Tafseer-e-Majidi - An-Noor : 13
لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ١ۚ فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓئِكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ
لَوْلَا : کیوں نہ جَآءُوْ : وہ لائے عَلَيْهِ : اس پر بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاِذْ : پس جب لَمْ يَاْتُوْا : وہ نہ لائے بِالشُّهَدَآءِ : گواہ فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک هُمُ الْكٰذِبُوْنَ : وہی جھوٹے
اور (یہ کیوں نہ) کہہ دیا کہ یہ تو صریح طوفان بندی ہے،23۔ یہ لوگ اپنے قول پر چارگواہ کیوں نہ لائے سو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو بس یہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہی ہیں،24۔
23۔ قرآن نے یہاں اس ضابطہ کی تعلیم دے دی کہ پہلے مسلمان سے متعلق ہر روایت کے وقت حسن ظن ہی سے کام لیتے رہنا چاہیے۔ تاآنکہ اس کے خلاف کوئی قطعی شہادت اور کافی ثبوت نہ مل جائے، نفی الزام کے لیے صرف عدم ثبوت وعدم شہادت کافی ہے۔ ثبوت عدم، شہادت عدم کی ضرورت ہرگز نہیں۔ یہ تو عام مسئلہ ہوا۔ باقی خود حضرت صدیقہ ؓ کی صفائی میں تو اب شہادت قرآنی مہیا ہوگئی۔ جس سے اونچی کوئی اور شہادت ممکن ہی نہیں۔ اب حضرت صدیقہ ؓ کی عصمت میں شک کرنا قرآن میں شک کرنے کے مرادف ہوگا۔” مطلب یہ کہ اصل امر نزاہت ہے۔ جب تک اس کا یقین رافع نہ ہو اسی کا یقین شرعا واجب ہے۔ لان الیقین لایزول بالشک الا بیقین مثلہ۔ بس اسی بنا پر نزاہت صدیقہ ؓ کا یقین اور قذف کے مقابلہ میں اسی یقین کا اظہار واجب تھا۔ اور یہی یقین ہے جس کا ایسے امور میں عبد مکلف بنایا گیا ہے۔ بس محل افک میں قبل نزول آیات کے صرف عدم ثبوت بالدلیل تھا اور بعد آیات کے البتہ ثبوت عدم بالدلیل متحقق ہوگیا ...... اس وقت یقین اصطلاحی کا مکلف نہیں فرمایا تھا۔ البتہ اب بعد نزول آیات چونکہ اس یقین اصطلاحی کا مبنی کہ ثبوت عدم بالدلیل ہے۔ پایا گیا، اب اس کا بھی مکلف ہے۔ اور اس کا ترک یعنی احتمال مرجوح بھی کفر ہے۔ “ (تھانوی (رح) فقہاء نے کہا ہے کہ گو یہاں صیغہ امر نہیں لیکن کلمہ تمنا امر سے بھی زیادہ مؤکد ہے بس مومن پر لازم ہے کہ جب کسی کی برائی سنے اور شہادت اس پر کافی نہ ہو تو اسے باور نہ کرے اور اپنے بھائی کو بری ہی قرار دیتا رہے۔ ؛ صوفیہ محققین نے کہا کہ اس میں صریح تاکید ہے کہ خبروں میں سخت احتیاط وتحقیق سے کام لینا چاہیے۔ چناچہ اہل اللہ کی عادت ہے کہ بعید سے بعید احتمال سے کام لے کر حسن ظن ہی قائم رکھتے ہیں۔ 24۔ اثبات زنا کے لیے شرط چار گواہوں کی چشم دید شہادت ہے۔ عدم ثبوت خود ہی مرادف ہے۔ قانون شریعت میں، عدم صدق یعنی کذب کے۔ پھر یہاں تو قانون کذب کے علاوہ واقعی کذب بھی موجود تھا۔ اہل افک کا دعوی نہ صرف غیرثابت شدہ تھا بلکہ سرے سے واقعیت کے بھی خلاف تھا۔ (آیت) ” عند اللہ “۔ اللہ کے نزدیک سے مراد ہے شریعت الہی میں یا اللہ کے قانون میں۔ ورنہ اصل علم الہی کو ظاہر ہے کہ کسی بندہ کی شہادت وغیرہ کی کیا حاجت ہے۔ معنی عند اللہ یرید فی حکمہ لا فی علمہ (ابن العربی) عند اللہ اے فی حکمہ (کبیر) اے فی حکمہ وشریعتہ (مدارک) اے فیم محکومون بکذبھم عند اللہ فی ایجاب الحد علیھم (جصاص) فیقتضی ذلک الامر بالحکم بکذبھم فان کان جائزا الا یکونوا صادقین فی الغیب عند اللہ (جصاص) شریعت کے احکام ظاہری کی ناقدری کرنے والے کاش دیکھیں کہ اس آیت میں احکام ظاہری کی بھی کس درجہ اہمیت کا سبق موجود ہے !
Top