Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 232
وَ كَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَهُمْ١ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ١ؕ فَابْعَثُوْۤا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْیَتَؔلَطَّفْ وَ لَا یُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح بَعَثْنٰهُمْ : ہم نے انہیں اٹھایا لِيَتَسَآءَلُوْا : تاکہ وہ ایکدوسرے سے سوال کریں بَيْنَهُمْ : آپس میں قَالَ : کہا قَآئِلٌ : ایک کہنے والا مِّنْهُمْ : ان میں سے كَمْ لَبِثْتُمْ : تم کتنی دیر رہے قَالُوْا : انہوں نے کہا لَبِثْنَا : ہم رہے يَوْمًا : ایک دن اَوْ : یا بَعْضَ يَوْمٍ : ایک دن کا کچھ حصہ قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا لَبِثْتُمْ : جتنی مدت تم رہے فَابْعَثُوْٓا : پس بھیجو تم اَحَدَكُمْ : اپنے میں سے ایک بِوَرِقِكُمْ : اپنا روپیہ دے کر هٰذِهٖٓ : یہ اِلَى : طرف الْمَدِيْنَةِ : شہر فَلْيَنْظُرْ : پس وہ دیکھے اَيُّهَآ : کون سا ان میں سے اَزْكٰى : پاکیزہ تر طَعَامًا : کھانا فَلْيَاْتِكُمْ : تو وہ تمہارے لیے لے آئے بِرِزْقٍ : کھانا مِّنْهُ : اس سے وَلْيَتَلَطَّفْ : اور نرمی کرے وَ : اور لَا يُشْعِرَنَّ : اور وہ خبر نہ دے بیٹھے بِكُمْ : تمہاری اَحَدًا : کسی کو
اسی طرح ہم نے ان کو جگا دیا تاکہ وہ آپس میں پوچھنے لگیں۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم کس قدر (سوتے) رہے ہوں گے۔ کہنے لگے کہ ایک دن یا ایک دن سے کم۔ کہنے لگے کہ تمہارا رب ہی جانتا ہے کہ تم کتنی دیر تک (سوتے) رہے ہو۔ انہوں نے کہا کہ اپنے میں سے کسی ایک کو یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ دیکھے کہ کون سا کھانا حلال اور پاکیزہ ہے تاکہ وہ اس میں سے تمہارے واسطے کھانا لے آئے۔ نہایت آہستگی (احتیاط) سے جائے اور کسی کو خبر نہ ہونے پائے۔
لغات القرآن آیت نمبر 19 تا 21 لیتساء لوا تاکہ وہ آپ میں پوچھیں۔ ابعثوا بھیجو۔ ورق سکہ، روپیہ پیسہ۔ ازکی حلال اور عمدہ۔ ولیتلطف اور دبے پاؤں جائے۔ لایشعرن خبر نہ دینا۔ ان یظھروا یہ کہ انہوں نے خبر پائی۔ یرجمون وہ پتھر ماریں گے۔ سنگسار کردیں گے۔ یعیدون وہ لوٹائیں گے۔ لن تفلحوا تم ہرگز فلاح نہ پاؤں گے۔ ابداً ہمیشہ۔ اعثرنا ہم نے مطلع کردیا ۔ یتنازعون وہ آپس میں جھگڑتے ہیں۔ غلبوا جو غالب ہوگئے۔ تشریح : آیت نمبر 19 تا 21 اصحاب کہف عرصے تک پرسکون نید سوتے رہے۔ پھر اللہ نے ان کو گہری نیند سے جگا دیا۔ جب وہ سو کر اٹھے تو انہیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ وہ تین سو نو سال تک اتنی گہری نیند سوتے رہے ہیں کہ اس عرصہ میں ان کے ملک اور شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ یہ نوجوان جن کو اصحاب کہف فرمایا گیا ہے دقیانوس بادشاہ کے ظلم و زیادتی سے تنگ آ کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے تھے جب وہ بیدار ہوئے اس وقت نہ صرف ان کے ملک کی حالت بدل گئی تھی بلکہ ایک مومن بادشاہ بیدوسیس کی حکومت آ چکی تھی۔ ان کا وہ شہر جس کو تاریخ میں شہر افسوس لکھا گیا ہے اس کا نام بھی طرسوس ہوگیا تھا (تفسیر قرطبی) ۔ انہوں نے جاگتے ہی آپس میں پوچھنا شروع کیا کہ ہم کتنی دیر تک سوتے رہے ہوں گے۔ کسی نے کہا دن بھریا آدھے دن تک سوتے رہے ہیں۔ پھر خود ہی کہنے لگے کہ ان بحثوں کو چھوڑو بھوک لگ رہی ہے کسی کو شہر بھیج کر کھانا منگویا جائے۔ چناچہ انہوں نے ایک شخص جس کا نام یملیخا تھا اس سے کہا کہ دیکھو پوری ہوشیاری اور احتیاط سے شہر میں داخل ہو کر کھانا لے آنا کسی کو معلوم نہ ہو کہ تم کون ہوا گر بادشاہ وقت یا اس کے لوگوں کو پتہ چل گیا تو وہ ہمیں پتھر مار کر ہلاک کردیں گے یا اپنے دین میں لوٹانے کی کوشش کریں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو یقینا ہماری دنیا اور آخرت برباد ہو کر رہ جائے گیا ور ہمیں کوئی فلاح و کامیابی نصیب ہوگی۔ یملیخا چند سکے لے کر نہایت احتیاط سے شہر پہنچ گیا۔ اسے شہر اور لوگوں کی بدلی ہوئی حالت پر حیرت تو ہوئی لیکن اس کھانا لے جانے کی جلدی تھی۔ اس نے کھانا لیا جب اس نے کھانے کے بدلے میں اپنا سکہ دینا چاہا تو اس دوکاندار نے بڑی حیرت سے اس سکہ کو دیکھا کچھ اور لوگوں کو بھی جمع کرلیا وہ سب یہ سمجھے کہ اس نوجوان کو پرانے زمان کا کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہے۔ بات ہوتے ہوتے حکمرانوں اور پھر بادشاہ تک پہنچ گئی۔ بادشاہ جس کو یہ بات معلوم تھی کہ کئی سو سال پہلے کچھ نوجوان اچانک غائب ہوگئے تھے۔ جب حالات معلوم ہوئے تو اس کو یقین ہوگیا کہ یہی وہ نوجوان ہیں جوا پنے ایمان کی حفاظت کے لئے شہر کو چھوڑ کر پہاڑوں میں گم ہوگئے تھے۔ بادشاہ نے یملیخا کا بہت احترام کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بقیہ ساتھیوں سے بھی ملنا چاہتا ہے۔ بادشاہ، اس کے وزیر اور شہر کے ہزاروں آدمی جن کو اصحاب کہف کے حالات کی اطلاع ہوگئی تھی وہ سب پہاڑوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب دور سے اصحاب کہف نے دیکھا کہ یملیخا کے ساتھ بادشاہ اور ہزاروں شہری ہیں وہ یہ سمجھے کہ شاید ظالم بادشاہ اور اس کے درباریوں کو ہمارے متعلق معلوم ہوگیا ہے اور وہ ہمیں پکڑنے آ رہے ہیں وہ پہاڑوں کی طرف چلے گئے۔ جب بادشاہ اور اس کے ساتھی وہاں پہنچے اور وہ نہ ملے تو یملیخا نے کہا کہ میں ان کو تلاش کرتا ہوں آپ سب لوگ یہیں ٹھہریں۔ چناچہ یملیخا چلا گیا اور اللہ نے ان سب اصحاب کہف پر پھر سے نیند کو غالب کردیا جب بادشاہ اور اس کے ساتھ آنے والے اصحاب کہف کو نہ پاسکے تب ارباب اقتدار نے فیصلہ کیا کہ یہاں یادگار کے طور پر مسجد بنا دی جائے۔ چناچہ انہوں نے اپنے گمان کے مطابق اس جگہ ایک مسجد تعمیر کردی۔ اس واقعہ کے مزید پہلوؤں کا بیان تو آئندہ آیات میں آئے گا۔ یہاں ان آیتوں کی چند باتوں کو سمجھ لیا جائے۔ 1- اصحاب کہف پر طویل نیند طاری کی گئی تو وہ تین سو نو سال تک پڑے سوتے رہے اس عرصہ میں انہوں نے کسی غذا کو اسعتمال نہیں کیا لیکن جب وہ بیدار ہوئے تو نہایت چست اور تندرست تھے اور بیدار ہوتے ہی ان کو بھوک پیاس نے ستانا شروع کردیا یہ قدرت کی اتنی بڑی نشانی ہے جس پر غور کرنے سے ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ 2 - دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ موت فنا کا نام نہیں ہے بلکہ ایک طویل نیند کا نام ہے جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی قیامت شروع ہوجاتی ہے کیونکہ اب اس کو ایک طویل نیند کے بعد اٹھ کر کھڑا ہو جا ا ہے اور حشر کے دن اس کی آنکھ کھلے گی اور اس کو اپنی زندگی میں کئے ہوئے ہر کام کا حساب پیش کرنا ہوگا ۔ ایک طویل عرصے تک قبر میں سوتے رہنے کے باوجود اس کو جاگنے کے بعد ایسا محسوس ہوگا۔ جیسے بس وہ ابھی سویا تھا اور وہ ایک نیند لے کر کھڑا ہوگیا ہے۔ البتہ کفار مشرکین اور فاسق جب بیدار ہوں گے تو ان کو یہ نیند بہت لمبی محسوس ہوگی۔ 3- جب یملیخا کھانا لینے جا رہے تھے تو بقیہ ساتھیوں نے کہا کہ ” ازکی طعاماً “ یعنی حلال اور پاکیزہ کھانا لانا۔ انہوں نے یہ احتیاط اس لئے برتی کہ اس زمانہ میں اخلاقی و مذہبی بگاڑ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام پر جانوروں کو ذبح کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مومن کو ہر حال میں حلال اور پاکیزہ رزق کی فکر رہنی چاہئے۔ 4- یرجموکم، یعنی اگر بادشاہ وقت کو ہمارا پتہ چل گیا تو وہ ہمیں سنگسار کر دے گا یعنی پتھر مار مار کو ہلاک کر دے گا یا وہ زبردستی ہمیں بت پرستی پر مجبور کر دیگا۔ انہوں نے کہا اگر ایسا ہوا تو ہمیں دنیا اور آخرت میں کوئی فلاح اور کامیابی نصیب نہ ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی فلاح اور کامیابی صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی میں ہے غیر اللہ کی عبادت و بندگی انسان کو دنیا اور آخرت میں برباد کردینے والی چیز ہے۔ 5- بیدوسس بادشاہ اور اس کے درباریوں کو جب اصحاب کہف کا کچھ بھی پتہ نہ چلا تب انہوں نے اس جگہ ایک مسجد تعمیر کردی تاکہ یہ جگہ یاد رہے لیکن اگر کچھ لوگ اس واقعہ سے مردوں کے قبے اور مقبرے بنانے کی دلیل لینا شروع کردیں تو ان کی عقلوں پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اول تو اس دور کی بات ہے جب شریعت مصطفوی نہ تھی بلکہ عیسائیت کے قوانین رائج تھے ممکن ہے اس شریعت میں اس کی گنجائش ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے ٹھیک اسی جگہ مسجد نہیں بنائی تھی جہاں اصحاب کہف غائب ہوگئے تھے بلکہ کسی پہاڑ پر یادگار کے طور پر مسجد بنا دی تھی۔ اس سے قبروں پر قبے اور مقبرے بنانے کی دلیل کیسے لی جاسکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نبی کریم ﷺ جس شریعت کو لے کر تشریف لائے ہیں ہم اس کی اطاعت کے ذمے دار ہیں اور نبی کریم ﷺ کی شریعت میں قبروں پر قبے، مقبرے بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے چناچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی یہ ہے ۔ ” ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ اگر ان میں سے کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا دیا کرتے تھے اور اس کی تصویریں بھی بنا دیا کرتے تھے۔ قیامت کے دن وہ بدترین مخلوق میں سے ہوں گے۔ (بخاری، مسلم، نسائی، مسند احمد) اس موقع پر مزید تفصیل کی گنجائش نہیں ہے اس کے لئے بزرگان دین کی کتابوں سے رجوع کرلیا جائے تو انشاء اللہ اس کی تفصیل بخوبی معلوم ہو سکے گی۔ اللہ ہمیں ہر طرح کی گمراہیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
Top