Dure-Mansoor - Al-Baqara : 197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ
اَلْحَجُّ : حج اَشْهُرٌ : مہینے مَّعْلُوْمٰتٌ : معلوم (مقرر) فَمَنْ : پس جس نے فَرَضَ : لازم کرلیا فِيْهِنَّ : ان میں الْحَجَّ : حج فَلَا : تو نہ رَفَثَ : بےپردہ ہو وَلَا فُسُوْقَ : اور نہ گالی دے وَلَا : اور نہ جِدَالَ : جھگڑا فِي الْحَجِّ : حج میں وَمَا : اور جو تَفْعَلُوْا : تم کروگے مِنْ خَيْرٍ : نیکی سے يَّعْلَمْهُ : اسے جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَتَزَوَّدُوْا : اور تم زاد راہ لے لیا کرو فَاِنَّ : پس بیشک خَيْرَ : بہتر الزَّادِ : زاد راہ التَّقْوٰى : تقوی وَاتَّقُوْنِ : اور مجھ سے ڈرو يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو
حج کا وقت چند مہینے ہیں جو معلوم ہیں، سو جس شخص نے ان میں حج کو اپنے ذمہ لازم کرلیا تو نہ کوئی فحش بات ہے نہ فسوق ہے نہ کسی قسم کا جھگڑا ہے، اور جو بھی کوئی نیک کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے اور زادراہ ساتھ لے لیا کرو چونکہ بہتر زادراہ بچا رہنا ہے اور اے عقل والو ! مجھ سے ڈرتے رہو
(1) طبرانی نے الاوسط میں اور ابن مردویہ نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے مراد شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ۔ (2) طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے مراد شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہے۔ (3) امام خطیب نے ابن حضرت عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے شوال، ذوالقعد اور ذوالحجہ مراد ہیں۔ حج کے مہینے متعین ہیں (4) سعید بن منصور، ابن المنذر نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے مراد شوال، ذوالقعد اور ذوالحجہ ہیں۔ (5) شافعی (رح) نے الام میں، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ ان سے سوال کیا گیا آپ نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے سنا تھا کہ وہ حج کے مہینوں کا نام لیتے تھے انہوں نے فرمایا ہاں شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کا نام لیتے تھے۔ ابن ابی شیبہ ابن عباس، عطا اور ضحاک (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ (6) امام وکیع، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر حاکم (انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے مراد شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ میں سے دس راتیں۔ (7) امام وکیع، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے مراد شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ میں دس راتیں۔ (8) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، طبرانی بیہقی نے متعدد طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے مراد شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن۔ حج صرف ان (مہینوں) میں فرض ہوتا ہے۔ (9) ابن المنذر، دار قطنی، طبرانی، بیہقی نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے مراد شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں۔ (10) ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ان سے لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ میں عمرہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا حج کے مہینے معلوم ہیں ان میں عمرہ نہیں ہے۔ (11) ابن ابی شیبہ نے اور ابن جریر نے محمد بن قاسم (رح) سے روایت کیا کہ اہل علم میں سے کسی ایک کو بھی شک نہیں ہے کہ حج کے مہینوں کے علاوہ میں عمرہ افضل ہے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے سے۔ (12) ابن ابی شیبہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اپنے حج اور اپنے عمرہ کو الگ الگ رکھو حج کو حج کے مہینوں میں ادا کرو۔ اور عمرہ کو حج کے مہینوں کے علاوہ میں ادا کرو۔ اس طرح تمہارا حج اور تمہارا عمرہ مکمل ہوگا۔ (13) ابن ابی شیبہ نے ابن عون (رح) سے روایت کیا کہ ہے کہ قاسم (رح) سے لفظ آیت ” الحج اشھر “ میں عمرہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا وہ لوگ (یعنی صحابہ ؓ اس عمل کو مکمل خیال نہیں کرتے تھے (یعنی جائز نہیں سمجھتے تھے) ۔ (14) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فمن فرض فیھن الحج “ کے بارے میں فرمایا کہ جو ان (مہینوں) میں حج کا احرام باندھ لے۔ (15) عبد بن حمید، ابن المنذر اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ فرض کرنے والا عمل احرام ہے۔ ابن ابی شیبہ نے ضحاک (رح) سے اسی طرح فرمایا۔ (16) ابن ابی شیبہ نے ابن الزبیر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن فرض فیھن الحج “ سے مراد ہے احرام باندھنا کہ احرام سے حج فرض ہوتا ہے۔ (17) ابن المنذر، دار قطنی، بیہقی نے ابن الزبیر ؓ سے روایت کیا کہ حج کا فرض احرام ہے۔ (18) ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ احرام باندھنا فرض ہے۔ (19) ابن ابی شیبہ نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ احرام باندھنا حج کا فریضہ ہے۔ (20) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے مراد جس شخص نے حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیا۔ (21) امام شافعی (رح) نے الام میں، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کسی کے لئے حج کا احرام باندھنا مناسب نہیں مگر حج کے مہینوں میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “۔ (22) ابن ابی شیبہ، ابن خزیمہ، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حج کا احرام صرف حج کے مہینوں میں باندھا جائے گا کیونکہ حج کی سنت میں سے یہ ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں میں باندھے۔ (23) ابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کسی کے لائق نہیں ہے کہ وہ حج کا احرام نہ باندھے مگر حج کے مہینوں میں۔ شافعی (رح) نے ام میں ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے جابر ؓ سے موقوفا اسی طرح روایت کیا۔ (24) ابن ابی شیبہ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس شخص سے فرمایا جس نے حج کے مہینوں کے علاوہ (دوسرے مہینوں میں حج کا احرام باندھ لیا تھا کہ اس کو عمرہ کا احرام بنا لے کیونکہ تیرے لئے حج نہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت فمن فرض فیہن الحج “۔ (25) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن فرض فیہن الحج “ سے مراد ہے کہ جس نے لازم کرلیا حج کو ان (مہینوں) میں تو پھر اس کو نہیں چاہئے کہ وہ حج کا لبیک پڑھ کر پھر اپنی زمین میں مقیم ہوجائے (یعنی گھر بیٹھا رہے اور حج کو نہ جائے) ۔ (26) طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عمر ؓ سے لفظ آیت ” فمن فرض فیہن الحج “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد تلبیہ اور احرام ہیں (کہ ان سے حج فرض ہوجاتا ہے) ۔ (27) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن فرض فیہن الحج “ سے مراد ہے تلبیہ (کہ اس سے حج فرض ہوجاتا ہے) ۔ (28) ابن ابی شیبہ نے طاؤس و عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحج اشھر معلومت “ سے تلبیہ مراد ہے۔ ابن ابی شیبہ نے عطا اور ابراہیم (رح) سے اسی طرح نقل فرمایا ہے۔ (29) امام مالک، شافعی، ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، احمد ترمذی (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، حاکم نے (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) خلاد بن سائب (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرئیل آئے کہ میں اپنے صحابہ کو حکم کروں کہ وہ تلبیہ کے ساتھ اپنی آوازوں کو بلند کریں کیونکہ یہ حج کا شعار ہے۔ (30) ابن ابی شیبہ، ابن خزیمہ، ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) خالد بن زید جہنی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور فرمایا اپنے صحابہ کو حکم فرمائیے کہ وہ اپنی آوازوں کو تلبیہ کے ساتھ بلند کریں کیونکہ یہ حج کا شعار ہے۔ (31) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن الزبیر ؓ سے روایت کیا کہ تلبیہ حج کی زینت ہے۔ (32) امام ترمذی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، حاکم نے (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کون سے اعمال افضل ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا بہترین حج وہ ہے جس میں لبیک خوب پکار کر کہی جائے اور خون بہایا جائے (یعنی قربانی کی جائے) ۔ تلبیہ پڑھنے کی فضیلت (33) امام ترمذی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں جانب اور بائیں جانب پتھر یا درخت یا مٹی کا ڈھیلہ اس کے ساتھ سب تلبیہ پڑھتے ہیں یہاں تک کہ سلسلہ زمین میں ختم ہوجاتا ہے اس کی دائیں جانب سے اور بائیں جانب سے۔ (34) امام احمد اور ابن ماجہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو محرم اس دن اللہ کے لئے جانور ذبح کرتا ہے یا تلبیہ پڑھتا ہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجاتا ہے اور سورج اس کے گناہوں کے ساتھ غروب ہوتا ہے۔ اور وہ اس طرح لوٹتا ہے جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا تو اس پر کوئی گناہ نہ تھا۔ (35) امام مالک، شافعی، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ یہ تھا۔ لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک ترجمہ : میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں سب تعریف نعمتیں تیرے لئے ہیں اور ملک بھی تیرا ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔ اور عبد اللہ بن عمر ؓ لبیک میں اتنا مزید اضافہ کردیا کرتے تھے لبیک لبیک، وسعدیک والخیر بیدیک لبیک والرغباء الیک والعمل ترجمہ : میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔ اور سعاد تمندی تیرے لئے ہے اور خیر تیرے ہاتھ میں ہے میں حاضر ہوں تیرے ہی طرف ہماری توجہ اور خواہش ہے اور عمل بھی تیرے ہی لئے ہے۔ (36) بخاری و مسلم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی اس کی سواری نے گرا کر گردن توڑ ڈالی۔ وہ مرگیا اس حال میں کہ وہ محرم تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کو پانی اور بیری کے ساتھ غسل دو اور اس کو اس کے کپڑوں میں کفن دو اس کا سر مت ڈھانپو اور نہ چہرہ کو ڈھانپو اس لئے کہ وہ قیامت کے دن لبیک پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ (37) شافعی (رح) نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے تلبیہ میں کبھی بھی حج یا عمرہ کا نام نہیں لیا۔ (38) امام شافعی، ابن ابی شیبہ، حاکم نے (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے تلبیہ میں یوں تھا لفظ آیت ” لبیک الہ الخلق لبیک “ یعنی میں حاضر ہوں (اے) مخلوق کے معبود میں حاضر ہوں۔ (39) امام شافعی (رح) اور ابن ابی شیبہ نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بعض اپنے بھائی کے بیٹوں سے یہ سنا اور وہ تلبیہ پڑھ رہے تھے ” یاذا المعارج “ (اے سیڑھیوں والے) حضرت سعد ؓ نے فرمایا بلاشبہ وہ سیڑھیوں والا ہے اور اس طرح ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں تلبیہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (40) شافعی (رح) نے خزیمہ بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب تلبیہ سے فارغ ہوجاتے تھے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا مندی اور جنت کا سوال کرتے تھے اور اس کی رحمت کے واسطہ سے آگ سے پناہ مانگتے تھے۔ (41) شافعی (رح) نے محمد بن المنکدر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ تلبیہ کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ أما قولہ تعالیٰ : فلا رفث ولا فسوق، ولا جدال فی الحج : (42) طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (اس آیت) ” فلا رفث ولا فسوق، ولا جدال فی الحج “ کے بارے میں فرمایا کہ رفث سے مراد ہے فحش کلامی اور عورتوں کے ساتھ اشارۃ جماع کی باتیں کرنا اور فسوق سے تمام گناہ مراد ہیں اور جدال سے مراد کسی آدمی کا اپنے ساتھی سے جھگڑا کرنا۔ (43) ابن مردویہ اور اصبہانی نے الترغیب میں ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” فمن فرض فیہن الحج فلا رفث “ سے مراد ہے کہ نہ جماع ہو اور نہ نافرمانی ہو پھر فرمایا گناہ اور جھوٹ (بھی نہ ہو) ۔ (44) امام وکیع، سفیان بن عینیہ، الفریابی، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابو یعلی، ابن خزیمہ، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رفث سے مراد جھگڑا اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ تیرا اپنے ساتھی سے جھگڑا کرنا یہاں تک کہ وہ تجھ کو غضبناک کر دے یا تو اس کو غضبناک کر دے۔ (45) ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رفث سے مراد ہے عورتوں سے جماع کرنا اور بوسہ لینا اور آنکھوں سے اشارہ کرنا اور ان کے ساتھ فحش کلامی کرنا اور فسوق سے سب گناہ مراد ہیں اور جدال سے مراد لڑائی جھگڑا ہے۔ (46) سفیان بن عینیہ، عبد الرزاق، الفریابی، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، اور ابن ابی حاتم نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ” فلا رفث “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا الرفث سے مراد وہ رفث نہیں ہے جس کا اس آیت ” احل لکم لیلۃ الصیام الرفث “ (البقرہ آیت 187) میں ذکر کیا گیا۔ وہاں جماع مراد ہے اور یہاں الرفث سے مراد فحش کلامی ہے۔ اور تعریض یعنی اشارۃ جماع کا ذکر کرنا۔ (47) سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن المنذر، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ میں ابن عباس ؓ کے ساتھ چل رہا تھا اور وہ محرم تھے تو وہ اونٹوں (کے تیز چلانے کے لئے) رجز پڑھ رہے تھے۔ وھن یمشین بناھمیسا ان صدق الطیر ننک لمیسا ترجمہ : اور وہ ہمیں آہستہ سے لے کر چلتی ہیں اگر فال سچی ہوئی تو ہم لمیس سے جماع کریں گے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ جماع کی باتیں کر رہے ہیں اس حال میں کہ آپ محرم ہیں انہوں نے فرمایا الرفث سے مرادایسی باتیں ہیں جن میں عورتوں کا ذکر ہو۔ رفث اور فسق کی مراد (48) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رفث سے مراد جماع ہے اور فسوق سے مراد گناہ ہیں اور جدال سے مراد گالیاں دینا اور آپس میں جھگڑا کرنا۔ (49) ابن ابی شیبہ، طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ” فلا رفث “ سے مراد ہے عورتوں سے جماع کرنا (اور) ” ولا فسوق “ سے مراد گالیاں دینا اور ” ولا جدال “ سے مراد جھگڑا کرنا۔ (50) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے اس آیت کے بارے میں ” الرفث “ سے مراد عورتوں کے پاس آنا یعنی جماع کرنے کی باتیں کرنا عورتوں اور مردوں کا جبکہ وہ جماع کا ذکر کریں اپنے مونہوں سے اور فسوق سے مراد حرم میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا اور جدال سے مراد گالیاں دینا اور جھگڑا کرنا۔ (51) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ ہدی پڑھنے والے کو فرمایا کرتے تھے کہ وہ عورتوں کا ذکر نہ کرے۔ (52) ابن ابی شیبہ نے طاؤس سے انہوں نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا بچو تم عورتوں سے کیونکہ (ان کے ساتھ) بری باتیں کرنا بھی رفث میں سے ہے۔ طاؤس نے کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ کو (ابن زبیر ؓ) کی بات بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ ابن زبیر ؓ نے سچ فرمایا۔ (53) ابن ابی شیبہ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ محرم کے لئے الاعراب مکروہ ہے ان سے پوچھا گیا الاعراب کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا یہ کہنا کہ اگر حلال ہوتا (یعنی احرام میں نہ ہوتا) تو تیرے ساتھ جماع کرتا۔ (54) ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رفث سے مراد عورتوں کا ذکر کرنا اور جدال سے مراد ہے تیرا جھگڑا کرنا اپنے ساتھی سے حتی کہ وہ تجھ سے ناراض ہوجائے۔ (55) ابن جریر، ابن ابی حاتم اور الشیرازی نے الالقاب میں حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رفث سے مراد جماع ہے اور فسوق سے مراد ہے برے القاب سے پکارنا (جیسے) تو اپنے بھائی کو کہے یا ظالم یا فاسق اور جدال یہ ہے کہ تو اپنے ساتھی سے جھگڑا کرے یہاں تک کہ وہ تجھ سے ناراض ہوجائے۔ (56) ابن ابی شیبہ نے مجاہد و عکرمہ (رح) علیہما دونوں حضرات سے روایت کیا کہ رفث سے مراد جماع ہے اور فسوق سے مراد گناہ ہیں اور جدال سے مراد جھگڑا کرنا۔ ابن ابی شیبہ ضحاک اور عطا (رح) علیہم نے اسی طرح روایت کیا۔ (57) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ رفث سے مراد عورتوں کے پاس آنا فسوق سے مراد گالیاں دینا اور جدال سے مراد (آپس میں) جھگڑا کرنا۔ (58) ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رفث سے مراد عورتوں سے جماع کرنا فسوق سے مراد گالیاں دینا اور جدال سے مراد حج میں (آپس میں) اختلاف کرنا۔ (59) طبرانی نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ ” فلا رفث “ سے مراد ہے لاجماع یعنی جماع نہ ہونا ” ولا فسوق “ سے مراد ہے کہ گالیاں دینا نہ ہو اور ” ولا جدال “ سے مراد جھگڑا نہ ہو۔ (60) ابن جریر نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے لفظ آیت ” ولا جدال فی الحج “ کے بارے میں روایت کیا کہ قریش جب منی میں جمع ہوتے تھے تو (آپس میں لڑتے تھے) اور کہتے تھے کہ ہمارا حج تمہارے حج سے (یعنی تمہارے حج کے مقابلے میں) زیادہ مکمل ہے اور (دوسرے) لوگ کہتے تھے کہ ہمارا حج تمہارے حج سے زیادہ مکمل ہے۔ حج کے دوران لڑائی سے بچنا (61) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے لفظ آیت ” ولا جدال فی الحج “ کے بارے میں روایت کیا کہ (زمانہ جاہلیت میں) لوگ مختلف جگہوں میں ٹھہرتے تھے اور آپس میں لڑتے تھے ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ٹھہرنے کی جگہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے جب اپنے نبی کو حج کے احکام سکھائے تو اس جھگڑے کا ختم فرما دیا۔ (62) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” ولا جدال فی الحج “ کے بارے میں روایت کیا کہ حج میں اب کوئی شک و شبہ نہیں کیونکہ (احکام کا) بیان ہوچکا اور اس کا وقت معلوم ہے (زمانہ جاہلیت میں) وہ لوگ دو سال ذوالحجہ میں حج کرتے تھے اور دو سال محرم میں حج کرتے تھے پھر انہوں نے صفر میں حج کیا ابو یمامہ کی تاخیر کی وجہ سے پھر ذوالقعدہ میں حضرت ابوبکر ؓ کا حج واقع ہوا نبی اکرم ﷺ کے حج سے پہلے پھر نبی اکرم ﷺ نے آئندہ سال ذوالحجہ میں حج کیا اس وجہ سے جب آپ نے فرمایا بلاشبہ زمانہ گھوم گیا اس ہیئت پر جس ہئیت پر اللہ تعالیٰ نے اسے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے کے دن بنایا تھا۔ (63) سفیان بن عینیہ، ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” ولا جدال فی الحج “ کے بارے میں روایت کیا کہ حج ذوالحجہ میں ہوگیا سو (اب) کوئی مہینہ وقت سے مؤخر نہیں ہوگا۔ (64) امام سفیان، ابن ابی شیبہ، بخاری اور مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اس گھر کا حج کیا نہ فحش کلامی کی نہ کوئی گناہ کیا تو اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا (اور وہ گناہوں سے پاک تھا) ۔ (65) ابن ابی شیبہ، بخاری اور مسلم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کا قتل کرنا کفر ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث اسی طرح سے ہے۔ (66) عبد بن حمید نے اپنی سند میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے حج کے احکام پورے کئے اور اس کے ہاتھوں اور زبان سے دوسرے مسلمان سلامت رہے تو اس کے پہلے گناہ سب معاف ہوگئے۔ (67) ابو نعیم نے الحلیہ میں حضرت ابن عمر ؓ اسے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے راستے میں جہاد سے بڑھ کر کوئی محبوب عمل نہیں ہے اور (دوسرا محبوب عمل) حج مبرور جو مقبول ہے جس میں نہ فحش کلامی ہو نہ کوئی گناہ ہو اور نہ لڑائی ہو۔ (68) الاصبہانی نے الترغیب میں سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی عمل آسمان اور زمین کے درمیان اللہ کے راستے میں جہاد کے بعد حج مبرور سے (زیادہ) افضل نہیں ہے۔ جس میں نہ فحش کلامی ہو نہ کوئی گناہ ہو اور نہ لڑائی ہو۔ محرم حالت احرام میں خادم کو بھی گالی نہ دے (69) حاکم نے أسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے لئے نکلے بار برداری والا جانور ابوبکر کے غلام کے پاس تھا ہم بیٹھ کر ایک جگہ انتظار کرنے لگے تاکہ وہ سواری آجائے غلام پیدل چل رہا تھا اس کے ساتھ اونٹ نہیں تھا ابوبکر نے اس سے پوچھا تیرا اونٹ کہاں ہے ؟ اس نے کہا رات کو گم ہوگیا ابوبکر ؓ اس کو مارنے لگے اور کہنے لگے ایک ہی اونٹ تھا جس کو تو نے گم کردیا اور تو (کیسا) آدمی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ (یہ دیکھ کر) مسکرا رہے تھے اور فرمایا دیکھو اس محرم کو یہ کیا کر رہا ہے ؟ (70) ابن ابی شیبہ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ محرم شیشہ میں نہ دیکھے اور کسی کے لئے بددعا نہ کرے اگرچہ وہ اس پر ظلم کرے۔ وأما قولہ تعالیٰ : وتزودوا فان خیر الزاد تقوی واتقون یاولی الالباب : (71) عبد بن حمید، بخاری، ابو داؤد، نسائی، ابن المنذر، ابن حبان، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اہل یمن حج کرتے تھے تو زادراہ ساتھ نہ لاتے اور یہ کہتے تھے کہ ہم لوگ متوکل ہیں پھر جب مکہ آئے تو لوگوں سے بھیک مانگتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” وتزودوا فان خیر الزاد تقوی “۔ (72) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لوگ اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور ان کے پاس زادراہ نہیں ہوتا تھا کہتے تھے کہ ہم بیت اللہ کا حج کریں گے کہا وہ ہم کو کھانا نہیں کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وتزودوا فان خیر الزاد تقوی “ زادراہ لے لو جو تمہارے چہروں کو لوگوں (کے پاس جانے) سے روک دے۔ (73) ابن جریر اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لوگ جب احرام باندھتے تھے تو ان کے پاس جو زادراہ ہوتا تھا اس کو پھینک دیتے تھے اور پھر نئے سرے سے دوسرا زادراہ لیتے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” وتزودوا “ آٹا اور ستو لے لیا کرو۔ (74) طبرانی نے زبیر ؓ سے روایت کیا کہ لوگ خرچ کے بارے میں ایک دوسرے پر توکل کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو زادراہ لینے کا حکم کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” وتزودوا فان خیر الزاد تقوی “۔ (75) ابن جریر نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ دیہات کے لوگ بغیر زادراہ کے حج کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” وتزودوا۔۔ “ (الآیہ) (76) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” وتزودوا فان خیر الزاد تقوی “ کے بارے میں روایت کیا کہ اہل یمن حج کرتے تھے مگر زادراہ ساتھ نہ لاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو زادراہ بتایا کہ بہترین زادراہ تقوی ہے۔ (77) سفیان بن عینیہ اور ابن ابی شیبہ نے عکرمہ ؓ سے لفظ آیت ” وتزودوا فان خیر الزاد تقوی “ کے بارے میں روایت کیا کہ لوگ ایام حج میں بغیر زادراہ مکہ آتے تھے تو ان کو زادراہ (لانے) کا حکم فرمایا۔ (78) عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتزودوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ستو آٹا اور کیک وغیرہ ہیں۔ (79) ابن ابی شیبہ، امام وکیع نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتزودوا “ سے مراد خشکناتج (میٹھی کچوری) اور ستو ہیں۔ (80) سفیان بن عینیہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتزودوا “ سے مراد کیک اور زیتون کا تیل ہے۔ (81) امام وکیع، سفیان بن عینیہ، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتزودوا “ سے مراد کھجور کھانا اور ستو ہے۔ (82) ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت ” وتزودوا “ نازل ہوئی تو ایک آدمی فقراء مسلمین میں سے کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! ہم زادراہ نہیں پاتے کہ ہم ساتھ لے جائیں آپ نے فرمایا اتنا زادراہ لے لو جو تیرے چہرے کو لوگوں سے روک دے (یعنی لوگوں سے سوال نہ کرنا پڑے) اور بہترین زادراہ تقوی ہے۔ (83) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں سفیان ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ ؓ کی قرأت میں یوں ہے لفظ آیت ” وتزودوا فان خیر الزاد تقوی “۔ (84) طبرانی نے جریر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں زادراہ لے گا اس کو آخرت میں نفع دے گا۔ (85) الاصبہانی نے الترغیب میں زبیر بن عوام ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بندے اللہ کے بندے ہیں اور شہر اللہ کے شہر ہیں جہاں تو خیر کو پائے وہاں ٹھہر جا اور اللہ سے ڈرتا ہے۔ (86) امام احمد، بغوی نے معجم میں بیہقی نے سنن میں اصبہانی (رح) سے دیہات کے ایک آدمی (یعنی صحابی ؓ سے روایت کیا اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے سکھانا شروع فرمایا ان چیزوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھائی تھیں ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی جس کو میں نے حفظ کرلیا تھا کہ تو کسی چیز کو اللہ کے ڈر سے چھوڑے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر تجھ کو عطا فرمائیں گے۔ (87) امام احمد، بخاری، نے الادب میں ترمذی (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم، بیہقی نے شعب الایمان میں اور اصبہانی نے ترغیب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسی چیز لوگوں کو زیادہ جنت میں داخل کرنے والی ہے۔ آپ نے فرمایا تقویٰ اور اچھے اخلاق پھر پوچھا کونسی چیز لوگوں کو زیادہ جہنم میں داخل کرنے والی ہے آپ نے فرمایا الاجوفان یعنی منہ اور فرج (یعنی شرم گاہ) (88) ابن ابی شیبہ نے کتاب التقوی میں بنو سلیط کے ایک آدمی (یعنی صحابی ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ فرما رہے تھے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ اس کو رسوا کرتا ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنے سینے مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔ (89) اصبہانی نے قتادہ بن عیاش ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میری قوم سے میرے لئے عہد لیا تو آپ کو الوداع کہہ کر آنے لگا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تقویٰ کو تیرے لئے توشہ بنا دے تیرے گناہوں کو معاف کر دے اور تجھے خیر کی طرف متوجہ کرے۔ (90) ترمذی اور حاکم نے انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نے سفر کا ارادہ کیا ہے مجھے کوئی توشہ عنایت فرمائیے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے تقویٰ کا توشہ عطا فرمائے اس نے کہا اور زیادہ کیجئے فرمایا اللہ تعالیٰ تیرے گناہوں کو معاف کر دے آپ نے پھر کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اور زیادہ کیجئے آپ نے فرمایا اور تیرے لئے خیر کو آسان کر دے جہاں بھی ہو تو۔ حاجی کا تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید (91) امام ترمذی (انہوں نے اس کو حسن کہا ہے) نسائی، ابن ماجہ، حاکم نے (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا جس نے سفر کا ارادہ کیا ہوا تھا اس نے عرض کیا مجھ کو نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا میں تجھ کو اللہ کے تقویٰ کی اور ہر اونچی جگہ پر اللہ اکبر پڑھنے کی وصیت کرتا ہوں جب وہ چلا گیا تو آپ نے اس کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ اس کے لئے زمین کو لپیٹ دے اور اس پر سفر کو آسان کر دے۔ (92) اصبہانی نے الترغیب میں ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے سب سے بڑی عقلمندی تقویٰ ہے اور سب سے بڑی بیوقوفی فجور ہے۔ (93) ابن ابی الدنیا نے کتاب التقوی میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو لکھا۔ امابعد میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں جو شخص (اللہ تعالیٰ سے) ڈر گیا اس نے اس کو پورا اجر عطا فرمایا اور جس نے اس کو قرض دیا اس نے اس کو جزا دی۔ اور جس نے اس کا شکر کیا اس نے اس کو زیادہ دیا اور تقوی کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھا اور اپنے دل سے اسے چمک بنا اور یہ جان لے اس کا کوئی عمل نہیں جس کی نیت نہیں اور اس کا کوئی اجر نہیں جس کی نیکی نہیں۔ اس کا کوئی مال نہیں جس کی (طبیعت میں) نرمی نہیں۔ اس کے لئے کوئی جدید (یعنی دوست) نہیں جس کا اخلاق نہیں۔ (94) ابن ابی الدنیا نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حسن ؓ سے سوال کیا کہ قرآن کی خوبصورتی کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا وہ تقوی ہے۔ (95) ابن ابی الدنیا نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ تورات میں لکھا ہوا تھا اے آدم کے بیٹے اللہ سے ڈر اور سو جا جہاں تو چاہے۔ (96) ابن ابی الدنیا نے وہب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ایمان ننگا ہے اس کا لباس تقوی ہے اور اس کی خوبصورتی حیا ہے اور اس کا مال عفت ہے (یعنی پاکدامنی) (97) ابن ابی الدنیا نے داؤد بن ہلال (رح) سے روایت کیا کہ فرماتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جو چیز بندے کو اللہ کے سامنے قائم رکھے گی وہ تقویٰ ہے پھر اس کے پیچھے ورع (یعنی پرہیزگاری) ہے۔ (98) ابن ابی الدنیا نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت معاویہ ؓ کی طرف لکھا أمابعد۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہ جب تو اللہ سے ڈرے گا تو اللہ لوگوں سے تیری کفایت فرمائے گا اور اگر تو لوگوں سے ڈرے گا تو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ بھی کام نہیں آئیں گے۔ (99) ابن ابی الدنیا نے ابو حازم (رح) سے روایت کیا کہ میری تاک میں چودہ دشمن بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے چار یہ ہیں (جن کی وجہ سے) شیطان مجھے گمراہ کرلے گا مؤمن مجھ سے حسد کرے گا کافر مجھ کو قتل کرے گا اور منافق مجھ سے بغض رکھے گا اور ان میں سے دس یہ ہیں۔ بھوک، پیاس، گرمی، سردی، ننگے بدن ہونا، بوڑھا پا مرض فقر، موت اور ان سے مقابلہ کی میں طاقت نہیں رکھتا مگر پورے ہتھیار کے ساتھ اور تقویٰ سے افضل کوئی ہتھیار نہیں۔ (100) الاصبہانی نے الترغیب میں ابن ابی نجیح سے روایت کیا ہے کہ ابن ابی نجیح (رح) سے روایت ہے کہ سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) نے فرمایا ہم کو ان چیزوں میں سے دیا گیا تو لوگوں کو دی گئی اور ان چیزوں میں سے بھی جو لوگوں کو نہیں دی گئیں۔ اور ہم نے وہ بھی جان لیا جو لوگوں نے بھی جان لیا اور وہ بھی جو لوگ نہیں جانتے اور ہم نے تقویٰ سے افضل کسی چیز کو نہیں پایا خفیہ اور علانیہ حالت میں اور عدل کرنا رضا کی حالت میں اور غضب کی حالت میں مالداری اور فقیری میں میانہ روی سے افضل کوئی چیز نہیں دیکھی۔ (101) الاصبہانی نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ یوں کہا جاتا تھا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اگرچہ اسے ناپسند بھی کریں۔
Top