Tafseer-e-Baghwi - At-Talaaq : 5
ذٰلِكَ اَمْرُ اللّٰهِ اَنْزَلَهٗۤ اِلَیْكُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یُكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰتِهٖ وَ یُعْظِمْ لَهٗۤ اَجْرًا
ذٰلِكَ اَمْرُ اللّٰهِ : یہ اللہ کا حکم ہے اَنْزَلَهٗٓ : اس نے نازل کیا ہے اس کو اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ : اور جو ڈرے گا اللہ سے يُكَفِّرْ عَنْهُ : وہ دور کردے گا اس سے سَيِّاٰتِهٖ : اس کی برائیاں وَيُعْظِمْ : اور بڑا کردے گا لَهٗٓ : اس کے لیے اَجْرًا : اجر کو
اور تمہاری (مطلقہ) عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تم کو (انکی عدت کے بارے میں) شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور جن کو ابھی حیض نہیں آنے لگا (انکی عدت بھی یہی ہے) اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننے) تک ہے۔ اور جو خدا سے ڈرے گا خدا اس کام میں سہولت کر دے گا
4 ۔” والاتی یئسن من المحیض من نساء کم “ پس ان کو حیض آنے کی امید نہیں ہے۔ ” ان ارتبتم “ یعنی تمہیں شک ہو۔ پس تم نہ جانو کہ ان کی عدت کیا ہے ” فعدتھن ثلاثۃ اشھر “ مقاتل (رح) فرماتے ہیں جب نازل ہوئی۔ ” والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروئ “ تو خلاد بن نعمان بن قیس انشاری نے کہا اے اللہ کے رسول ! ( ﷺ ) جس کو حیض نہیں آتا ان کی عدت کیا ہے ؟ اور جس کو ابھی تک حیض نہیں آیا اور حاملہ کی عدت کیا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ” والاتی یئسن من المحیض من نساء کم “ یعنی وہ عورتیں جو حیض سے بیٹھ گئی ہیں۔ ” ان ارتبتم “ تم ان کے حکم میں شک کرو۔ ” عفدتھن ثلاثہ اشھر والائی لم یحضن “ یعنی وہ چھوٹی لڑکیاں جس کو ابھی حیض نہیں آیا تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ بہرحال نوجوان جس کو حیض آتا ہے لیکن ناامیدی کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اس کا حیض ختم ہوگیا۔ تو اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس کی عدت ختم نہیں ہوگی حتیٰ کہ ان کا خون دوبارہ آجائے ۔ پس وہ تین حیض عدت گزارے گی یا اگر ناامیدی کی عمر کو پہنچ گئی ہے تو تین مہینے عدت گزارے گی اور یہ عثمان، علی، زید بن ثابت اور عبداللہ بن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا قول ہے اور اس کے عطاء (رح) قائل ہیں اور اسی کی طرف امام شافعی (رح) اور اصحاب رائے گئے ہیں اور عمر ؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ نو مہینے انتظار کرے گی۔ پس اگر اس کو حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت گزارے گی اور یہ مالک (رح) کا قول ہے اور حسن (رح) فرماتے ہیں ایک سال انتظار کرے، پس اگر حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت گزارے اور یہ تمام طلاق کی عدت کے بارے میں ہے۔ بہرحال جس عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ علاوہ ازیں کہ اس کو حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو اور بہرحال حاملہ عورت تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ خاوند نے اس کو طلاق دی ہو یا فوت ہوگیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے قول ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “ سبیعہ بنت حارث نے خاوند کی وفات کے چند دن بعد بچہ جنا تو ان پر ابو السنابل بن بعلبک کا گزر ہوا تو کہا خاروند تلاش کرنے کے لئے تیار ہوگئی ہے حالانکہ اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے تو سبیعہ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو ذکر کی تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ابوالسنابل نے جھوٹ کہا یا فرمایا معاملہ ویسے نہیں جیسے ابوالسنابل نے کہا ہے۔ تیری عدت گزر گئی ہے پس تو نکاح کرلے۔ ” ومن یتق اللہ یجعل لہ من امرہ بسرا “ یعنی اس پر دنیا اور آخرت کے معاملہ کو آسان کردے گا۔
Top