروف طریقہ اکتساب کے حاصل ہوتا ہے ، اہل اللہ کو جن نعمتوں سے نوازا جاتا ہے یا دل روشن ہو کر جو کچھ پاتا ہے اس کی بنیاد یہی علم لدنی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر شخص عنایت جداگانہ ہوتی ہے علم لدنی کا یہ خاصہ ہے کہ متعلقہ موضوع ازخود دل سے دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا جاری ہوجاتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے ملاقات پر ان سے فرمایا کہ مجھے اللہ جل جلالہ نے خبر دی ہے کہ آپ کو عجیب و غریب اور انوکھا علم عطا ہوا ہے ، اگر آپ راضی ہو تو مجھے بھی اس میں سے سکھا دیں اور میں آپ کے ساتھ کچھ عرصہ رہوں ۔ (موسی (علیہ السلام) کی فضیلت) موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت تو مسلمہ ہے کہ اولوالعزم رسول تھے اور حضرت خضر (علیہ السلام) ایک ولی اللہ مگر آپ کے علوم نبوت سے متعلقہ یعنی تشریعی تھے اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے تکوینی امور سے متعلق جنہیں آپ نے حاصرحمۃ اللہ علیہ کرنا چاہا تو یہ مثال ایسی ہے جیسا کوئی بہت بڑا عالم اور فقیہہ یا مفسر ومحدث ہو سکتا ہے مگر اسے گاڑی چلانے کا فن نہ آتا ہو تو کسی ڈرائیور ہی سے سیکھے گا اور اس کی فضیلت اپنی جگہ کو وہ دوسرے علم اور دوسرے وصف کے باعث ہے اس میں درس ہے کہ علماء کو یہ فنون سیکھنے چاہئیں جو جہاد کے لیے کام دیں جیسے ہتھیار کا استعمال یا ڈرائیونگ وغیرہ اور اس شاگردی سے اس کا مرتبہ کم نہیں ہوجائے گا ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے عرض کیا آپ برداشت نہیں کر پائیں گے کہ آپ کے پاس احکام شریعت ہیں جن کے مطابق انسانوں کو عمل کرنا چاہئے اور میں دنیا سے گذر چکا آپ کی شریعت کا مکلف تو ہوں نہیں ، میرا کام براہ راست کشف یا الہام کے تابع ہوگا اور تکوینی امور سے متعلق ہوگا ، لہذا آپ کو یقینا نہ صرف عجیب لگے گا آپ اس پر روک ٹوک تک کرنے سے خود کو باز نہ رکھ سکیں گے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ مجھے بہت صابر اور متحمل مزاج بھی پائیں گے اور میں آپ کی ہر بات بھی مان کر چلوں گا ۔ تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے شرط لگا دی کہ ٹھیک ہے چلئے مگر شرط یہ ہے کہ آپ مجھ سے جو کچھ بھی دیکھیں گے اس کے بارے میں سوال نہ کریں گے حتی کہ میں خود اس کی حقیقت آپ پہ بیان نہ کر دوں ۔
Top