Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 13
لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ١ۚ فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓئِكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ
لَوْلَا : کیوں نہ جَآءُوْ : وہ لائے عَلَيْهِ : اس پر بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاِذْ : پس جب لَمْ يَاْتُوْا : وہ نہ لائے بِالشُّهَدَآءِ : گواہ فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک هُمُ الْكٰذِبُوْنَ : وہی جھوٹے
وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں) چار گواہ کیوں نہ لائے ؟ اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں ‘ اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔
(لولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھم الکذبون) (24 : 13) ” یہ افتراء جس نے نہایت ہی بلند مقامات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ‘ پاک ترین لوگوں کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اسے تو اس قدر آسان اور سہل نہ سمجھنا چاہیے تھا۔ بغیر ثبوت کے اس کی اشاعت کیوں ہوئی اور کیوں اس قدر چرچا ہوا۔ کیوں یہ نقل درنقل ہوتی رہی بغیر شہادت کے ۔ اس الزام کے حق میں تو کوئی شہادت نہ تھی لہٰذا سمجھ لینا چاہیے تھا کہ یہ جھوٹ بکا جارہا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔ حقیقت واقعہ کے مطابق جھوٹے ہیں اور اللہ کا فیصلہ اور اللہ کا حکم تو بدلتا نہیں۔ اس لیے یہ ان لوگوں کی اب دائمی صفت ہے جنہوں نے افتراء میں حصہ لیا اور یہ کبھی بھی اس کے نتائج سے بچ کر نکل نہیں سکتے۔ یہ ہیں دو طریقے۔ ایک یہ کہ کسی بھی معاملے کو سب سے پہلے عقل و قیاس کے مفتی کے سامنے پیش کردو۔ خود اپنے قلب و ضمیر میں اس کا فیصلہ کرو۔ اور دوسرا طریقہ ہے قانون ثبوت کا ۔ حادثہ افک میں عام لوگوں نے یہ دونوں طریقے استعمال نہ کیے اور منافقین کی چال میں سب لوگ آگئے۔ پھر بعض اہل ایمان بھی رسول اللہ ﷺ کے ، خلاف چلائی ہوئی اس مہم میں شریک ہوگئے۔ جبکہ یہ ایک عظیم معاملہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ڈراتے ہیں کہ وہ آئندہ محتاط رہیں۔ دوبارہ یہ حرکت نہ کریں۔
Top