Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Siraj-ul-Bayan - Al-A'raaf : 173
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠ ۧ
صِرَاطَ
: راستہ
الَّذِينَ
: ان لوگوں کا
أَنْعَمْتَ
: تونے انعام کیا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
غَيْرِ
: نہ
الْمَغْضُوبِ
: غضب کیا گیا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَلَا
: اور نہ
الضَّالِّينَ
: جو گمراہ ہوئے
راہ ان لوگوں کی جن پر تو نے فضل فرمایا جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے
اس آیت میں پہلے مثبت اور ایجابی طریق سے صراط مستقیم کو متعین کیا گیا ہے کہ ان چار طبقوں کے حضرات جس راستے پر چلیں وہ صراط مستقیم ہے اس کے بعد آخر کی آیت میں سلبی اور منفی صورت سے اس کی تعیین کی گئی ہے ارشاد ہے
غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ یعنی نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا جو راستے سے گم ہوگئے الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین کے احکام کو جاننے پہچاننے کے باوجود شرارت یا نفسانی اغراض کی وجہ سے ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں احکام الہیہ کی تعمیل میں کوتاہی (یعنی تفریط) کرتے ہیں جیسے عام طور پر یہود کا حال تھا کہ دنیا کے ذلیل مفاد کی خاطر دین کو قربان کرتے اور انبیاء کی توہین کرتے تھے اور ضآلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناواقفیت اور جہالت کے سبب دین کے معاملے میں غلط راستے پر پڑگئے اور دین کی مقررہ حدود سے نکل کر افراط اور غلو میں مبتلا ہوگئے جیسے عام طور پر نصاریٰ تھے کہ نبی کی تعظیم میں اتنے بڑھے کہ انھیں کو خدا بنا لیا ایک طرف یہ ظلم کہ اللہ کے انبیاء کی بات نہ مانیں انھیں قتل تک کرنے سے گریز نہ کریں اور دوسری طرف یہ زیادتی کہ ان کو خدا بنالیں،
آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ ہم وہ راستہ نہیں چاہتے جو اغراض نفسانی کے تابع بدعمل اور دین میں تفریط کرنے والوں کا ہے اور نہ وہ راستہ چاہتے ہیں جو جاہل گمراہ اور دین میں غلو (افراط) کرنے والوں کا ہے بلکہ ان کے درمیان کا سیدھا راستہ چاہتے ہیں جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط، اور جو شہوات اور اغراض نفسانی کے اتباع سے نیز شبہات اور عقائد فاسدہ سے پاک ہے،
سورة فاتحہ کی ساتوں آیات کی تفسیر ختم ہوگئی اس پوری سورت کا خلاصہ اور حاصل مطلب یہ دعا ہے کہ یا اللہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما اور چونکہ دنیا میں صراط مستقیم کا پہچاننا ہی سب سے بڑا علم اور بڑی کامیابی ہے اور اسی کی پہچان میں غلطی ہونے سے اقوام عالم تباہ ہوتی ہیں ورنہ خدا طلبی اور اس کے لئے مجاہدات کی تو بہت سے کفار میں بھی کوئی کمی نہیں اسی لئے قرآن نے صراط مستقیم کو پوری وضاحت کے ساتھ ایجابی اور سلبی دونوں پہلوؤں سے واضح فرمایا ہے ،
صراط مستقیم کتاب اللہ اور رجال اللہ دونوں کے مجموعہ سے ملتا ہےیہاں ایک بات قابل غور ہے اور اس میں غور کرنے سے ایک بڑے علم کا دروازہ کھلتا ہے وہ یہ کہ صراط مستقیم کی تعیین کے لئے بظاہر صاف بات یہ تھی کہ صراط الرسول یا صراط القرآن فرما دیا جاتا جو مختصر بھی تھا اور واضح بھی کیونکہ پورا قرآن درحقیقت صراط مستقیم کی تشریح ہے اور پوری تعلیمات رسول اسی کی تفصیل لیکن قرآن کی اس مختصر سورت میں اختصار اور وضاحت کے اس پہلو کو چھوڑ کر صراط مستقیم کی تعیین کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستقل دو آیتوں میں ایجابی اور سلبی پہلوؤں سے صراط مستقیم اس طرح متعین فرمایا کہ اگر سیدھا راستہ چاہتے ہو تو ان لوگوں کو تلاش کرو اور ان کے طریق کو اختیار کرو، قرآن کریم نے اس جگہ نہ یہ فرمایا کہ قرآن کا راستہ اختیار کرو کیونکہ محض کتاب انسانی تربیت کے لئے کافی نہیں اور نہ یہ فرمایا کہ رسول کا راستہ اختیار کرو کیونکہ رسول کریم ﷺ کی بقاء اس دنیا میں دائمی نہیں اور آپ کے بعد کوئی دوسرا رسول اور نبی نہیں اس لئے صراط مستقیم جن لوگوں کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے ان میں نبیّن کے علاوہ ایسے حضرات بھی شامل کردئیے گئے جو تاقیامت ہمیشہ موجود رہیں گے مثلاً صدیقین، شہداء، اور صالحین،
خلاصہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ معلوم کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے کچھ رجال اور انسانوں کا پتہ دیا، کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا، ایک حدیث میں ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو خبر دی کہ پچھلی امتوں کی طرح میری امت بھی ستر فرقوں میں بٹ جائے گی اور صرف ایک جماعت ان میں حق پر ہوگی تو صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ وہ کونسی جماعت ہے ؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے جو جواب دیا ہے اس میں بھی کچھ رجال اللہ ہی کا پتہ دیا گیا ہے فرمایاما انا علیہ و اصحابی، یعنی حق پر وہ جماعت ہوگی جو میرے اور میرے صحابہ کے طرز پر ہو،
اس خاص طرز میں شاید اس کی طرف اشارہ ہو انسان کی تعلیم و تربیت محض کتابوں اور روایتوں سے نہیں ہوسکتی بلکہ رجال ماہرین کی صحبت اور ان سے سیکھ کر حاصل ہوتی ہے یعنی درحقیقت انسان کا معلم اور مربی انسان ہی ہوسکتا ہے بقول اکبر مرحوم۔
کورس تو لفظ ہی سیکھاتے ہیں
آدمی، آدمی بناتے ہیں
اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام کاروبار میں مشاہد ہے کہ محض کتابی تعلیم سے نہ کوئی کپڑا سینا سیکھ سکتا ہے نہ کھانا پکانا، نہ ڈاکٹری کی کتاب پڑھ کر کوئی ڈاکٹر بن سکتا ہے نہ انجینیری کی کتابوں کے محض مطالعے سے کوئی انجینیر بنتا ہے اسی طرح قرآن و حدیث کا محض مطالعہ انسان کی تعلیم اور اخلاقی تربیت کے لئے ہرگز کافی نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو کسی محقق ماہر سے باقاعدہ حاصل نہ کیا جائے قرآن و حدیث کے معاملے میں بہت سے لکھے پڑھے آدمی اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ محض ترجمے یا تفسیر دیکھ کر وہ قرآن کے ماہر ہوسکتے ہیں یہ بالکل فطرت کے خلاف تصور ہے اگر محض کتاب کافی ہوتی تو رسولوں کے بھیجنے کی ضرورت نہ تھی کتاب کے ساتھ رسول کو معلم بنا کر بھیجنا اور صراط مستقیم کو متعین کرنے کے لئے اپنے مقبول بندوں کی فہرست دینا اس کی دلیل ہے کہ محض کتاب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کے لئے کافی نہیں بلکہ کسی ماہر سے سیکھنے کی ضرورت ہے،
معلوم ہوا کہ انسان کی صلاح و فلاح کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں ایک کتاب اللہ جس میں انسانی زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ احکام موجود ہیں، دوسرے رجال اللہ یعنی اللہ والے، ان سے استفادے کی صورت یہ ہے کہ کتاب اللہ کے معروف اصول پر رجال اللہ کو پرکھا جائے جو اس معیار پر نہ اتریں ان کو رجال اللہ ہی نہ سمجھا جائے اور جب رجال اللہ صحیح معنی میں حاصل ہوجائیں تو ان سے کتاب اللہ کا مفہوم سیکھنے اور عمل کرنے کا کام لیا جائے،
فرقہ وارانہ اختلافات کا بڑا سببیہی ہے کہ کچھ لوگوں نے صرف کتاب اللہ کو لے لیا، رجال اللہ سے قطع نظر کرلی، ان کی تفسیر وتعلیم کو کوئی حیثیت نہ دی اور کچھ لوگوں نے صرف رجال اللہ کو معیارِ حق سمجھ لیا اور کتاب اللہ سے آنکھ بند کرلی، اور ان دونوں طریقوں کا نتیجہ گمراہی ہے،
سورة فاتحہ کے متعلق
احکام و مسائل
سورة فاتحہ میں پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ہے پھر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا اقرار اور اس کا اظہار ہے کہ ہم اسکے سوا کسی کو اپنا حاجت روا نہیں سمجھتے یہ گویا حلف وفاداری ہے جو انسان اپنے رب کے ساتھ کرتا ہے اس کے بعد پھر ایک اہم دعا ہے جو تمام انسانی مقاصد و ضروریات پر حاوی ہے اور اس میں بہت سے فوائد اور مسائل ضمنی آئے ہیں ان میں سے چند اہم مسائل کو لکھا جاتا ہے
دعا کرنے کا طریقہ (
1
) اس خاص اسلوب کلام کے ذریعہ انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اللہ جل شانہ سے کوئی دعا و درخواست کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کی حمد وثنا کا فرض بجا لاکر پھر حلف وفادری اس بات کا کرو کہ ہم اس کے سوا نہ کسی کو لائق عبادت سمجھتے ہیں اور نہ کسی کو حقیقی معنی میں مشکل کشا اور حاجت روا مانتے ہیں اس کے بعد اپنے مطلب کی دعا کرو اس طریقہ سے جو دعا کی جائیگی اس کے قبول ہونے کی قوی امید ہے (احکام جصاص)
اور دعا میں بھی ایسی جامع دعا اختیار کرو جس میں اختصار کے ساتھ انسان کے تمام مقاصد داخل ہوجائیں جیسے ہدایت صراط مستقیم کہ دنیا ودین کے ہر کام میں اگر انسان کا راستہ سیدھا ہوجائے تو کہیں ٹھوکر لگنے اور نقصان پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے غرض اس جگہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے اپنی حمد وثناء بیان کرنے کا اصل مقصد انسان کو تعلیم دینا ہے،
اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء انسان کا فطری فرض ہے۔ (
2
) اس سورت کے پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے کی تعلیم و ترغیب ہے مگر حمد کسی نعمت یا صفت کی بناء پر ہوا کرتی ہے یہاں کسی نعمت یا صفت کا ذکر نہیں اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بیشمار ہیں ان کا کوئی انسان احاطہ نہیں کرسکتا، جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا (
14
:
34
) یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے، انسان اگر سارے عالم کو چھوڑ کر اپنے ہی وجود پر نظر ڈال لے تو معلوم ہوگا کہ اس کا وجود خود ایک عالم اصغر ہے جس میں عالم اکبر کے سارے نمونے موجود ہیں اس کا بدن زمین کی مثال ہے اس پر اگنے والے بال نباتات کی مثال ہیں، اس کی ہڈیاں پہاڑوں کی شبیہ ہیں اس کے بدن کی رگیں جس میں رواں ہے زمین کے نیچے بہنے والے چشموں اور نہروں کی مثال ہیں،
انسان دو جز سے مرکب ہے، ایک بدن دوسرے روح اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قدر و قیمت کے اعتبار سے روح اصل، اعلیٰ اور افضل ہے، بدن محض اس کے تابع اور ادنی درجہ رکھتا ہے اس ادنی جز کے متعلق بدن انسان کی تحقیق کرنے والے اطباء اور اہل تشریح نے بتلایا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً پانچ ہزار مصالح اور منافع رکھے ہیں اس کے بدن میں تین سو سے زیادہ جوڑ ہیں ہر ایک جوڑ کو اللہ تعالیٰ ہی قدرت کاملہ نے ایسا مستحکم بنایا ہے کہ ہر وقت کی حرکت کے باوجود نہ وہ گھستا ہے نہ اس کی مرمت کی ضرورت ہوتی ہے عادۃ انسان کی عمر ساٹھ ستر سال ہوتی ہے پوری عمر اس کے یہ نرم و نازک اعضاء اور ان کے سب جوڑ اکثر اوقات اس طرح حرکت میں رہتے ہیں کہ فولاد بھی ہوتا تو گھس جاتا مگر حق تعالیٰ نے فرمایا، نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَهُ (
28
:
76
) یعنی اگر ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا اور ہم نے ہی اس کے جوڑ بند مضبوط کئے اسی قدرتی مضبوطی کا نتیجہ ہے کہ عام عادت کے مطابق یہ نرم ونازک جوڑ ستر برس اور اس سے بھی زیادہ عرصہ تک کام دیتے ہیں انسانی اعضاء میں سے صرف آنکھ ہی کو لے لیجئے اس میں جو اللہ تعالیٰ شانہ کی حکمت بالغہ کے مظاہر موجود ہیں انسان کو عمر بھر خرچ کرکے بھی ان کا پورا ادراک آسان نہیں،
پھر اس آنکھ کے ایک مرتبہ کے عمل کو دیکھ کر یہ حساب لگائیے کہ اس ایک منٹ کے عمل میں حق تعالیٰ کی کتنی نعمتیں کام کر رہی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کیونکہ آنکھ اٹھی اور اس نے کسی چیز کو دیکھا اس میں جس طرح آنکھ کی اندرونی طاقتوں نے عمل کیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بیرونی مخلوقات کا اس میں بڑا حصہ ہے اگر آفتاب کی روشنی نہ ہو تو آنکھ کے اندر کی روشنی کام نہیں دے سکتی پھر آفتاب کے لئے بھی ایک فضاء کی ضرورت ہوتی ہے انسان کے دیکھنے اور آنکھ کو کام میں لانے کے لئے غذا ہوا وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ نظر اٹھ کر جو کچھ دیکھتی ہے اس میں پورے عالم کی طاقتیں کام کرتی ہیں یہ ایک مرتبہ کا عمل ہوا پھر آنکھ دن میں کتنی مرتبہ دیکھتی اور سال میں کتنی مرتبہ عمر میں کتنی مرتبہ، یہ ایسا سلسلہ ہے جس کے اعداد و شمار انسانی طاقت سے خارج ہیں،
اسی طرح کان، زبان، ہاتھ، پاؤں کے جتنے کام ہیں ان سب میں پورے عالم کی قوتیں شامل ہو کر کام پورا ہوتا ہے، یہ تو وہ نعمت ہے جو ہر زندہ انسان کو میسر ہے اس میں شاہ وگدا، امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں اور اللہ شانہ کی بڑی بڑی نعمتیں سب ایسی ہی وقف عام ہیں کہ ہر فرد انسانی ان سے نفع اٹھاتا ہے، آسمان، زمین ان دونوں میں اور ان کے درمیان پیدا ہونے والی تمام کائنات چاند، سورج، ثوابت اور سیارے ہوا، فضا کا نفع ہر جاندار کو پہنچ رہا ہے،
اس کے بعد اللہ جل شانہ کی نعمائے خاصہ جو انسان کے افراد میں بتقاضائے حکمت کم وبیش کر کے عطاء ہوتی ہیں، مال اور دولت، عزت اور جاہ، راحت اور آرام سب اسی قسم میں داخل ہیں اور اگرچہ بات بالکل بدیہی ہے کہ نعمائے عامہ مال دولت وغیرہ کے زیادہ اہم اور اشرف ہیں مگر بھولا بھالا انسان تمام افراد انسان میں عام ہونے کی بناء پر کبھی ان عظیم الشان نعمتوں کی طرف التفات بھی نہیں کرتا ہے کہ یہ کوئی نعمت ہے صرف گردوپیش کی معمولی چیزیں کھانے، پینے، رہنے سہنے کی خصوصی چیزوں ہی پر اس کی نظر رک جاتی ہے، بہرحال یہ ایک سرسری نمونہ ہے ان کا جو ہر انسان پر ہر وقت مبذول ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا ہی چاہئے کہ انسان اپنی مقدور بھر ان احسانات و انعامات کرنے والے کی حمد وثناء کرے اور کرتا رہے اسی کے تقاضائے فطرت کی تلقین کے لئے قرآن کی سب سے پہلی سورت کا سب سے پہلا کلمہ الحمد لایا گیا ہے، اور اللہ کی حمد وثناء کو عبادت میں بڑا درجہ دیا گیا ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو کوئی نعمت عطا فرمائیں اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو ایسا ہوگیا کہ گویا جو کچھ اس نے لیا ہے اس سے افضل چیز دے دی (قرطبی از ابن ماجہ بروایت انس)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگر ساری دنیا کی نعمتیں کسی ایک شخص کو حاصل ہوجائیں اور وہ اس پر الحمد للہ کہہ لے تو یہ الحمد للہ ان ساری دنیا کی نعمتوں سے افضل ہے، قرطبی نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ الحمد للہ زبان سے کہنا بھی اللہ کی ایک نعمت ہے اور یہ نعمت ساری دنیا کی نعمتوں سے افضل ہے اور حدیث صحیح میں ہے کہ الحمد للہ سے میزان عمل کا آدھا پلہ بھر جاتا ہے اور حمد کی حقیقت حضرت شقیق بن ابراہیم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی چیز عطا فرمائے تو اول اس کے دینے والے کو پہچانو پھر جو کچھ اس نے دیا ہے اس پر راضی ہوجاؤ پھر جب تک تمہارے جسم میں اس کی عطاء کی ہوئی قوت و طاقت موجود ہے اس کی نافرمانی کے قریب نہ جاؤ (قرطبی)
دوسرا کلمہ للہ ہے، اس میں لفظ اللہ کے ساتھ شروع میں حرف لام لگا ہوا ہے جس کو عربیت کے قاعدے سے لام اختصاص کہا جاتا ہے جو کسی حکم یا وصف کی خصوصیت پر دلالت کرتا ہے اس جگہ معنی یہ ہیں کہ صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء انسان کا فرض ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حمد وثناء صرف اسی کی ذات قدوس کے ساتھ مخصوص ہے حقیقی طور پر اس کے سوا عالم میں کوئی مستحق حمد وثناء کا نہیں ہوسکتا جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے، ہاں اس کے ساتھ یہ بھی اس کا انعام ہے کہ انسان کو تہذیب اخلاق سکھانے کے لئے اس کو یہ بھی حکم دے دیا کہ میری نعمت و احسان جن واسطوں سے تمہارے ہاتھ آئے ان کا بھی شکر ادا کرو کیونکہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر ادا کرنے کا خوگر نہ ہو وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرے گا،
خود اپنی مدح وثناء کسی انسان کے لئے جائز نہیں
(
3
) خود اپنی حمد وثناء کا بیان کرنا کسی مخلوق کے لئے جائز نہیں قرآن کریم میں ارشاد ہے،
فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (
53
:
32
) یعنی تم میں اپنی پاکی اور صفائی کا دعویٰ نہ کرو اللہ ہی جانتا ہے کہ کون تقوٰی شعار ہے،
مطلب یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مدح کا مدار تقویٰ پر ہے، اور اس کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کس کا تقوٰی کس درجے کا ہے اور حق تعالیٰ نے جو اپنی حمد وثناء خود بیان فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ بیچارہ انسان اس کی استعداد نہیں رکھتا کہ بارگاہ عزت و جلال کی حمد وثناء کیسے بیان کرے اور کسی کی تو کیا مجال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد وثناء کرسکے رسول کریم ﷺ نے فرمایا لا احصی ثناء علیک یعنی میں آپ کی ثناء کماحقہ نہیں کرسکتا اس لئے اللہ جل شانہ نے خود ہی حمد وثناء کا طریقہ انسان کو تعلیم فرمادیا،
لفظ رب اللہ تعالیٰ کا خاص نام ہے غیر اللہ کو رب کہنا جائز نہیں
(
4
) لفظ رب کو ایسے شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی چیز کا مالک ہو اور اس کی تربیت و اصلاح کی تدبیر اور پوری نگرانی بھی کرتا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ ساری کائنات و مخلوقات کا ایسا رب سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہوسکتا اس لئے یہ لفظ اپنے اطلاق کے وقت حق تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے غیر اللہ کو رب کو کہنا جائز نہیں، صحیح مسلم کی حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے کہ کوئی غلام یا نوکر اپنے آقا کو رب کہے البتہ کسی خاص چیز کی طرف اضافت کرکے انسان وغیرہ کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاسکتا ہے مثلاً رب المال رب الدار وغیرہ (قرطبی)
استعانت کے معنی کی تشریح اور مسئلہ توسُّل کی تحقیق
(
5
) اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کے معنی مفسّر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے یہ بیان فرمائی ہیں کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں تیرے سوا کسی سے نہیں مانگتے (ابن جریر ابن ابی حاتم)
بعض سلف صالحین نے فرمایا کہ سورة فاتحہ پورے قرآن کا راز (خلاصہ) ہے اور آیت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پوری سورة فاتحہ کا راز (خلاصہ) ہے کیونکہ اس کے پہلے جملے میں شرک سے بری ہونے کا اعلان ہے، اور دوسرے جملے میں اپنی قوت وقدرت سے بری ہونے کا اظہار ہے کہ بندہ عاجز بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کے کچھ نہیں کرسکتا جس کا نتیجہ اپنے سب کاموں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہے جس کی ہدایت قرآن کریم میں جابجا آئی ہے
فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْه ِ (ھود
123
) قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا (سورة ملک
29
) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا (مزمل
9
)
ان تمام آیات کا حاصل یہی ہے کہ مومن اپنے ہر عمل میں اعتماد اور بھروسہ نہ اپنی قابلیت پر کرے نہ کسی دوسرے کی مدد پر بلکہ کلّی اعتماد صرف اللہ تعالیٰ ہی پر ہونا چاہئے، وہی کارساز مطلق ہے،
اس سے دو مسئلے اصول عقائد کے ثابت ہوئے اول یہ کہ
اللہ کے سوا کسی کی عبادت روا نہیں اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا حرام اور ناقابل معافی جرُم ہے
عبادت کے معنی اوپر معلوم ہوچکے ہیں کہ کسی ذات کی انتہائی عظمت و محبت کی بناء پر اس کے سامنے اپنی انتہائی عاجزی اور تذلّل کا اظہار ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مخلوق کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے تو یہ شرک کہلاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ شرک صرف اسی کو نہیں کہتے کہ بت پرستوں کی طرح کسی پتھر کی مورتی وغیرہ کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھے بلکہ کسی کی عظمت، محبت، اطاعت کو وہ درجہ دینا جو اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے یہ بھی شرک جلی میں داخل ہے قرآن مجید میں یہود ونصارٰی کے شرک کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہ (
31
:
9
) یعنی ان لوگوں نے اپنے دینی عالموں کو اپنا رب بنالیا ہے،
حضرت عدی بن حاتم جو مسلمان ہونے سے پہلے نصرانی تھے انہوں نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ہم نے فرمایا کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے علماء بہت سی ایسی چیزوں کو حرام قرار دیدیتے ہیں جن کو اللہ نے حلال کیا ہے، اور تم اپنے علماء کے کہنے پر ان کو حرام ہے سمجھتے ہو، اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے تمہارے علماء ان کو حلال کردیتے ہیں تو تم ان کے کہنے کا اتباع کرکے حلال کرلیتے ہو عدی بن حاتم نے عرض کیا کہ بیشک ایسا تو ہے اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہی تو ان کی عبادت ہے،
اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے حلال یا حرام قرار دینے کا حق صرف حق تعالیٰ کا ہے جو شخص اس میں کسی دوسرے کو شریک قرار دے اور اللہ تعالیٰ کے احکام حرام و حلال معلوم ہونے کے باوجود ان کے خلاف کسی دوسرے کے قول کو واجب الاتباع سمجھے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے اور شرک میں مبتلا ہے،
عام مسلمان جو قرآن وسنت کو براہ راست سمجھنے کی اور ان سے احکام شرعیہ نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے کسی امام مجتہد، یا عالم ومفتی کے قول پر اعتماد کرکے عمل کرتے ہیں اس کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ درحقیقت قرآن وسنت ہی پر عمل ہے اور احکام خداوندی ہی کی اطاعت ہے اور خود قرآن کریم نے اس کی ہدایت فرمائی ہے،۔
فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (
34
:
16
) یعنی اگر تم خود احکام آلہیہ کو نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو،
اور جس طرح احکام حلال و حرام میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو شریک کرنا شرک ہے اسی طرح کسی کے نام کی نذر (منت) ماننا بھی شرک میں داخل ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو حاجت روا مشکل کشا سمجھ کر اس سے دعاء مانگنا بھی شرک ہے کیونکہ حدیث میں دعاء کو عبادت فرمایا گیا ہے، اسی طرح ایسے اعمال و افعال جو علامات شرک سمجھے جاتے ہیں ان کا ارتکاب بھی بحکم شرک ہے جیسے حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا کہ (مسلمان ہونے کے بعد) میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے گلے میں صلیب پڑی ہوئی تھی آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اس بت کو اپنے گلے سے نکالدو،
اگرچہ اس وقت عدی بن حاتم کا عقیدہ صلیب کے متعلق وہ نہ تھا جو نصرانیوں کا ہوتا ہے مگر ظاہری طور پر بھی علامت شرک سے اجتناب کو ضروری سمجھ کر یہ ہدایت کی گئی، افسوس کے آجکل ہزاروں مسلمان ریڈ کر اس کا صلیبی نشان لگائے ہوئے پھرتے ہیں اور کوئی پروا نہیں کرتے کہ بلاوجہ ایک مشرکانہ جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں اسی طرح کسی کو رکوع، سجدہ کرنا، یا بیت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز کے گرد طواف کرنا یہ سب علامات شرک ہیں جن سے اجتناب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے اقرار یا حلف وفاداری کا جز ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ استعانت اور استغاثہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرنا ہے کسی دوسرے سے جائز نہیں۔
مسئلہ استعانت وتوسل کی تحقیق اور احکام کی تفصیل
یہ دوسرا مسئلہ کسی سے مدد مانگنے کا ذرا تشریح طلب ہے کیونکہ ایک مدد تو مادّی اسباب کے ماتحت ہر انسان دوسرے انسان سے لیتا ہے اس کے بغیر اس دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا صنعت کار اپنی صنعت کے ذریعہ ساری مخلوق کی خدمت کرتا ہے، مزدور، معمار، بڑھئی، لوہار سب مخلوق کی مدد میں لگے ہوئے ہیں اور ہر شخص ان سے مدد مانگنے پر مجبور ہے ظاہر ہے کہ یہ کسی دین اور شریعت میں ممنوع نہیں وہ اس استعانت میں داخل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اسی طرح غیر مادّی اسباب کے ذریعہ کسی نبی یا ولی سے دعاء کرنے کی مدد مانگنا یا ان کا وسیلہ دے کر براہ راست اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا روایات حدیث اور اشارات قرآن سے اس کا بھی جواز ثابت ہے وہ بھی اس استعانت میں داخل نہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص اور غیر اللہ کے لئے حرام و شرک ہے،
اب وہ مخصوص استعانت و امداد جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور غیر اللہ کے لئے شرک ہے کونسی ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی فرشتے یا پیغمبر یا ولی یا کسی اور انسان کو خدا تعالیٰ کی طرح قادر مطلق اور مختار مطلق سمجھ کر اس سے اپنی حاجت مانگے یہ تو ایسا کھلا ہوا کفر ہے کہ عام مشرکین بت پرست بھی اس کو کفر سمجھتے ہیں اپنے بتوں، دیوتاؤں کو بالکل خدا تعالیٰ کی مثل قادر مطلق اور مختار مطلق یہ کفار بھی نہیں مانتے،
دوسری قسم وہ ہے جس کو کفار اختیار کرتے ہیں اور قرآن کریم اور اسلام اس کو باطل و شرک قرار دیتا ہے، وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں یہی مراد ہے کہ ایسی استعانت و امداد ہم اللہ کے سوا کسی سے نہیں چاہتے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق فرشتے یا پیغمبر یا ولی یا کسی دیوتا کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ اگرچہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کامل اختیارات اسی کے ہیں لیکن اس نے اپنی قدرت واختیار کا کچھ حصہ فلاں شخص کو سونپ دیا ہے اور اس دائرے میں وہ خود مختار ہے یہی وہ استعانت واستمداد ہے جو مومن و کافر میں فرق اور اسلام و کفر میں امتیاز کرتی ہے قرآن اس کو شرک و حرام قرار دیتا ہے، بت پرست مشرکین اس کے قائل اور اس پر عامل ہیں،
اس معاملے میں دھوکہ یہاں سے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بہت سے فرشتوں کے ہاتھوں دنیوی نظام کے بہت سے کام جاری کرتے ہیں دیکھنے والا اس مغالطے میں پڑ سکتا ہے کہ اس فرشتے کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار سپرد کردیا ہے یا انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے بہت سے ایسے کام وجود میں آتے ہیں جو عام انسانوں کی قدرت سے خارج ہیں جن کو معجزات کہا جاتا ہے اسی طرح اولیاء اللہ کے ذریعے بھی ایسے ہی بہت سے کام وجود میں آتے ہیں جن کو کرامات کہا جاتا ہے یہاں سرسری نظر والوں کو یہ مغالطہ لگ جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کاموں کی قدرت واختیار ان کو سپرد نہ کرتا تو ان کے ہاتھ سے یہ کیسے وجود میں آتے ؟ اس سے وہ ان انبیاء و اولیاء کے ایک درجے میں مختار کار ہونے کا عقیدہ بنا لیتے ہیں حالانکہ حقیقت یوں نہیں بلکہ معجزات اور کرامات براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے صرف اس کا ظہور پیغمبر یا ولی کے ہاتھوں پر ان کی عظمت ثابت کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، پیغمبر اور ولی کو اس کے وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا قرآن مجید کی بیشمار آیات اس پر شاہد ہیں مثلاً آیت وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (
17
:
8
) میں رسول اللہ ﷺ کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ نے دشمن کی طرف ایک مٹھی کنکریوں کی پھینکی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جالگیں، اس کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی جس سے معلوم ہوا کہ معجزہ جو نبی کریم ﷺ کے واسطہ سے صادر ہوتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے،
اسی طرح حضرت نوح ؑ کو جب ان کی قوم نے کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں وہ بلا لیجئے تو انہوں نے فرمایا ؛ اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَاۗءَ (ہود
33
) یعنی معجزہ کے طور پر آسمانی عذاب نازل کرنا میرے قبضے میں نہیں اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو یہ عذاب آجائے گا پھر تم اس سے بھاگ نہ سکوگے،
سورة ابراہیم میں انبیاء ورسل کی ایک جماعت کا یہ قول ذکر فرمایا ہے وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِيَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰھِ (
14
:
11
) یعنی کسی معجزہ کا صادر کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں اللہ تعالیٰ کے اذن ومشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا، اسی وجہ سے کوئی پیغمبر یا کوئی ولی جب چاہے جو چاہے معجزہ یا کرامت دکھا دے یہ قطعاً کسی کے بس میں نہیں، رسول اللہ ﷺ اور دوسرے انبیاء سے بہت سے معین معجزات کا مطالبہ مشرکین نے کیا مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے چاہا ظاہر کردیا جس کو نہ چاہا نہیں ہوا پورا قرآن اس کی شہادتوں سے بھرا ہوا ہے،
ایک محسوس مثال سے اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ آپ جس کمرے میں بیٹھے ہیں اس میں بجلی کی روشنی بلب سے اور ہوا برقی پنکھے سے آپ پہنچ رہی ہے، مگر یہ بلب اور پنکھا اس روشنی اور ہوا پہنچانے میں قطعاً خود مختار نہیں بلکہ ہر آن اس جوڑ (کنکش) کے محتاج ہیں جو تار کے ذریعے پاور ہاؤس کے ساتھ ان کو حاصل ہے ایک سیکنڈ کے لئے یہ جوڑ ٹوٹ جائے تو نہ بلب آپ کو روشنی دے سکتا ہے نہ پنکھا ہوا دے سکتا ہے کیونکہ درحقیقت وہ عمل بلب اور پنکھے کا ہے ہی نہیں بلکہ بجلی کی رو کا ہے جو پاور ہاوس سے یہاں پہنچ رہی ہے انبیاء و اولیاء اور سب فرشتے ہر عمل میں ہر کام میں ہر آن حق تعالیٰ کے محتاج ہیں اسی کی قدرت ومشیت سے سب کام وجود میں آتے ہیں اگرچہ ظہور اس کا بلب اور پنکھے کی طرح انبیاء و اولیاء کے ہاتھوں پر ہوتا ہے ،
اس مثال سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ان چیزوں کے صدور اور وجود میں اگرچہ اختیار انبیاء و اولیاء کا نہیں مگر ان کا وجود باوجود ان سے بالکل بےدخل بھی نہیں جیسے بلب اور پنکھے کے بغیر آپ کو روشنی اور ہوا نہیں پہنچ سکتی یہ معجزات و کرامات بھی انبیاء و اولیاء کے بغیر نہیں ملتے اگرچہ یہ فرق ضرور ہے کہ پوری فٹنگ اور کنکشن درست ہونے کے باوجود آپ کو بغیر بلب کے روشنی اور بغیر واسطہ کسی پیغمبر و ولی کے بھی اس کا ظہور فرمادیں مگر عادۃ اللہ یہی ہے کہ ان کا صدور بغیر واسطہ اولیاء وانبیاء کے نہیں ہوتا کیونکہ ایسے خوارق عادات کے اظہار سے جو مقصد ہے وہ اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا،
اس لئے معلوم ہوا کہ عقیدہ تو یہ رکھنا ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت ومشیت سے ہو رہا ہے اس کے ساتھ انبیاء و اولیاء کی عظمت و ضرورت کا بھی اعتراف ضروری ہے اس کے بغیر رضائے الہی اور طاعت احکام خداوندی سے محروم رہے گا، جس طرح کوئی شخص بلب اور پنکھے کی قدر نہ پہچانے اور ان کو ضائع کردے تو روشنی اور ہوا سے محروم رہتا ہے،
وسیلہ استعانت اور استمداد کے مسئلے میں بکثرت لوگوں کو اشکال رہتا ہے امید ہے کہ اس تشریح سے اصل حقیقت واضح ہوجائے گی اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء و اولیاء کو وسیلہ بنانا نہ مطلقاً جائز ہے اور نہ مطلقاً ناجائز، بلکہ اس میں وہ تفصیل ہے جو اوپرٍ ذکر کی گئی ہے کہ کسی کو مختار مطلق سمجھ کر وسیلہ بنایا جائے تو شرک و حرام ہے اور محض واسطہ اور ذریعہ سمجھ کر کیا جائے تو جائز ہے اس میں عام طور پر لوگوں میں افراط وتفریط کا عمل نظر آتا ہے،
واللہ اسأل الصواب والسداد وبیدہ المبدأ ولامعاد
صراط مستقیم کی ہدایت دنیا و دین میں کلید کامیابی ہے
(
6
) اصل تفسیر میں یہ بات وضاحت سے آگئی ہے کہ قرآن کریم نے جس دعاء کو ہر شخص کے لئے ہر کام کے لئے ہر حال میں انتخاب فرمایا ہے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کی دعاء ہے جس طرح آخرت کی کامیابی اس صراط مستقیم پر موقوف ہے جو انسان کو جنت کی طرف لیجائے اسی دنیا کے سارے کاموں میں بھی غور کرو تو کامیابی کا مدار صراط مستقیم ہی ہے جس کام میں وہ آلات و ذرائع اختیار کئے گئے جس کے نتیجے میں مقصد کا حصول عادۃ لازمی ہے جو کامیابی عادۃ لازمی ہوتی ہے جہاں کہیں انسان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا تو اگر وہ غور کرے تو معلوم ہوجائے گا کہ کام کے کسی مرحلے میں اس میں اس نے یہ غلطی کی ہے صحیح راستہ ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا اس لئے ناکامی ہوئی،
اس کا حاصل یہ ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت صرف آخرت اور دین کے کاموں کے ساتھ مخصوص نہیں دنیا کے سب کی درستی اور کامیابی بھی اسی پر موقوف ہے اس لئے یہ دعاء ایسی ہے کہ مومن کو ہر وقت حرز جان بنانے کے قابل ہے شرط یہ ہے کہ استحضار اور نیت کے ساتھ کی جائے محض الفاظ کا پڑھ لینا نہ ہو واللہ الموفق والمعین۔
بعونہ تعالیٰ تفسیر سورة ٔ فاتحہ ختم ہوئی،
وللہ الحمد اولہ وآخرہ وظاہرہ و باطنہ ،
Top