Dure-Mansoor - Al-Kahf : 61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا
فَلَمَّا : پھر جب بَلَغَا : وہ دونوں پہنچے مَجْمَعَ : ملنے کا مقام بَيْنِهِمَا : دونوں کے درمیان نَسِيَا : وہ بھول گئے حُوْتَهُمَا : اپنی مچھلی فَاتَّخَذَ : تو اس نے بنا لیا سَبِيْلَهٗ : اپنا راستہ فِي الْبَحْرِ : دریا میں سَرَبًا : سرنگ کی طرح
سو جب وہ دونوں مجمع البحرین پر پہنچ گئے تو اپنی مچھلی کو بھول گئے سو وہ مچھلی سمندر میں راستہ بنا کر چلی گئی۔
خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کا واقعہ : 5:۔ سعید بن جبیر (رح) سے دوسرے طریق سے روایت کیا کہ میں ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور ان کے پاس اہل کتاب میں سے ایک جماعت بھی تھی ان میں سے ایک نے کہا نوف ابی بن کعب ؓ سے روایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) وہ نبی جنہوں نے علم طلب کیا تھا وہ موسیٰ بن میشا تھے ابن عباس ؓ نے فرمایا نوف نے جھوٹ بولا ابی بن کعب ؓ نے مجھ سے رسول اللہ ﷺ کی طرف بیان فرمایا کہ موسیٰ بنی اسرائیل نے اپنے رب سے سوال کیا اے میرے رب اگر تیرے بندوں میں سے مجھ سے زیادہ جاننے والا ہو تو مجھے اس کا بتائیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں میرے بندوں میں سے تجھ سے زیادہ علم والا موجود ہے ( اس کے بعد) اس جگہ کے بارے میں بتایا اور اس سے ملاقات کی اجازت بھی دی موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھ ایک نوجوان کو لے کر نکلے اور ان کے ساتھ ایک مچھلی نمک لگائی ہوئی بھی تھی کہا گیا جس جگہ یہ مچھلی زندہ ہوجائے تو تیرا ساتھی وہیں ہوگا اور تو اپنی ضرورت کو (وہاں) پائے گا موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ ایک نوجوان نکلے وہ مچھلی بھی جو یہ حضرات اس کو اٹھائے ہوئے تھا موسیٰ (علیہ السلام) چلے یہاں تک کہ انتہائی تھک گئے اور ایک بڑے پتھر کے پاس پہنچے اور اس پانی تک پہنچے (یہ پانی حیات بخش پانی تھا جو اس میں پیتا ہمیشہ زندہ رہتا جو مردہ چیز اس کے قریب ہوتی تھی وہ زندہ ہوجاتی تھی جب یہ حضرات وہاں ٹھہرے اور مچھلی کو پانی نے چھوا تو وہ زندہ ہوگئی (آیت) ” فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا “ پھر دونوں چلے ” فلما جاوزا قال “ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت ) ’ ’ لفتہ اتنا غدآء نا لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا “ نوجوان نے کہا اور اس نے یاد کیا (مچھلی کو) اور کہنے لگا (آیت) ” ارءیت اذاوینا الی الصخرۃ فانی نسیت الحوت وما انسنیہ الا الشیطن ان اذکرہ واتخذ سبیلہ فی البحر، عجبا “ ابن عباس ؓ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) چٹان پر چڑھے جب اس کی طرف پہنچے اچانک ایک آدمی چادر اوڑھے سو رہا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو سلام کیا تو انہوں نے اس کا جواب دیا پھر پوچھا کس لئے آئے ہو ؟ آپ کو اپنی قوم میں مشغولیت ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ خاص علم سکھائیں جو آپ کو (اللہ کی طرف سے) دیا گیا ہے) (آیت) ” قال انک لن تستطیع معی صبرا “ اور وہ آدمی (یعنی خضر (علیہ السلام) علم غیب کو جانتا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیوں نہیں (میں صبر کروں گا) خضر (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” وکیف تصبر علی مالم تحط بہ خبرا “ (تو کیسے صبر کرے گا اس پر جس کی حقیقت کی تمہیں خبر نہیں) یعنی آپ ظاہر کو دیکھتے ہیں اور جو امور کی حقیقت ہے وہ آپ نہیں جانتے اور آپ علم غیب کو نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں (آیت) ” قال ستجدنی ان شآء اللہ صابرا ولا اعصی لک امر “ اگرچہ میں ایسا کام دیکھوں گا جو میری ظاہر شریعت میں مخالف ہوگا (آیت) ” قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شیء حتی احدث لک منہ ذکر ا “ اگر تو نے میرے ساتھ رہنا ہے تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال مت کرنا یہاں تک کہ میں خود اس کے متعلق بیان کروں پھر یہ دونوں ساحل سمندر پر چلے لوگوں سے پوچھتے اور ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ ان کو ایک ساحل سے دوسرے ساحل کی طرف لے جائے یہاں تک کہ ان کے پاس ایک نئی مضبوط کشتی گذری اس سے اچھی اس سے خوبصورت اور اس سے مضبوط کشتی ان کے پاس سے نہ گذری تھی کشتی والوں سے انہوں نے سوار کرلینے کا سوال کیا تو انہوں نے ان کو سوار کرلیا جب اطمینان سے کشتی میں بیٹھ گئے اور کشتی ان دونوں سمیت اپنے مسافروں کے لے کر چلی تو خضر (علیہ السلام) نے اپنی زنبور اور ہتھوڑا نکالا پھر کشتی کی ایک طرف سے زنبور اور ہتھوڑے سے ضرب لگائی یہاں تک اس کو پھاڑ دیا پھر ایک تختہ لیا اور اس کے اوپر لگا دیا پھر اس پر بیٹھ کر اس کی مرمت کرنے لگے موسیٰ (علیہ السلام) یہ عجیب معاملہ دیکھ کر گھبرا گئے فرمایا اخرقتھا لتغرق اھلھا، لقد جئت شیئا امرا (71) ” قال الم اقل انک لن تسطیع معی صبرا “ (72) قال لا تواخذنی بما نسیت “ یعنی جو میں آپ کے وعدہ کے چھوڑ بیٹھا (آیت) ” ولا ترھقنی من امری عسرا (73) “ پھر دونوں کشتی سے نکلے اور چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں آئے (وہاں) لڑکے کھیل رہے تھے ان میں ایک ایسا لڑکا تھا کہ جس سے زیادہ خوش شکل اور روشن چہرے والا اور کوئی نہ تھا خضر (علیہ السلام) نے اس کے ہاتھ کو پکڑا ایک پتھر کو اٹھا کر اس کے سر پر مارا یہاں تک کہ اسے چوٹ لگا کر اس کو قتل کردیا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس نہایت قبیح اور مشکل کام کو دیکھا تو اس پر صبر نہ کرسکے فرمایا آپ نے ایسے چھوٹے بچے کو قتل کردیا جس کا کوئی گناہ نہ تھا (آیت) ” اقتلت نفسا زکیۃ بغیر نفس، یعنی چھوٹا بچہ ” لقد جئت شیئا نکرا (74) ” الم اقل انک لن تستطیع معی صبرا “ (75) قال ان سالتک عن شیء بعدھا فلا تصحبنی، قد بلغت من لدنی عذرا (76) یعنی آپ کی طرف سے معذور ہوں گے “ فانطلقا، حتی اذا اتیا اھل قریۃ استطعما اھلھا فابوا ان یضیفوھما فوجدا فیھا جدارا یرید ان ینقص “ اس دیوار کو گرا دیا پھر اس کو بنانے بیٹھ گئے موسیٰ (علیہ السلام) نے مشقت اور تکلیف دیکھی تھی اس کی وجہ سے اکتا چکے تھے اور آپ نے جو کچھ دیکھا تھا اس پر ان کو صبر نہ ہوا تو فرمایا (آیت) ” لو شئت لتخذت علیہ اجرا “ یعنی جب ہم نے ان سے کھانا مانگا تو انہوں نے ہم کو نہ کھلایا ہم نے ان سے مہمان نوازی چاہی انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہ کی پھر آپ بغیر اجرت کے یہ عمل کررہے ہیں اگر آپ چاہتے تو آپ اپنے کام کی اجرت ہی لے لیتے۔ قال ھذا فراق بینی وبینک، سانبئک بتاویل مالم تستطیع علیہ صبرا “ (78) اما السفینۃ فکانت لمسکین یعملون فی البحر فاردت ان اعیبھا وکان ورآءہم ملک یاخذ کل سفینۃ “ اچھی کشتی ” عصبا “ (غصب کرلینا) ابی بن کعب ؓ کی قرأت یوں میں ہے (آیت) ” کل سفینۃ صالحۃ “ اور اس کو عیب (اس لئے لگایا) تاکہ اس (ظالم بادشاہ سے) اس کو بچالیں (چنانچہ وہ کشتی) سلامت رہی جب اس نے عیب کو دیکھا جو اس میں کردیا گیا تھا۔ (آیت) ” واما الغلم فکان ابوہ مومنین، فخشینا ان یرھقھما طغیانا وکفرا (80) فاردنا ان یبدلھما ربھما خیرامنہ زکوٰۃ واقرب رحما (81) واما الجدار فکان لغلمین یتیمین فی المدینۃ وکان تحتہ کنزلھما وکان ابوھما صالحا، فاراد ربک ان یبلغا اشدھما ویستخرجا کنزھما رحمۃ من ربک، وما فعلتہ عن امری “ یعنی میں نے (یہ کام) اپنی طرف سے نہیں کئے (آیت) ” ذلک تاویل مالم تسطع علیہ صبرا “ ابن عباس ؓ فرماتے تھے ان کا خزانہ نہیں تھا مگر علم کا۔ 6:۔ ابن عساکر نے دوسرے طریق سے سعید بن جبیر (رح) سے اور وہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور انہوں نے انتہائی بلیغ خطبہ دیا اور اور اس کے دل میں یہ بات آئی کہ کسی کو علم نہیں دیا گیا جتنا مجھے دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جان لیا اس بات کو جو ان کے دل میں اس بارے میں پیدا ہوئی تھی ان سے فرمایا اے موسیٰ میرے بندوں میں سے ایک ایسا بندہ ہے جس کو میں نے ایسا علم دیا ہے جو تجھ کو نہیں دیا موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میری راہنمائی فرمائیے تاکہ میں اس سے علم حاصل کروں فرمایا تیرا زادراہ اس پر تیری راہنمائی کرے گا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے نوجوان یوشع سے فرمایا ” لا برح حتی ابلغ مجمع البحرین اوامضی حقبا “ اور ان کا زاد راہ ایک نمکین مچھلی تھی اور وہ اس کو عشاء اور صبح کھاتے تھے جب وہ پتھر کی طرف پہنچے ساحل سمندر پر ان کے نوجوان نے ٹوکری کو رکھ دیا ساحل سمندر پر مچھلی پر پانی کے قطرے پڑے اس نے ٹوکری میں حرکت کی وہ ٹوکری الٹ پڑی اور وہ مچھلی سمندر میں سرنگ کی طرح راستہ بناتے ہوئے چلی گئی جب وہ آگے بڑھ گئے تو صبح کے کھانے کو بھوک لگی تو فرمایا (آیت) ” اتنا غدآءنا، لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا “ تو نوجوان نے یاد کیا (آیت) ” قال ارءیت اذ اوینا الی الصخرۃ فانی نسیت الحوت، وما انسنیہ الا الشیطان ان اذکرہ، واتخذ سبیلہ فی البحر عجبا، موسیٰ (علیہ السلام) کو یاد آیا جوان سے کہا گیا تھا کہ تمہارا زادراہ تمہاری راہنمائی کرے گا (آیت) ” قال ذلک ما کنا نبغ “ یعنی یہی ہماری حاجت تھی (آیت) ” فارتدا علی اثارھما قصصا “ اپنے قدموں کے نشانات پر چلے یہاں تک کہ پتھر تک پہنچ گئے جس میں مچھلی کود کر دریا میں چلی گئی تھی موسیٰ (علیہ السلام) نے مچھلی کے نشان کو دیکھا اور پانی پر اس کا نشان دیکھتے ہوئے چل پڑے یہاں تک کہ عرب کے جزیروں میں سے ایک جزیرے پر پہنچے (آیت) ” فوجدا عبدامن عبادنا اتینہ رحمۃ من عندنا وعلمنہ من لدنا علما “ (65) قال لہ موسیٰ ھل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا “ یعنی اس کے لئے علم کا اقرار کیا۔ قال انک لن تستطیع معی صبرا “ (67) قال وکیف تصبر علی ما لم تحط بہ خبرا “ ’ ستجدنی ان شآء اللہ صابرا ولا اعصی لک امر “ (69) (آیت) ” قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شیء حتی احدث لک منہ ذکر ا (70) پھر فرمایا میں تجھ کو بیان کروں گا، فانطلقا حتی اذا رکبا فی السفینۃ خرقھا، قال اخرقتھا لتغرق اھلھا “ سے لے کر فنطلقا حتی اذا لقیاغلما فقتلہ “ سمندر کے کنارہ پر ان کو لڑکوں میں جو کھیل رہے تھے خضر (علیہ السلام) نے ان لڑکوں میں سے جو خوبصورت اور ملیح تھا اس کو پکڑا اور قتل کردیا (آیت) ” فقتلہ قال اقتلت نفسا زکیۃ بغیر نفس، لقد جئت شیئا نکرا “ (74) الم اقل انک لن تستطیع معی صبرا “ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے نبی موسیٰ (علیہ السلام) اس وقت شرما گئے اور فرمایا (آیت) ” قال ان سالتک عن شیء بعدھا فلا تصحبنی، قد بلغت من لدنی عذرا (76) فانطلقا، حتی اذا اتیا اھل قریۃ استطعما اھلھا “ (سے لے کر) ” سانبئک بتاویل مالم تستطیع علیہ صبرا “ (78) اما السفینۃ فکانت لمسکین یعملون فی البحر فاردت ان اعیبھا وکان ورآءہم ملک یاخذ کل سفینۃ عصبا “ تو میں نے ارادہ کیا کہ اس میں عیب ڈال دوں یہاں تک کہ اس کو بادشاہ نہ پکڑ سکے جب وہ لوگ بادشاہ سے آگے بڑھ گئے تو انہوں نے کشتی کی مرمت کرلی اور نفع اٹھاتے رہے اور یہ کشتی ان کے پاس باقی رہی (آیت) ” واما الغلم فکان ابوہ مومینن “ سے لے کر (آیت) ” ذلک تاویل مالم تسطع علیہ صبرا “ تک راوی نے کہا ایک پرندہ آیا یہ چڑیا تھی اس نے اپنی چونچ ڈبوئی دریا میں خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اے موسیٰ اس پرندے کے بارے میں تو کیا کہتا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں نہیں جانتا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا یہ کہتا ہے تم دونوں کا علم جو تم سکھائے گئے ہو اللہ کے علم میں سے اس پانی سے بھی کم ہے جو میری اس چونچ نے کم کیا ہے اس سارے سمندر میں سے۔ 7:۔ رویانی اور ابن عساکر نے ایک اور طریق سے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا اس درمیان کہ موسیٰ (علیہ السلام) بن اسرائیل کو نصیحت فرما رہے تھے اچانک ان کے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ لوگوں میں کوئی بھی ان سے زیادہ علم والا نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے جان لیا ہے جو تیرے دل میں بات پیدا ہوئی ہے میرے بندوں میں سے ایک بندہ تجھ سے زیادہ علم والا ہے وہ سمندر کے کنارے پر رہتا ہے اس کے پاس جاؤ اور اس سے سیکھو اور جان لو کہ تیرے لئے اس جگہ کی راہنمائی کرنے والا وہ تیرا زادراہ لے تیرا زادراہ جس جگہ گم ہوجائے پس وہیں اس کی جگہ ہوگی پھر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا ایک نوجوان بھی (تلاش میں) نکلے اور انہوں نے ایک نمکین مچھلی کو ایک ٹوکری میں اٹھایا اور یہ دونوں پیدل چلے نہ انہوں نے تھکان کو پایا اور نہ مشقت کو یہاں تک کہ اس چشمے کے پاس پہنچے جس میں سے خضر (علیہ السلام) نے پانی پیا کرتے تھے موسیٰ (علیہ السلام) گذر گئے اور نوجوان بیٹھ گیا اس نے اس چشمے میں سے پانی پیا مچھلی ٹوکری میں سے کود پڑی یہاں تک کہ مٹی میں واقع ہوگئی پھر اس میں چلتے ہوئے دریا میں واقع ہوگئی اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا “ نوجوان چلا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے جاملا جب وہ اس سے ملا تو موسیٰ (علیہ السلام) تھک کر بیٹھ گئے اور نوجوان سے کہا (آیت) ” اتنا غدآءنا لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا “ اس نے کہا مچھلی تو گم ہوگئی اور کہا (آیت) ” انی نسیت الحوت “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کا نوجوان (بھول گیا) (آیت) ” واتخذ سبیلہ فی البحر، عجبا “ (63) قال ذلک ما کنا نبغ “ (سے لے کر) ” قصصا “ تک پھر یہ دونوں پتھر کی طرف واپس آئے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس چٹان کے اردگرد چکر لگایا لیکن کوئی نئی چیز نہ دیکھی پھر اوپر چڑھے اچانک اس کے اوپر ایک آدمی اپنی چادر لپیٹے ہوئے سو رہا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو سلام فرمایا اس نے اپنا سر اٹھایا اور کہا یہ سلام کیسے آیا ہے اس جگہ پوچھا تو کون ہے ؟ فرمایا میں موسیٰ بنی اسرائیل ہوں خضر (علیہ السلام) نے فرمایا تیری قوم میں تبلیغ کو مشغولیت نے تجھے مجھ سے بےپرواہ نہیں کیا ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے آپ کا حکم دیا گیا ہے خضر (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” قال انک لن تستطیع معی صبراقال ستجدنی ان شآء اللہ صابرا ولا اعصی لک امر “ فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شیء حتی احدث لک منہ ذکر “ پھر دونوں پیدل چل پڑے یہاں تک کہ دریا کے کنارے پہنچے ایک قوم کشتی میں سوار ہوچکی تھی جو دریا پار کرنے کا ارادہ رکھتے تھے یہ حضرات بھی ان کے ساتھ سوار ہوگئے جب یہ لوگ ابھی دریائئے کنارے پر تھے خضر (علیہ السلام) نے ایک کلہاڑا نکالا جو ان کے پاس تھا اس کے ساتھ کشتی کو پھاڑ دیا (آیت) ” قال اخرقتھا لتغرق اھلھا “ (الآیہ) ” الم اقل “ (الآیۃ) قال لاتواخذنی “ (الآیہ) ” فانطلقا، حتی اذا لقیا غلما فقتلہ “ پھر وہ چلتے چلتے ایک بستی میں نکل آئے وہاں بچے کھیل رہے تھے خضر (علیہ السلام) نے ایک لڑکے کو پکڑ لیا اور وہ ان میں زیادہ خوبصورت اور ان میں سے زیادہ مہربان طبیعت کا تھا اس کو قتل کردیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” اقتلت نفسا زکیۃ “ (الآیۃ) (آیت) ” قال الم اقل لک “ (آلایۃ) (آیت) ” قال ان سالتک “ (الآیۃ) پھر دونوں چلے یہاں تک کہ کمینے لوگوں کے گاؤں میں پہنچے ان کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی ان سے کھانا مانگا تو انہوں نے کھانا نہ دیا خضر (علیہ السلام) نے ایک دیوار کو دیکھا جو جھکی ہوئی تھی خضر (علیہ السلام) نے اس کو اپنا ہاتھ لگایا اور اس کو سیدھا کردیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” لوشئت لاتخذت علیہ اجرا “ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا آپ ہماری بھوک اور ہماری حاجت کو جانتے تھے اور آپ ان سے مزدوری کا سوال کرتے تو وہ آپ کو دے دیتے اور اس کے ذریعہ ہم شام کا کھانا کھالیتے (آیت) ” قال ھذا فراق بینی وبینک “ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا دامن پکڑ لیا اور فرمایا میں آپ کو صحبت کی قسم دیتا ہوں کہ مجھ کو تاویل بتائیے جو میں نے دیکھا فرمایا ” صبرا (78) اما السفینۃ فکانت لمسکین یعملون فی البحر “ میں نے اس کو پھاڑا تاکہ اس کو عیب دار کردوں تو (بادشاہ نے) اس کو نہ پکڑا کشتی والوں نے پھر اس کو ٹھیک کرالیا اور اس کے ساتھ نفع اٹھاتے رہے اور لڑکا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کافر بنایا تھا اور اس کے والدین مومن تھے اور وہ زندہ رہتا تو ان پر (کفر کا) اثر ڈال دیتا ” طغیانا وکفرا (80) فاردنا ان یبدلھما ربھما خیرامنہ زکوٰۃ واقرب رحما (81) واما الجدار فکان لغلمین یتیمین فی المدینۃ (الآیۃ) 8:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاکم نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے نقل کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم مصر پر غالب آگئے اور ان کی قوم مصر میں اتر گئی اور جب ان کا غلبہ پوری طرح قرار پکڑ گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (حکم) اتارا (آیت) ” وذکر ھم بایام اللہ “ ابراہیم آیت 5) (یعنی ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور اس کے احسانات یاد دلاؤ) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خطاب فرمایا اور ان کو یاد دلایا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر نعمتیں کی تھیں اور ان کو یاد دلایا جب اللہ تعالیٰ نے ان کو فرعون سے نجات دی اور ان کو یاد دلایا ان کے دشمن کے ہلاک ہونے کو اور ان کو زمین (مصر) کا خلیفہ بنانے کو اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا اور مجھے اپنی ذات کے لئے چن لیا اور مجھ پر اپنی طرف سے خاص محبت اتاری اور ہر چیز تم کو عطا فرمائی جو تم نے سوال کیا پس تمہارے نبی زمین والوں سے افضل ہے اور آج تم قرار پاچکے ہو پس موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی ایسی نعمت کا ذکر نہیں چھوڑا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر فرمائی تھی سب نعمتیں ان کو یاد دلائیں بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی نے ان سے کہا اے اللہ کے نبی کیا زمین پر آپ سے زیادہ کوئی علم والا ہے فرمایا نہیں تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آپ نے جانتے کہ میں نے اپنے علم کو کہاں رکھا ہے بلکہ ساحل سمندر پر ایک آدمی تجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا وہ خضر (علیہ السلام) تھے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میں اس کو خاص طور پر دیکھنا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ وہ سمندر پر آجائیں کیونکہ آپ ایک مچھلی کو ساحل سمندر پر پائیں گے اس کو پکڑ کر اپنے نوجوان کے حوالے کردیجئے پھر سمندر کے کنارے کو لازم پکڑئیے جب آپ مچھلی کو بھول جائیں گے اور وہ آپ سے گم ہوجائے گی تو وہاں آپ میرے ایک نیک بندے کو پائیں گے جس کو آپ تلاش کررہے ہیں جب چڑھنا لمبا ہوگیا اور اس میں تھک گئے تو اپنے نوجوان سے مچھلی طلب کی (آیت) ” قال ارءیت اذ اوینا الی الصخرۃ فانی نسیت الحوت، وما انسنیہ الا الشیطان ان اذکرہ “ (یعنی میں بھول گیا آپ کو بتانے سے نوجوان نے کہا میں نے مچھلی کو دیکھا جب اس نے سمندر میں اپنا راستہ بنایا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر تعجب کیا اور واپس لوٹے یہاں تک کہ وہ چٹان کے پاس آئے تو انہوں نے مچھلی کو پایا مچھلی نے سمندر میں چلنا شروع کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پیچھے چلے اپنی لاٹھی کو آگے کئے ہوئے تھے کہ جس سے پانی ادھر ادھر کررہے تھے اور مچھلی کے پیچھے جارہے تھے مچھلی سمندر کے جس حصہ سے گذرتی تھی وہ خشک ہوتا گیا یہاں تک کہ ایک چٹان آگئی اللہ کے نبی نے اس سے تعجب فرمایا یہاں تک کہ وہ مچھلی سمندر کے جزیروں میں سے ایک جزیرہ پر آگئی خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو اس کو سلام فرمایا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا آپ پر بھی سلام اس زمین میں کیسے آیا پوچھا آپ کون ہیں ؟ فرمایا میں موسیٰ (علیہ السلام) ہوں خضر (علیہ السلام) نے پوچھا کیا آپ بنی اسرائیل والے ہیں ؟ اور ان کو خوش آمدید کہا اور فرمایا آپ کس لئے تشریف لائے ؟ فرمایا میں آپ کے پاس آیا ہوں۔ (آیت) ” علی ان تعلمن مما علمت رشدا “ (66) ” قال انک لن تستطیع معی صبرا “ فرمایا آپ اس کی طاقت نہیں رکھ سکیں گے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا۔ (آیت) ” ستجدنی ان شآء اللہ صابرا ولا اعصی لک امرا “ پھر ان کو ساتھ لے کر چلے اور ان سے فرمایا مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کرنا جو میں کرتارہوں یہاں تک کہ میں آپ کو بیان نہ کروں ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا قول ہے ” حتی احدث لک منہ ذکر “۔ 9:۔ ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، خطیب اور ابن عساکر نے ہارون بن عشرہ کے طریق سے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے سوال فرمایا اے میرے رب تیرے بندوں میں سے کون سا بندہ تیری طرف زیادہ محبوب ہے ؟ فرمایا جو مجھے یاد کرتا ہے اور مجھے نہیں بھولتا پھر پوچھا تیرے بندوں میں سے کون اچھا فیصلہ کرنے والا ہے ؟ فرمایا جو حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور خواہش نفس کی پیروی نہیں کرتا پھر پوچھا تیرے بندوں میں سے کون زیادہ عالم ہے ؟ فرمایا جو لوگوں کے علم کو ملاتا ہے اپنے علم کے ساتھ (یعنی لوگوں سے علم حاصل کرتا ہے) قریب ہے کہ وہ پہنچ جائے گا ایسے کلمہ کی طرف جو اس کو ہدایت کا راستہ دکھائے گا یا تو اس کو ہلاکت میں گرنے سے بچا لے۔ راوی نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات پیدا ہوئی تھی کہ ان سے زیادہ کوئی عالم نہیں ہے پھر پوچھا اے میرے رب کیا مجھ سے زیادہ کوئی عالم ہے ؟ فرمایا ہاں پوچھا وہ کہاں ہے ؟ کہا گیا اس چٹان کے نزدیک جس کے پاس چشمہ ہے موسیٰ (علیہ السلام) اس کو تلاش کرنے کے لئے نکلے یہاں تک وہ سب کچھ ہوا جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) اس بندے کو جا ملے چٹان کے پاس ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو سلام کیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں آپ کے ساتھ رہنے کا ارادہ کرتا ہوں اس بندے نے کہا آپ ہرگز میرے ساتھ رہنے کی طاقت نہیں رکھتے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیوں نہیں ؟ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں (آیت) ” فلا تسئلنی عن شیء حتی احدث لک منہ ذکرا “ موسیٰ (علیہ السلام) خضر (علیہ السلام) کے ساتھ چل پڑے یہاں تک کہ مجمع البحرین تک پہنچے وہ اس جگہ پہنچے جہاں پانی سب جگہوں سے پانی زیادہ تھا اللہ تعالیٰ نے ایک پرندے کو بھیجا اس نے اپنی چونچ دریا سے بھری خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا اس پرندے نے اس پانی میں سے کتنی کمی کی ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بہت تھوڑی کمی کی اس سے (پانی) کم نہیں ہوتا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا بلاشبہ میرا علم اور آپ کا علم اللہ تعالیٰ کے علم (کے مقابلہ) میں اس پانی کے بقدر ہے جو اس پرندہ نے اس پانی سے پیا ہے اور پھر ساری حدیث ذکر فرمائی کشتی کے شگاف کرنے اور لڑکے کو قتل کرنے اور دیوار کو ٹھیک کرنے اور موسیٰ (علیہ السلام) کا فول دیوار کے بارے میں اپنی ذات کے لئے دنیا کی ایک چیز طلب کرنے کے لئے تھا اور ان کا قول کشتی اور لڑکے کے بارے میں اللہ عزوجل کے لئے تھا۔
Top