Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ
اَلْحَجُّ : حج اَشْهُرٌ : مہینے مَّعْلُوْمٰتٌ : معلوم (مقرر) فَمَنْ : پس جس نے فَرَضَ : لازم کرلیا فِيْهِنَّ : ان میں الْحَجَّ : حج فَلَا : تو نہ رَفَثَ : بےپردہ ہو وَلَا فُسُوْقَ : اور نہ گالی دے وَلَا : اور نہ جِدَالَ : جھگڑا فِي الْحَجِّ : حج میں وَمَا : اور جو تَفْعَلُوْا : تم کروگے مِنْ خَيْرٍ : نیکی سے يَّعْلَمْهُ : اسے جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَتَزَوَّدُوْا : اور تم زاد راہ لے لیا کرو فَاِنَّ : پس بیشک خَيْرَ : بہتر الزَّادِ : زاد راہ التَّقْوٰى : تقوی وَاتَّقُوْنِ : اور مجھ سے ڈرو يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو
حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج (کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے نہ کسی سے جھگڑے۔ اور جو نیک کام تم کرو گے وہ خدا کو معلوم ہوجائے گا اور زاد راہ (یعنی رستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زاد راہ (کا) پرہیزگاری ہے اور اے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ( اور حج کے چند مہینے معلوم ہیں) یعنی حج کا وقت بلکہ احرام کا وقت چند مہینے معلوم ہیں کیونکہ ارکان کا وقت تو یوم عرفہ اور یوم نحر کے سوا اور نہیں ہے۔ طبرانی نے ابو امامہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ حج کے مہینے شوال اور ذیقعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ پورا شوال اور پورا ذی قعدہ اور نو دن یوم نحر کی صبح تک ماہ ذی الحجہ کے مراد ہیں اور ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ شوال اور ذیقعد اور دس دن ذی الحجہ کے ہیں۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ دونوں روایتوں کے الفاظ صحیح ہیں کیونکہ مقصد دونوں کا ایک ہے جس نے دس کہا ہے اس نے دس رات مراد لی ہیں اور جس نے نو ذکر کئے ہیں اس نے نو دن لیے ہیں اور دو ماہ دس روز کو لفظ جمع سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ عرب کی عادت ہے کہ وقت کو پورا ذکر کرتے ہیں اگرچہ فعل اس کے بعض حصہ میں ہوا ہو جیسا کہ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : سبحان الذی اسریٰ بعبدہ ٖ لیلاً ( پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کو لے گیا) حضور رات کے بعض حصہ میں تشریف لے گئے مگر پوری رات ذکر فرمائی اور عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ اشہر سے شوال اور ذیقعدہ اور پورا ذی الحجہ مراد ہے کیونکہ بعد عرفہ کے بھی حاجی پر بہت سے افعال کرنے واجب ہوتے ہیں مثلاً ذبح کرنا رمی اور سر منڈانا اور طواف زیارت اور منیٰ میں رہنا اور ایام تشریق میں رمی جمار کرنا اس لیے یہ بقیہ ایام بھی حج میں ہی شمار کرلیے گئے میں کہتا ہوں کہ یہ جملہ افعال ذی الحجہ کی تیرہ تاریخ تک تمام ہوجاتے ہیں اب پورے مہینہ کو شمار کرنا بظاہر صحیح نہیں ہے۔ علامہ بیضاوی نے فرمایا ہے کہ تمام زی الحجہ حج کا مہینہ ہے کیونکہ وقت حج سے مراد ان کے نزدیک یہ ہے کہ سوائے حج کے اور مناسک اس میں مستحسن نہ ہوں۔ چناچہ امام مالک (رح) بقیہ ذی الحجہ میں عمرہ کو مکروہ بتاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ توجیہ درست نہیں کیونکہ حج کے مہینوں میں آفاقی کے لیے بالاتفاق عمرہ مکروہ نہیں اور خود جناب رسول اللہ ﷺ نے ذیقعدہ میں چار عمرے کئے ہیں اسی طرح امام مالک اور شافعی (رح) کے نزدیک مکی کو تمتع جائز ہے چناچہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں امام شافعی (رح) اس آیت سے مستنبط کرکے فرماتے ہیں کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام جائز نہیں اور اگر احرام باندھا بھی تو وہ حج کا نہ ہوگا عمرہ کا ہوجائے گا اور داؤد نے فرمایا کہ ان مہینوں سے پہلے احرام حج کا ہوتا ہی نہیں لغو ہوتا ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور مالک اور احمد فرماتے ہیں اگر ان مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھا تو منعقد ہوجائے گا لیکن مکروہ ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ احرام حج کی شرط ہے رکن نہیں ہے اسی واسطے اگر کسی نے مبہم احرام باندھا یعنی نہ حج کی نیت کی نہ عمرہ کی اور پھر اس کے بعد حج یا عمرہ یا قرآن کی نیت کرلی تو جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ یمن سے جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو حضور ﷺ نے دریافت فرمایا تم کا ہے کی نیت کی ہے اور کس چیز کا احرام باندھا ہے حضرت علی ؓ نے جواب دیا جو حضور کی نیت ہے وہی میری ہے اور ابو موسیٰ ؓ کی حدیث بھی اسی مضمون کی ہے یہ دونوں حدیثیں صحیحین میں موجود ہے جب ثابت ہوگیا کہ احرام شرط ہے تو وقت پر اس کی تقدیم جائز ہے جیسے وضو نماز سے پہلے کرنا درست ہے لیکن فرق اس قدر ہے کہ وضو تو محض شرط ہے اور اس میں کچھ مشابہت رکن کی بھی پائی جاتی ہے چناچہ غلام نے اگر احرام باندھ لیا تھا اور اس کے بعد یوم عرفہ سے پہلے وہ آزاد کیا گیا تو اس کا فرض ادا نہ ہوگا اسی مشابہت کی وجہ سے ہم کراہت کے قائل ہوئے ہیں جب یہ معلوم ہوگیا کہ احرامِ حج کا وقت چند معین مہینے ہیں اور یہ مہینے ارکان کا وقت نہیں ہیں ارکان کا وقت صرف دو دن ہے تو اب بظاہر امام شافعی (رح) کا قول درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ احرام اگرچہ حج کی شرط ہے رکن نہیں اور شرط اگرچہ مشروط کے وقت پر مقدم ہوسکتی ہے لیکن شرط کی خود اس کے وقت پر تقدیم جائز نہیں جیسا کہ عشا ادائے وتر کی شرط ہے تو جس نے عشا غروب شفق سے پہلے ادا کرلی اس کے وتر جائز نہیں اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ عشا کو وقت وتر سے پہلے ادا کیا بلکہ اس سبب سے کہ عشا کو خود اس کے وقت سے پیشتر پڑھا۔ وا اللہ اعلم بالصواب۔ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ ( پس جس نے لازم کرلیا ان میں حج) یعنی جس نے اپنے ذمہ ان مہینوں میں حج کو واجب کرلیا یعنی حج کا احرام باندھا اس میں اختلاف ہے کہ احرام کیا ہے۔ امام مالک اور شافعی (رح) واحمد تو یہ فرماتے ہیں کہ احرام نام قلب سے نیت کرنے کا ہے جیسا کہ روزہ کی نیت ہوتی ہے اور تلبیہ اس میں شرط نہیں لیکن امام مالک فرماتے ہیں کہ احرام کے وقت تلبیہ واجب ہے اگر چھوڑ دیا تو ایک قربانی واجب ہے اور امام احمد و شافعی سے بھی ایک روایت اسی طرح ہے لیکن مشہور مذہب ان دونوں کا یہ ہے کہ تلبیہ سنت ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ احرام نیت کے ساتھ تلبیہ ہونے کو کہتے ہیں جیسے نماز میں تکبیر ہے اور ایک روایت امام شافعی (رح) سے بھی اسی طرح ہے ہماری دلیل یہ ہے کہ نماز پر اس کو قیاس کرنا باعتبار روزہ کے زیادہ مناسب ہے۔ ابن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ حج کا فرض اہلال 1 ؂ ہے اور ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تلبیہ فرض ہے اور ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود کا قول بھی مثل ابن عمر ؓ کے قول کے روایت کیا ہے ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اہل مدینہ ذی الحلیفہ سے اہلال کریں اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس کے پاس ہدی ہو اس کو چاہئے کہ حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے۔ تو دیکھو کہ حضور ﷺ نے اہلال کا حکم فرمایا اور اہلال کے معنی تلبیہ کو پکار کر کہنا ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے تو جو تلبیہ کے وجوب کے قائل نہیں یہ احادیث ان پر حجت ہیں اور احرام کو حضور ﷺ نے اہلال سے تعبیر فرمایا اور پہلے معلوم ہوچکا کہ اہلال پکار کر تلبیہ کہنا ہے تو معلوم ہوگیا کہ احرام کی حقیقت تلبیہ ہے لیکن امام ابوحنیفہ (رح) یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس نے اونٹ کے قلادہ ڈالا اور اس کو لے کر حج کے ارادہ سے چلا تو وہ محرم ہوگیا اگرچہ اس نے تلبیہ نہ کہا ہو تو اس صورت میں امام صاحب نے فعل کو قول کا نائب قرار دیا کیونکہ ذکرجس طرح قول سے حاصل ہوتا ہے اسی طرح فعل سے بھی اس کا وجود ہوتا ہے دیکھو جو شخص اذان سن کر نماز کے لیے فوراً چلا تو یہ چلنا ہی جواب اذان کی جگہ ہوجائے گا کیونکہ پکار نے والے کی اجابت فعل سے کرنا زیادہ بہتر ہے اور تلبیہ کے معنی ہی خود حاضری اور طاعت کے لیے مستعد ہونے کے ہیں وا اللہ اعلم۔ صاحب ہدایہ نے اس مسئلہ کی دلیل یہ بیان کی ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے اونٹ کے قلادہ ڈالا وہ محرم ہوگیا لیکن یہ حدیث مجہول ہے ابن ہمام نے فرمایا ہے کہ ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں اس حدیث کو ابن عباس اور ابن عمر ؓ پر موقوف کیا ہے۔ میں کہتا ہوں ان دونوں اثروں کو اصل مدعا سے کچھ بھی لگاؤ نہیں کیونکہ یہ تو ابن عباس اور ابن عمر کا مذہب ہے کہ جس نے مکہ کو ہدی بھیجی اور اس کا ارادہ حج کا نہیں وہ محرم ہوگیا جو چیزیں محرم پر حرام ہوجاتی ہیں وہ اس پر قربانی ذبح ہونے تک حرام ہوگئیں اور ابن عباس و ابن عمر (رح) کے قول کے یہی معنی ہیں اسی طرح اور صحابہ ؓ سے بھی منقول ہے لیکن پھر اس کے خلاف پر اجماع منعقد ہوگیا۔ امام بخاری نے روایت کی ہے کہ زیاد بن ابی سفیان نے حضرت عائشہ کو لکھا کہ عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس نے ہدی بھیج دی اس پر نحر کرنے تک وہ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو حاجی پر ہوتی ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے سن کر فرمایا یہ بات درست نہیں میں نے خود اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کی ہدی کے قلادے بٹے ہیں اور پھر حضور ﷺ نے ان قلادوں کو ہدی کے گلے میں ڈال کر میرے باپ کے ہمراہ مکہ بھیجا ہے اور کوئی شے حضور ﷺ نے اپنے پر حرام نہیں فرمائی حافظ نے فرمایا ہے کہ یہ واقعہ 9 ہجری کا ہے اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ مسئلہ ابتداء اسلام کا ہے اور پھر منسوخ ہوگیا۔ فَلَا رَفَثَ (تو نہ عورت کے پاس جانا ہے) زجاج نے کہا ہے کہ رفث ہر اس شأ کو کہتے ہیں جو مرد عورت سے چاہتا ہے بعض نے کہا ہے کہ رفث فحش اور بری بات کو کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ فحش اور بری بات تو ہمیشہ حرام ہے احرام کے ساتھ اس کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ وَلَا فُسُوْقَ ( اور نہ کوئی گناہ کا کام کرنا) ابن عمر فرماتے ہیں کہ فسوق اس شے کو کہتے ہیں جس سے محرم منع کیا گیا ہے مطلب یہ ہوا کہ محرمات احرام کا ارتکاب مت کرو اور ایسی چیزوں بالاتفاق چھ ہیں اوّل رفث یعنی وطی اور جو چیزیں وطی کی طرف مائل کریں جیسے بوسہ وغیرہ اس کو اللہ تعالیٰ نے الگ کرکے اس لیے ذکر فرمایا دیا کہ ایسی شئ ہے کہ حج اور عمرہ کو بالکل ہی فاسد کردیتی ہے بخلاف اور محرمات کے کہ ان کے ارتکاب سے صرف قربانی لازم آتی ہے اور حج وعمرہ فاسد نہیں ہوتا لیکن اگر جماع وقوف عرفہ کے بعدہو تو اس وقت حج کے فاسدہونے میں اختلاف ہے لیکن حرمت میں اس وقت بھی شک نہیں۔ دوسرے خشکی کے شکار کا قتل کرنا اور اس کی طرف اشارہ کرنا یا اور کسی طرح سے دوسرے کو بتانا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لا تقتلوا الصید وانتم حرم ( شکار کو تم حالت احرام میں قتل مت کرو) اور فرمایا : و حرم علیکم صید البر ما دمتم حرما ( تم پر خشکی کا شکار حرام کیا گیا جب تک تم محرم رہو) انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مفصل بحث سورة مائدہ میں آئے گی۔ تیسرے بالوں کا اور نا خن کا دور کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَلَا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الھدی محلہ ( اور مت منڈاؤ سروں کو یہاں تک کہ ہدی اپنے ٹھکانے پر جا پہنچے اور جوں جو میل سے پیدا ہوتی ہے اس کا قتل کرنا بال منڈانے کے حکم میں ہے۔ چوتھے بدن یا کپڑے میں عطر کا استعمال کرنا رسول ﷺ اللہ نے فرمایا ہے کہ ایسی شے مت پہنو جس کو زعفران یا ورس لگا ہو اس حدیث کو ابن عمر ؓ نے روایت کیا ہے اور بخاری و مسلم میں ہے یہ چار اشیاء تو مردوں اور عورتوں دونوں پر حرام ہیں اور دو چیزیں خاص مردوں پر حرام ہیں اوّل سلا کپڑا اور موزے پہننا لیکن گر کسی کے پاس جوتی نہ ہو اس کو موزے پہننے کی اور جس کے پاس تہ بند نہ ہو اس کو پائجامہ پہننے کی اجازت ہے۔ دوسرے سر کا ڈھکنا ‘ رہا چہرہ کا ڈھانکنا سو امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک تو یہ مردوں عورتوں سب پر حرام ہے اور امام شافعی اور احمد فرماتے ہیں کہ خاص عورتوں پر حرام ہے کیونکہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ مرد کا احرام سر میں ہے اور عورت کا احرام چہرہ پر ہے اس حدیث کو دار قطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور بعض نے اس حدیث کو مرفوع بھی کہا ہے لیکن صحیح نہیں۔ اور عثمان بن عفان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ حالت احرام میں چہرہ مبارک ڈھانکتے تھے اس حدیث کو دارقطنی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کا موقوف ہونا ہی صحیح ہے۔ چناچہ موطا میں ہے کہ فراقصہ بن عمیر حلفی نے حضرت عثمان ؓ کو عرج میں دیکھا کہ حالت احرام میں اپنا چہرہ ڈھانکے ہوئے تھے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک محرم کو اس کی سواری نے پٹک دیا تھا ( جب تکفین کے وقت اس کا سر اور چہرہ ڈھانکنے لگے) تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اس کے سر اور چہرہ کو مت ڈھانکو کیونکہ قیامت میں یہ تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا ایک ساتویں شے اور ہے حالت احرام میں اس کی حرمت کے اندر اختلاف ہے وہ عقد نکاح ہے امام مالک اور شافعی اور احمد تو فرماتے ہیں کہ محرم کو جائز نہیں کہ اپنا یا دوسرے کا عقد نکاح کرے یا دوسرے کو نکاح کا وکیل کرے اور اگر کیا تو منعقد نہ ہوگا دلیل ان کی یہ حدیث ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ محرم نہ نکاح کرے اور نہ نکاح کیا جائے اور نہ منگنی کرے اس حدیث کو مسلم اور ابو داؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ محرم کو نکاہ کرنا جائز ہے اور منعقد بھی ہوجائے گا کیونکہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ نے حضرت میمونہ ؓ سے عقد نکاح کیا اور آپ محرم تھے اور وطی آپ نے ان سے حلال ہونے کے بعد کی اور حضرت میمونہ ؓ مقام سرف میں رحلت فرما ہوئیں اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے جمہور نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس نکاح میں خود اختلاف ہے چناچہ مسلم نے یزید بن اصم سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے خود میمونہ بنت الحارث ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے مجھ سے نکاح کیا اور آپ اس وقت حلال تھے اور یزید فرماتے ہیں کہ حضرت میمونہ میری اور ابن عباس ؓ کی خالہ ہوتی ہیں۔ جمہور کہتے ہیں کہ خود میمونہ کا بیان زیادہ معتبر ہے کیونکہ وہ اپنے حال سے بہ نسبت ابن عباس ؓ کے زیادہ واقف تھیں اور اگر بالفرض تعارض بھی مان لیا جائے تو حضرت عثمان ؓ کی حدیث جو صاف حرمت کو بتارہی ہے وہ تو معارضہ سے سالم ہے اور علاوہ ازیں حضرت عثمان ؓ کی حدیث قولی ہے اور میمونہ کا قصہ ایک آپ کا فعل ہے ممکن ہے کہ آپ کی خصوصیت ہو خصوصاً نکاح کے باب میں آپ کے لیے بہت سی ایسی خصوصیات ہیں کہ دوسرے کے واسطے نہیں ہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ فسوق تمام معاصی کو کہتے ہیں لیکن فسوق کی تفسیر اوّل ظاہر ہے کیوں کہ معاصی اگر مراد ہوں تو حج کے ساتھ خصوصیت نہ رہے گی۔ ابن کثیر اور ابو عمر نے لا رفث لا فسوقکو رفع اور تنوین سے لا کا عمل باطل کرکے پڑھا ہے اور باقی قراء نے نصب سے بلا تنوین پڑھا ہے اور دونوں طرح پڑھنا جائز ہے اور نظیر اس کی لا حول ولا قوۃ الاّ باللہ ہے۔ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ( اور نہ جھگڑا کرنا ہے حج میں) وَلَا جِدَالکو ابوجعفر نے رفع اور تنوین سے پڑھا ہے اور دیگر قراء نے نصب سے پڑھا ہے۔ اہل جاہلیت کی عادت تھی کہ عرفات میں مختلف مواقع پر ٹھہرتے تھے اور ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ میں ابراہیم (علیہ السلام) کی جگہ ٹھہرا ہوں اور اسی پر آپس میں لڑائی جھگڑا ہوتا تھا اسی بنا پر بعض عرفات میں قیام کرتے تھے اور بعض مزدلفہ میں بعض ذیقعدہ میں حج کرتے تھے اور بعض ذی الحجہ میں اور ہر ایک کہتا تھا کہ جو میں کرتا ہوں یہی ٹھیک ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ وَلَا جدال یعنی جس طرح رسول اللہ نے کیا ہے اب اس پر حج قرار پکڑ گیا اس میں اختلاف نہ کرو۔ مجاہد نے فرمایا کہ ولا جدال کے یہ معنی ہیں کہ اب اس میں کچھ شک اور نزاع نہیں ہے کہ حج ذی الحجہ میں ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ نے نسی (1) [ قبائل مصر کے معاشی ذرائع بہت محدود تھے ملک میں زراعت تھی نہ بڑی تجارت قبائل حمیر ( یمنی) کی حالت مضر سے بہتر تھی ان کا ملک بھی زرخیز تھا اور عیر ملکی تجارت بھی ان کے ہاتھ میں تھی اور صنعت میں بھی وہ مضر سے بہتر تھے لیکن کعبہ کی تولیت مضر کے ہاتھ میں تھی قریش قبائل مضر ہی کی ایک شاخ تھی اس لیے مذہبی سیادت اور فرائض حج کا تعلق مضر ہی سے تھا۔ مضر کی معاش کا بیشتر تعلق آپس کی لوٹ مار سے تھا ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر چڑھائی کرتا اس کے مویشیوں کو لوٹتا اور عورتوں مردوں اور بچوں کو گرفتار کرکے یا باندی ‘ غلام بناتا اور بازار میں لے جا کر فروخت کردیتا یہ عام دستور تھا اور ہر زمانہ میں قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا لیکن حج کے مہینوں میں علاوہ مذہبی فرض ادا کرنے کے تین میلے بھی لگتے تھے۔ ذوالمجاز، ذوالمجنہ اور عکاظ اس لیے ان مہینوں میں راستوں کا مامون رہنا ضروری تھا ورنہ تجارت قطعاً بند ہوجاتی اور کوئی حج کو نہ آسکتا تھا اس لیے ماہ رجب زیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم کو عرب نے ماورائے حرام قرار دے رکھا تھا یعنی ان چار مہینوں میں جدال، قتال، مار دھاڑ بالکل بند رکھی جاتی اور جو شخص جہاں چاہتا امن کے ساتھ چلا جاتا مگر سب کو چھوڑ کر مسلسل تین ماہ تک جدال قتال سے رکا رہنا عرب کی جنگجو طبائع کے خلاف تھا اس کے علاوہ مسلسل بندش قتال سے ان کی معاش پر بھی اثر پڑتا تھا اس لیے انہوں نے کبس یا کبیسہ یا نسی کی ایک رسم ایجا کر رکھی تھی حج کے بعد عکاظ کے میلہ میں جب لوگ شریک ہوتے تھے تو قریش کا ایک سردار کھڑے ہو کر اعلان کردیتا کہ آئندہ محرم کے مہینہ میں میں نے جدال قتال جائز کردیا اس سال محرم کا مہینہ ماہ حرام نہیں رہا بلکہ محرم کی حرمت کی جگہ میں نے ماہ صفر کو حرام بنا دیا آئندہ صفر میں جدال قتال ناجائز ہے اس رسم نسی کو قرآن نے زیادت فی الکفر قرار دے دیا اور اس جگہ فی الحج فرمادیا۔] کو باطل فرمایا رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ سنو ! یہ زمانہ پھر کر اسی ہیئت پر آگیا جیسا آسمان زمین کی پیدائش کے وقت تھا (یعنی اب اس میں کوئی گھٹانا بڑھانا نہ کرے) اس حدیث کو بخاری و مسلم نے ابوبکر ؓ سے روایت کیا ہیفی الحج لا کی خبر ہے۔ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْهُ اللّٰهُ ( اور جو کچھ تم کرو گے نیکی اللہ اس کو جان لے گا) مطلب یہ ہے کہ جو کچھ تم بھلاکام کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں تم کو اس کا بدلہ دیں گے نھی عن المنکرکے بعد خیر پر برانگیختہ فرمایا ہے۔ وَتَزَوَّدُوْا ( اور زاد راہ لے جایا کرو) اس کے متعلق ایک قصہ ہے۔ بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ اہل یمن کی عادت تھی کہ جب وہ حج کو آتے تو زاد راہ ساتھ نہ لاتے اور یہ کہتے تھے کہ ہم لوگ متوکل ہیں اور جب مکہ آتے تو لوگوں سے بھیک مانگتے تھے اور علامہ بغوی (رح) نے کہا ہے کہ لوٹ اور غضب تک ان کی نوبت پہنچتی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وتَزودوا یعنی زاد راہ اس قدر لے جایا کرو کہ جس سے وہاں تک پہنچ جاؤ اور آبرو کو بچاؤ۔ فَاِنَّ خَيْرَ الزَّاد التَّقْوٰى ( بیشک بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے) التقوٰی سے مراد وہ شے ہے جو سوال کرنے اور لوٹ مار کرنے سے محفوظ رکھے۔ وَاتَّقُوْنِ ( اور مجھ سے ڈرو) ابو عمر نے والتقون کو وصل کی حالت میں یا کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی قراء نے وصل اور وقف دونوں صورتوں میں حذف یا سے پڑھا ہے۔ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ ( اے عقلمندو) اس خطاب سے اس لیے یاد فرمایا کہ عقل کا اقتضا ہے کہ اللہ غالب سے ڈریں۔
Top