Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 215
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
يَسْئَلُوْنَكَ
: وہ آپ سے پوچھتے ہیں
مَاذَا
: کیا کچھ
يُنْفِقُوْنَ
: خرچ کریں
قُلْ
: آپ کہ دیں
مَآ
: جو
اَنْفَقْتُمْ
: تم خرچ کرو
مِّنْ
: سے
خَيْرٍ
: مال
فَلِلْوَالِدَيْنِ
: سو ماں باپ کے لیے
وَالْاَقْرَبِيْنَ
: اور قرابتدار (جمع)
وَالْيَتٰمٰى
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور محتاج (جمع)
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
وَمَا
: اور جو
تَفْعَلُوْا
: تم کرو گے
مِنْ خَيْرٍ
: کوئی نیکی
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
بِهٖ
: اسے
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں ؟ “ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر ، رشتے داروں پر ، یتیموں اور مسکینوں پر اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کروگے اللہ اس سے باخبر ہوگا۔ “
جیسا کہ واضح ہے ، سورت کے اس حصے میں احکام کے سوال و جواب کی فضا ہے ۔ جیسا کہ ہم آیت یسئلونک عن الاھلۃ کی تفسیر میں بیان کر آئے ہیں کہ یہ ایک ایسا منظر ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی نظریہ حیات کس قدر بیدار تھا ، جماعت کے افراد کے دلوں پر کس طرح چھایا ہوا تھا اور یہ کہ مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی کے ہر معاملے میں اپنے نظریے کا حکم معلوم کرنے کے لئے کس قدر بےتاب تھے تاکہ ان کا طرز عمل ان کے نظریہ حیات کے مطابق ہو اور یہ ایک صحیح مسلمان کی پختہ علامت ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اسلام کا حکم معلوم کرنے کی کوشش کرے ۔ اور وہ اس وقت تک عملی قدم نہ اٹھائے جب تک یہ معلوم نہ کرلے کہ اس بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے ؟ جس چیز کو اسلام برقرار رکھے وہ اس کا دستور اور قانون بن جائے اور جسے اسلام ترک کردے وہ اس کے لئے ممنوع اور حرام ہوجائے ۔ یہ حساسیت دراصل اس نظریہ حیات پر پختہ ایمان کی علامت ہے۔ یہودیوں ، منافقین اور مشرکین نے ، اسلام کی بعض اصلاحات کے خلاف جو اعتراضات شروع کر رکھے تھے وہ اس سلسلے میں وہ سازش کے طور پر حملے کررہے تھے ، ان سے متاثر ہوکر یا ان کی اصل حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی خاطر بعض مسلمان بھی سوالات اٹھا رہے تھے ۔ ان اصلاحات کے خلاف یہودی سخت زہریلا پروپیگنڈا کرتے تھے اور بعض مسلمان اس سے متاثر بھی ہوجاتے ۔ ایسے مواقع پر قرآن مجید کا کوئی حصہ نازل ہوتا اور مسئلہ زیر بحث کا فیصلہ کردیتا ۔ مسلمان یقین حاصل کرلیتے ، سازشیں ختم ہوجاتیں ۔ فتنے اپنی موت آپ مرجاتے اور سازشیوں کی سازش خود ان کے گلے پڑجاتی ۔ ان سوالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں قرآن مجید چومکھی فکری جنگ لڑرہا تھا ، کبھی یہ معرکہ خود مسلمانوں کے دل و دماغ میں برپا ہے۔ کبھی مسلمانوں کی صفوں میں اور کبھی ان دشمنان اسلام کے خلاف ہے جو اسلام سے برسر پیکار تھے اور اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ یہ سبق بھی اس فکری جنگ کا حصہ ہے اور اس میں بعض سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں ۔ مثلاً انفاق ، اس کی مقدار ، اس کے مصرف اور مال کی قسم جس سے انفاق کیا جائے ، کے بارے میں سوال ، حرام مہینوں میں لڑنے کے بارے میں سوال ، شراب اور جوئے کے بارے میں سوال ، یتیموں کے بارے میں سوال ، ان سب سوالات کے اسباب وہی تھے جن کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں اور آیات پر بحث کے وقت تفصیلات عرض ہوں گی انشاء اللہ ! اس سوال سے پہلے انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں متعدد آیات نازل ہوچکی تھیں ۔ جن حالات میں تحریک اسلامی کا آغاز ہوا ، ایسے حالات میں انفاق فی سبیل اللہ نہایت ضروری ہوتا ہے ، تاکہ اسلامی جماعت مصائب ومشکلات اور ان جنگی معرکوں میں دشمنوں کا مقابلہ کرسکے ، جو اسے درپیش آنے والے تھے ۔ انفاق کی اہمیت ایک دوسری وجہ سے بھی اس دور میں زیادہ ہوگئی تھی ، مثلاً یہ کہ تحریک اسلامی میں ساتھیوں کے درمیان اجتماعی تکافل کے قیام کی بھی اشد ضرورت تھی ۔ افراد جماعت کے مابین ظاہری امتیازات کو ختم کرنے کی ضرورت تھی ، تاکہ ہر فرد یہ سمجھے کہ وہ ایک جسم کا عضو ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور نہ کوئی چیز ان سے روکی جاتی ہے ۔ شعوری طور پر ایک جماعت کے قیام کے لئے اجتماعی تکافل اور انفاق کا نظام قائم کرنا بہت ضروری ہے ۔ افراد جماعت کی کارکردگی میں اضافہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ضروریات کا لحاظ رکھا جائے ۔ ایسے حالات میں بعض مسلمانوں نے سوال کیا تھا کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ سوال تو یہ تھا کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ نوعیت انفاق کیا ہو ؟ جواب میں انفاق کی صفت اور انفاق کے مصارف بیان کئے گئے : قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ ” جو مال بھی تم خرچ کرو “ اس تعبیر میں دواشارے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو چیز بھی تم خرچ کرو اسے خیر ہونا چاہئے ۔ دینے والے کے لئے بھی خیر ہو ، لینے والے کے لئے بھی ۔ اس معاشرے کے لئے بھی جس میں یہ لین دین ہورہا ہے اور اپنی ذات میں بھی وہ خیر ہو ۔ اس طرح ہو کہ عمل بھی پاک ۔ تحفہ بھی پاک ۔ چیز بھی پاک۔ دوسرا اشارہ یہ ہے کہ خراچ کرنے والے کو اچھی طرح سوچ کر اپنے مال سے اعلیٰ تر چیز خرچ کرنی چاہئے ۔ اس کے پاس جو بہترین چیزیں ہوں انہیں خرچ کرے ۔ اس میں دوسروں کو شریک کرے ۔ انفاق سے دل پاک ہوجاتا ہے ۔ نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اور دوسروں کا فائدہ ہوتا ہے ۔ ان کی اعانت ہوجاتی ہے ۔ پھر تلاش کرکے اپنے مال میں سے بہتر چیز خرچ کرنا ایک ایسا اقدام ہے جس سے دل میں طہارت آجاتی ہے ۔ نفس انسانی پاک وصاف ہوجاتا ہے اور انفاق کو اپنانے کا اعلیٰ مفہوم سامنے آتا ہے۔ لیکن یہ محض اشارہ ہے اور اسے لازم اور فرض قرار نہیں دیا گیا ۔ جبکہ دوسری آیت میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں مناسب ہے کہ اوسط درجے کا مال اللہ کی راہ میں دیا جائے ۔ نہ بہت قیمتی ہو اور نہ بالکل ردی ہو ، البتہ آیت میں یہ اشارہ ہے کہ نفس پر قابو پانے کے لئے بہتر مال خرچ کیا جائے اور اہل ایمان کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہی قرآن کریم کا انداز تربیت ہے یعنی بذریعہ ترغیب اور آمادگی اصلاح کی جاتی ہے ۔ انفاق کا طریقہ اور مصرف کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ” اپنے والدین رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ “ انفاق کرنے والے اور ان لوگوں کے درمیان مخصوص روابط ہیں ۔ بعض افراد اور انفاق کرنے کے درمیان نسبتی رشتہ ہے ۔ بعض کے درمیان رحم کے رشتے ہیں ۔ بعض کے ساتھ محض رحم و شفقت کا رشتہ ہے اور بعض کے ساتھ نظریات کے وسیع حدود میں صرف انسانی ہمدردی کا تعلق ہے ۔ اور سب کو ایک ہی آیت میں سمودیا گیا ہے ۔ والدین ، اقربین ، یتامی ، مساکین ، مسافر ، ان سب کو اسلامی نظریہ ٔ حیات کے وسیع دائرے میں ضروریات اور بوقت ضرورت معاونت کی گارنٹی حاصل ہے ۔ انفاق کے مصارف میں وہی ترتیب ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے ۔ نیز بعض دوسری آیات میں بھی اس کی وضاحت کی گئی اور بعض احادیث میں اس کی مزید تفصیل اور تشریح کا ذکر ہے ۔ صحیح مسلم میں ایک روایت ہے جس میں رسول ﷺ نے ایک شخص سے کہا :” پہلے اپنے نفس سے آغاز کرو اور اس پر صدقہ کرو۔ اس سے زیادہ ہو تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو ، اگر پھر بھی کچھ بچ جائے تو رشتے داروں پر خرچ کرو ، اگر ان سے بھی بچ جائے .......“ مصارف کی اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے نفس انسانی کی تربیت اور اس کی قیادت اور راہنمائی کے لئے کیا حکیمانہ اور سادہ انداز اختیار کیا ہے۔ اسلام انسان کے ساتھ اس کی حقیقت کے مطابق معاملہ کرتا ہے ۔ اس کی فطرت ۔ اس کے میلانات اور اس کے رجحانات کے عین مطابق۔ اسلام انسان کو ساتھ لے کر اس طرح چلتا ہے جس طرح بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ کھڑا ہوجاتا ہے اور ایک متعین مقام پر ہوتا ہے ۔ اسلام اس کا ہاتھ پکڑ کر قدم بقدم اسے لے کر چلتا ہے ۔ آہستہ آہستہ اس کی یہ رفتار اس کی فطرت ، اس کے رجحانات اور اس کی استعداد کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے ۔ وہ تدریج کے ساتھ اپنے ساتھ پوری زندگی کو نشوونما اور ترقی دیتا جاتا ہے ۔ وہ بلندی کی طرف جارہا ہوتا ہے۔ لیکن تنگی اور تھکاوٹ کا اسے احساس تک نہیں ہوتا ۔ اسلام کی ترقی کا انداز یہ نہیں ہے کہ کسی کو بیڑیاں اور ہتھکڑیاں پہناکر اور اسے گھسیٹ کر بلندیوں تک لے جایا جائے ۔ نہ ہی اس کی فطری قوتوں اور فطری رجحانات کو دبایا جاتا ہے کہ وہ ایک پرندے کی طرح پنجرے میں بند ہوجائے اور پھڑپھڑائے اسے راہ ترقی پر اس طرح نہ لے جایا جائے کہ ترقی نہ رہے بلکہ ظلم بن جائے ۔ یا اسے ٹیلوں اور پہاڑیوں سے اڑاتے ہوئے لے جایاجائے ۔ بلکہ اسے آہستگی اور نرمی سے اوپر کی طرف لے جایاجائے ۔ قدم زمین پر ہوں ، آنکھیں آسمان پر ہوں اور دل افق کے ساتھ لٹکا ہوا ہو اور اس کی روح عرش کی بلندیوں میں واصل باللہ ہو۔ یہ بات تو اللہ کے علم میں تھی کہ انسان میں حب ذات کا داعیہ ہے ۔ اس لئے اللہ نے حکم دیا کہ پہلے اپنی ذات کے لئے بقدر کفایت سامان مہیا کرو۔ ذات کے بعد پھر دوسرے رشتہ داروں پر انفاق کا حکم دیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے کھانے پینے کی پاک چیزوں کو جائز قرار دیا ۔ اسے ترغیب دی کہ وہ ان حلال چیزوں سے لطف اٹھا 4 ے ۔ البتہ یہ پابندی لگادی کہ عیاشی اور غرور سے دور رہے ۔ انفاق و صدقہ تو تب شروع ہوتا ہے جب انسان بقدر کفایت خود اپنی ضروریات پوری کرلے ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :” بہترین صدقہ تو وہ ہے جو ضروریات پورا کرکے دیا جائے اور اوپر کا ہاتھ نچلے ہاتھ سے زیادہ بہتر ہے اور شروع اپنے خاندان سے کرو۔ “ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں :” رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص ایک انڈے کے برابر سونا لے کر حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ یہ مجھے کان سے ملا ہے ۔ آپ ﷺ اسے لے لیں ۔ یہ صدقہ ہے اور اس کے سوا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیرلیا۔ وہ رسول ﷺ کے داہنے جانب سے لے آیا اور وہی بات دہرائی ، تو آپ ﷺ نے پھر منہ پھیرلیا۔ پھر بائیں جانب سے آیا اور وہی بات دہرائی ۔ رسول ﷺ نے پھر منہ پھیرلیا۔ پھر وہ پیچھے کی طرف سے آیا اور وہی بات دہرائی ۔ اس پر رسول ﷺ نے اس سونے کو لے لیا اور اسے اس پر دے مارا۔ اگر اسے لگی ہو تو یاد رکھنا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :” تم میں ایک صاحب میرے پاس وہ سب کچھ لے کر آجاتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ صدقہ ہے ، اور پھر بیٹھ جاتا ہے لوگوں سے بھیک مانگنے ۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو غنا پر کیا جائے۔ “ یہ حقیقت اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ انسان سب سے پہلے اپنے قریبی افراد خاندان سے محبت کرتا ہے ، اپنی اولاد سے اور اپنے والدین سے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات کے بعد انفاق کے لئے ان افراد کو مستحق قرار دیا تاکہ وہ اپنی دولت کا کچھ حصہ ان پر خوشی ورضا کے ساتھ خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں انسان کے اس فطری میلانات کا لحاظ رکھا ہے ، جو بےضرر ہیں ، بلکہ ان کا لحاظ رکھنے میں بھلائی اور حکمت پوشیدہ ہے ۔ اور اس حکمت کے ساتھ ساتھ بعض ایسے افراد کی کفالت بھی ہوجاتی ہے جو صدقہ دینے والے کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں اور خود امت مسلمہ کے بھی افراد ہیں ۔ اگر ان حضرات کی اعانت ان کے اس قریبی رشتہ دار نے نہ کی تو وہ محتاج ہوں گے ۔ ان کے لئے اپنے اس قریب رشتہ دار سے امداد حاصل کرنا زیادہ بہتر ہے ، بہ نسبت اس کے کہ وہ کسی دور کے شناسا یا غیر شناسا شخص سے امداد لینے پر مجبور ہوجائیں ۔ پھر یہ فائدہ مزید ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کی پہلی تربیت گاہ یعنی خاندان کے اندر امن و محبت میں اضافہ ہوگا اور افراد خاندان کے درمیان روابط مضبوط ہوں گے جو ایک عظیم انسانیت کی تعمیر میں خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کے بعد انسان فطرتاً اپنے جملہ رشتہ داروں کو درجہ بدرجہ اور تعلقات ورابط کے مطابق ترجیح دیتا ہے اور خالق فطرت اس بات سے خوب واقف ہے ۔ اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے کیونکہ یہ رشتہ دار بھی بہرحال امت کا ایک حصہ ہیں اور اسلامی معاشرے کے اجزاء ہیں ۔ چناچہ ایک دولت مند مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں کے دائرہ سے ایک قدم اور باہر نکل آتا ہے ۔ اس کی پیش رفت بدستور اس کے فطری رجحانات اور میلانات کی سمت میں ہے اور ان کے دور کے رشتے داروں کی ضرورت بھی پوری ہو رہی ہے اور دور کے رشتے داروں کے ساتھ محبت اور رشتے کے تعلقات بھی استوار ہورہے ہیں ۔ یوں اسلامی جماعت کی ابتدائی یونٹ کے باہم تعلقات مربوط ہوجاتے ہیں اور روابط قوی ہوجاتے ہیں۔ اپنی ذات اور قریب وبعید رشتے کے لوگوں پر خرچ کرنے کے بعد بھی اگر کچھ بچ رہتا ہے تو پھر اسلام کا حکم یہ ہے کہ معاشرے کے ان ضعفاء پر خرچ کرو جنہیں دیکھ کر ہی ایک آدمی شرافت ، جذبہ رحمت اور جذبہ اشتراک میں جوش میں آجاتا ہے اور ایک شریف انسان ایسے کمزور لوگوں کی امداد کے تیار ہوجاتا ہے ۔ ایسے لوگوں میں یتیم سب سے پہلے درجے میں آتے ہیں جو چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور کمزور بھی ۔ پھر ان مساکین کا درجہ ہے جن کے پاس اخراجات کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ لیکن وہ اپنی شرافت اور سفید پوشی کی وجہ سے ۔ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔ پھر مسافروں کا نمبر آتا ہے جن کے پاس اگر مال و دولت ہوتا ہے لیکن ان سے دور گھر میں اور اس کے حصول میں رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ ابتدائی دور میں تحریک اسلامی میں ایسے لوگوں کی کثرت تھی ۔ یہ لوگ اپنی دولت مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر ہجرت کر آئے تھے ، اور اب یہ لوگ اسلامی معاشرے کے افراد تھے ۔ اسلام تحریک اسلامی کے خوش حال لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے کہ وہ ایسے نادار لوگوں پر خرچ کریں ۔ اس سلسلے میں اسلام ان لوگوں کے پاک فطری رجحانات کو ابھارتا ہے اور ان کی تطہیر کرتا ہے اور بڑی نرمی اور تدریج کے ساتھ ان لوگوں کو نصب العین تک پہنچا دیتا ہے۔ پہلے ان خوش حال لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کیا جاتا ہے ۔ اور وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں وہ طیب نفس کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ، خرچ پر راضی ہوتے ہیں ۔ بغیر کسی تنگی اور بغیر کسی جبر کے ، اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ معاشرے کے ضعیف اور محتاج لوگوں کو ان کی ضروریات مل جاتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ تمام افراد معاشرہ باہم پیوست ہوجاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے کفیل اور مددگاربن جاتے ہیں لیکن اس اجتماعی کفالت میں نہ جبر ہے اور نہ کسی کا نقصان ہے ۔ اسلام کی یہ راہنمائی نہایت ہی لطیف ۔ نہایت ہی خوشگوار اور نہایت ہی دوررس ہے ۔ اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ یہ راہنمائی نہ جابرانہ ہے ، نہ مصنوعی ہے اور نہ اس میں کسی قسم کا تشدد ہے ۔ انفاق فی سبیل اللہ کے اس کفالتی انتظام کا سررشتہ بھی افق اعلیٰ سے ملادیا جاتا ہے ۔ اس لئے انفاق کرکے دل مومن میں تعلق باللہ کا ایک جوش پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس کی دادودہش میں ، اس کے قول وفعل میں ، اس کے ضمیر ونیت میں اور اس کے فہم و شعور میں ، غرض اس کی پر چیز میں تعلق باللہ پیدا ہوجاتا ہے وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ” اور جو بھی بھلائی تم کروگے ، اللہ اس سے باخبر ہوگا۔ “ اللہ تعالیٰ اس انفاق سے بھی باخبر ہے ۔ اس کی غایت سے بھی خبردار ہے ، اس کے پس منظر میں جو نیت ہے اس کا بھی اسے علم ہے ۔ اس لئے یہ انفاق ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا ۔ وہ اللہ کے کھاتے میں لکھا گیا ہے اور اس کھاتے میں کوئی چیزضائع نہیں ہوتی ۔ وہ لوگوں کے حقوق میں کوئی کمی نہیں کرتا اور نہ ان پر کسی قسم کا ظلم کرتا ہے ، لیکن اس پر ریاکاری کا کچھ اثر ہوتا ہے نہ دھوکہ بازی اس کے ہاں چل سکتی ہے ۔ یوں قرآن کی یہ راہنمائی دلوں کو لے کر افق اعلیٰ کی بلندیوں تک جاپہنچتی ہے ۔ یہ دل صاف و شفاف ہوجاتے ہیں ، یکسو ہوجاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوجاتے ہیں ، لیکن بڑی نرمی کے ساتھ ، بڑی دھیمی رفتار کے ساتھ ، بغیر کسی مصنوعی طریقے کے ، بغیر کسی جابرانہ ذریعے کے ۔ یہ ہے وہ نظام تربیت جسے اللہ تعالیٰ نے وضع کیا ہے جو علیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے ۔ اور اس نظام تربیت کے اصولوں کے مطابق اسلامی نظام زندگی تیار ہوتا ہے۔ یہ نظام انسان کی نکیل اپنے ہاتھ میں لے کر ایک عام انسان کی قیادت سنبھالتا ہے ۔ وہ جہاں بھی ہو وہاں سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور اسے عروج و کمال کے اس مقام بلند تک لے جاتا ہے جہاں تک یہ انسانیت اسلام سے قبل اپنی پوری تاریخ میں پہنچ سکی ہوتی ۔ ہاں انسانیت نے یہ مقام بلند اگر کبھی حاصل کیا ہے تو وہ صرف اسلامی نظام زندگی کے سایہ میں ، اسلام کے صراط مستقیم پر چل کر ۔ انفاق فی سبیل اللہ کے بعد ، جہاد فی سبیل اللہ کا حکم آجاتا ہے اور اس میں بھی اسلام نے وہی منہاج تربیت اختیار کیا ہے جو انفاق کے سلسلے میں اختیار کیا گیا ہے۔
Top