Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 215
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے پوچھتے ہیں مَاذَا : کیا کچھ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کریں قُلْ : آپ کہ دیں مَآ : جو اَنْفَقْتُمْ : تم خرچ کرو مِّنْ : سے خَيْرٍ : مال فَلِلْوَالِدَيْنِ : سو ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور قرابتدار (جمع) وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافر وَمَا : اور جو تَفْعَلُوْا : تم کرو گے مِنْ خَيْرٍ : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اسے عَلِيْمٌ : جاننے والا
آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں،785 ۔ آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ تمہیں مال سے خرچ کرنا ہے،786 ۔ سو وہ حق ہے والدین کا اور عزیزوں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا۔787 ۔ اور جو بھی نیکی کروگے، اللہ کو اس کا پورا علم رہتا ہے،788 ۔
785 ۔ (اور کن موقعوں پر) سال ال مومن ون رسول اللہ ﷺ این یضعون اموالھم (روح۔ عن ابن جریح) المطلوب بالسوال ان مصرفہ ای شئی ھو (کبیر۔ عن القفال) مرادھم من قولھم لیس ھو طلب الماھیۃ بل طلب المصرف (کبیر) سوال مسلمانوں کی طرف سے تھا، اور اس باب میں تھا کہ اپنی حسب ہمت وحیثیت اور خوشدلی سے کب خرچ کریں۔ باقی جو خرچ کہ فرض ہوچکا تھا، یعنی زکوٰۃ، اس کا حساب کھلا ہوا تھا سوال اس کی بابت نہ تھا، الاکثرون علی ان الایۃ فی التطوع (روح) عن الحسنھی فی التطوع (مدارک) قرآن جو مکمل دستور حیات ہے، اس میں معاشیات کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے، اپنی جگہ پر وہ پوری اہمیت اس کے اندر رکھتے ہیں۔ 786 ۔ (آیت) ” خیر “ کا مفہوم علاوہ نیکی اور بھلائی کے معروف و متعارف معنی کے محمود اور نیک کمائی والے مال کے بھی ہیں۔ المال من وجہ محمود (راغب) اور یہاں یہی مراد ہے۔ 787 ۔ مصارف خیر کی یہ فہرست کیسی جامع اور اس کی ترتیب کس قدر حکیمانہ ہے۔ سب سے بڑھا ہوا اور اہم ترین حق انسان کے ماں باپ کا ہے، جتنی بھی مالی خدمت ہوسکے، ان کی کی جائے۔ پھر دوسرے عزیزوں کا نمبر ہے، اور اس میں بھائی بہن، چچا، پھوپھی وغیرہ سب آگئے۔ شریعت نے اپنے نظام میں خاندان کو جو مرکزی اہمیت دی ہے، اس پر یہ ایک اور دلیل ہے۔ پھر امت کے وہ فرزند ہیں، جو معاش کے سب سے بڑے ظاہری سہارے یعنی شفیق باپ کے سایہ سے محروم ہوچکے ہیں۔ پھر وہ اللہ کے بندے ہیں، جن پر کسی طبعی معذوری کی وجہ سے یا اور کسی خارجی سبب سے معاش کے عام ذریعے بند یا قریبا بند ہوچکے ہیں۔ اور اپنی ضرورتوں کے پوری ہونے کے لیے بیرونی امداد کے محتاج ہیں۔ اور آخر میں وہ عام انسان آتے ہیں، جو اپنے وطن سے علیحدہ ہونے کے باعث عارضی طور پر احتیاج یا تنگدستی میں مبتلا ہیں۔ قریبی اور دور کے حقدار اور ملی رشتہ رکھنے والے سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر کس خوبصورتی سے ایک فریم کے اندر ” فٹ “ ہوگئے۔ مقصود شریعت یہ ہرگز نہیں کہ پڑوس میں ہمارا بھائی بھوک سے تڑپ رہا ہو، اور ہم اس سے بیخبر چندہ لکھوا رہے ہوں چینی ریلیف فنڈ میں ! 788 (اور اس لیے اس کا اجر بھی مل کررہے گا) (آیت) ” خیر “ عام ہے۔ بدنی مالی، بڑی، چھوٹی ہر قسم اور درجہ کی نیکی کو شامل ہے۔ آیت میں تنبیہ ہے کہ گمراہ قوموں نے اپنے دیویوں، دیوتاؤں سے متعلق جو عقیدے گھڑ لیے ہیں، ان پر قیاس کرکے یہ نہ سمجھ لینا کہ اسلام کے خدا کا بھی علم ناقص یا محدود ہے یا جزئیات یا مخفیات پر محیط نہیں۔
Top