Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 33
كِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُكُلَهَا وَ لَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَیْئًا١ۙ وَّ فَجَّرْنَا خِلٰلَهُمَا نَهَرًاۙ
كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ : دونوں باغ اٰتَتْ : لائے اُكُلَهَا : اپنے پھل وَلَمْ تَظْلِمْ : اور کم نہ کرتے تھے مِّنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ وَّفَجَّرْنَا : اور ہم نے جاری کردی خِلٰلَهُمَا : دونوں کے درمیان نَهَرًا : ایک نہر
دونوں باغ خوب پھلے پھولے اور بار آور ہونے میں انہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی۔ ان باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کردی اور ات خوب نع حاصل ہوا
” دونوں باغ خوب پھلے پھولے اور بار آور ہونے میں انہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی “۔ یہاں قرآن کریم نقص اور کمی کے لئے لفظ ” ظلم “ استعمال کرتا ہے تاکہ ان دونوں باغوں اور ان کے مالک کے کردار کے درمیان تقابل پیدا کیا جاس کے ، کیونکہ باغات نے تو اپنا حق ادا کردیا ، جبکہ باغات کے مالک نے تکبر کیا ، سرکشی اختیار کی اور کبرو غرور کی وجہ سے اللہ کا شکر ادا نہ کیا اور ظلم کیا۔ اب ذرا ان دو باغوں کے اس مالک کو ملاحظہ کریں کہ اس کا پیمانہ بھر جاتا ہے اور وہ ان کو دیکھ کر اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتا ہے۔ فخر و مباہات سے اس کا سر غرور میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس کا پیمانہ مرغی کے پیمان کی طرح ہے ، جلدی بھر جاتا ہے اور پھر یہ طائوس کی طرح فخر سے ناچنے لگتا ہے اور اپنے فقیر ساتھی اور ہمسائے پر بوجہ کبر ، اپنے آپ کو بلند سمجھتا ہے اور یوں گویا ہوتا ہے :
Top