Tafseer-e-Madani - An-Noor : 13
لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ١ۚ فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓئِكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ
لَوْلَا : کیوں نہ جَآءُوْ : وہ لائے عَلَيْهِ : اس پر بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاِذْ : پس جب لَمْ يَاْتُوْا : وہ نہ لائے بِالشُّهَدَآءِ : گواہ فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک هُمُ الْكٰذِبُوْنَ : وہی جھوٹے
یہ لوگ اس الزام پر چار گواہ کیوں نہ لائے، پھر جب وہ گواہ نہیں لاسکے تو تو اللہ کے نزدیک یہی ہیں جھوٹے،
22 اپنے الزام پر گواہ نہ پیش کرنے والے جھوٹے ہیں : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جب یہ لوگ اپنے الزام پر حسب ضابطہ چار گواہ نہیں لاسکے تو یہ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ پس جو لوگ اپنی بات پر قانونی گواہی کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے وہی جھوٹے ہیں۔ اس میں ان لوگون کیلئے سخت زجرو توبیخ ہے جنہوں نے اس قصے کو سنتے ہی اسے افتراء و بہتان قرار دینے کی بجائے اس کا آگے چرچا کیا کہ جو شخص ایسے معاملے میں چار گواہ نہیں پیش کرسکے گا وہ قطعی طور پر جھوٹا ہے اگرچہ وہ واقعے کا عینی شاہد ہی کیوں نہ ہو۔ تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کے پاس نہ چار گواہ اور نہ ہی امر واقع کا ذاتی علم و مشاہدہ کہ اصل حقیقت اور واقعہ کے اعتبار سے وہاں ایسی کوئی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی۔ یہ تو سراسر کچھ بدبختوں کا گھڑا اور بنایا ہوا کھلا ایک بہتان عظیم تھا۔ تو پھر اس سے متعلق کسی علم اور مشاہدہ کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا تھا ؟ اور پھر معاملے کا تعلق بھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ۔ ؓ ۔ جیسی عفیفہ اور پاک دامن ہستی سے تھا ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس جو لوگ اپنی بات پر قانونی گواہی کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے وہ سراسر جھوٹے ہیں۔ سو اس بہتان کے بارے میں ایسے لوگوں کی شرعی اور قانونی ذمہ داری یہ تھی کہ یہ اس پر چار گواہ پیش کرتے۔ اور جب یہ لوگ ایسا نہیں کرسکے تو خداوند قدوس کے قانون کی رو سے یہی لوگ جھوٹے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دین حنیف نے اہل ایمان کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے کیسی کیسی عظیم الشان اور حکمتوں بھری پیش بندیاں فرمائی ہیں ۔ فالحمد للہ رب العالمین ۔ پس ہمیشہ انہی حدود اور پیش بندیوں کی پیروی کرنی چاہیے ۔ وباللہ التوفیق -
Top