Maarif-ul-Quran (En) - Yaseen : 9
وَ جَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ
اور ہم نے ان کے آگے آڑ بنادی اور ان کے پیچھے آڑ بنا دی سو ہم نے ان کو گھیر دیا لہذا وہ نہیں دیکھ سکتے
رسول اللہ ﷺ کے قتل کی سازش : 15:۔ بیہقی (رح) نے دلائل میں السدی الصغیر کے طریق سے الکلبی سے اور انہوں نے ابی صالح سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجعلنا من بین ایدیھم سدا “ (اور ہم نے ان کے آگے ایک آڑ کردی) یعنی کفار قریش اور سدا سے مراد ہے پردہ (آیت) ” فاغشینہم “ یعنی ہم نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا (آیت) ” فھم لا یبصرون “ (اب وہ نہیں دیکھتے ہیں) یعنی نبی کریم ﷺ کو کہ وہ ان کو تکلیف پہنچا سکیں اور یہ اس وجہ سے کہ قبیلہ بنو مخزوم کے کچھ لوگوں باہم متفق ہوئے کہ نبی کریم ﷺ کو قتل کردیں ان میں ابوجہل اور ولید بن مغیرہ بھی تھے اسی اثناء میں کہ نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ اور وہ لوگ آپ کی قرأت کو سن رہے تھے، تو ان لوگوں نے ولید کو بھیجا تاکہ وہ ان کی طرف لوٹ آیا اور ان کو اس بارے میں بتایا کہ وہ لوگ آپ کے پاس آئے جب وہ اس جگہ پہنچے جہاں آپ نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے آپ کی قرأت کو سنا وہ اس آواز کی طرف جاتے تو آواز کو اپنے پیچھے سنتے پڑھ واپس لوٹ گئے اور آپ کی طرف پہنچنے کا کوئی راستہ نہ پایا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) وجعلنا من بین ایدیھم سدا ومن خلفھم سدا فاغشینہم (کہ ہم نے انکے آگے اور ان کے پیچھے آڑ لگا دی) 16:۔ ابن اسحاق وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابو نعیم نے دلائل میں محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ قریش نبی کریم ﷺ کے دروازے پر جمع ہوئے ان میں ابوجہل بھی تھا اور انہوں نے آپ کے دروازے پر کہا کہ محمد ﷺ گماں کرتے ہیں کہ تم ان کے دین پر بیعت کرلو تو تم عرب اور عجم کے بادشاہ بن جاؤ گے اور تم اپنی موت کے بعد اٹھائے جاؤ گے اور تمہارے لئے آگ بنائی گئی ہے کہ جس میں تم جلائے جاؤ گے، رسول اللہ ﷺ باہر نکلے اور ہاتھ میں مٹی سے ایک مٹھی بھری فرمایا ہاں، میں یہ بات کہتا ہوں اور تو ان (آگ والوں) میں سے ایک ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تو وہ آپ کو نہ دیکھ سکے، نبی اکرم ﷺ ان کے سروں میں مٹی ڈالنے لگے تو وہ آپ کو نہ دیکھ سکے، اور آپ ان آیات کی تلاوت کررہے تھے (آیت) ” یس ٓ (1) والقرآن الحکیم، (2) سے لے کر (آیت) ” فاغشینہم فھم لا یبصرون “ تک یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ان آیات سے فارغ ہوئے کوئی آدمی باقی نہیں رہا جس کے سر پر مٹی نہ ہو ہر آدمی نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا تو اس کے سر پر مٹی تھی تو کہنے لگے اس نے سچ کر دکھایا جس نے ہم کو بیان کیا۔
Top