Tafseer-Ibne-Abbas - Yaseen : 9
وَ جَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کردی مِنْۢ : سے بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ : ان کے آگے سَدًّا : ایک دیوار وَّمِنْ خَلْفِهِمْ : اور ان کے پیچھے سَدًّا : ایک دیوار فَاَغْشَيْنٰهُمْ : پھر ہم نے انہیں ڈھانپ دیا فَهُمْ : پس وہ لَا يُبْصِرُوْنَ : دیکھتے نہیں
اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی اور ان کے پیچھے بھی پھر ان پر پردہ ڈال دیا تو یہ دیکھ نہیں سکتے
یا یہ کہ جب انہوں نے رسول اکرم کو پتھر مار کر حالت نماز میں تکلیف پہچانی چاہی تو ہم نے ان کی گردنوں کو ٹھوڑیوں تک کردیا اور یہ ہر ایک خیر و بھلائی سے محروم کے محروم رہ گئے اور ہم نے امور آخرت کے بارے میں ایک پردہ ان کے آگے ڈال دیا اور امور دنیا کے متعلق ایک پردہ ان کے پیچھے ڈال دیا اور ہم نے ان کے دلوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا جس سے وہ حق و ہدایت کو نہیں دیکھ سکتے۔ یا یہ کہ جس وقت انہوں نے رسول اکرم کو حالت نماز میں پتھر سے تکلیف پہچانی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ایک پردہ کی آڑ کردی کہ آپ کے اصحاب ان کو نظر نہ آئے غرض کہ ہم نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا کہ نبی اکرم ان کو نظر ہی نہ آئیں کہ پھر یہ آپ کو تکلیف پہنچائیں۔ شان نزول : وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ (الخ) اور ابن جریر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ ابو جہل نے کہا کہ اگر میں محمد کو دیکھ لوں تو آپ کے ساتھ ایسا ایسا کروں اس پر اللہ تعالیٰ انا جعلنا فی اعناقھم سے لایبصرون تک یہ آیات نازل ہوئیں۔ چناچہ اس کے بعد کفار اس سے کہتے تھے کہ یہ محإد ہیں اور وہ کہتا تھا کہ کہاں ہیں اور آپ کو نہیں سکتا تھا۔
Top