Fi-Zilal-al-Quran - At-Tahrim : 4
اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا١ۚ وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ
اِنْ تَتُوْبَآ : اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف فَقَدْ صَغَتْ : تو تحقیق کج ہوگئے ۔ جھک پڑے قُلُوْبُكُمَا : تم دونوں کے دل وَاِنْ تَظٰهَرَا : اور اگر تم ایک دوسرے کی مدد کرو گی عَلَيْهِ : آپ کے خلاف فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ : وہ مَوْلٰىهُ : اس کامولا ہے وَجِبْرِيْلُ : اور جبرائیل وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور صالح اہل ایمان وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد ظَهِيْرٌ : مددگار
اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ اور اگر نبی کے مقابلے میں تم نے جتھ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔
اب یہاں انداز کلام حاکیت سے خطاب کی طرف آجاتا ہے ، اور جن دو ازواج نے یہ کام کیا تھا ، ان سے خطاب کیا جاتا ہے۔ گویا بات ان کے سامنے ہورہی ہے۔ ان تتوبا ........................ ذلک ظھیر (66 : 4) ” اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ اور اگر نبی کے مقابلے میں تم نے جتھ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں “۔ آغاز خطاب میں ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ توبہ کریں تاکہ ان کے دل اللہ کی طرف مائل ہوجائیں کیونکہ ان کے دل اللہ سے دور ہوگئے تھے۔ جب یہ دعوت دے دی جاتی ہے تو پھر ان پر ایک خوفناک تنقید کی جاتی ہے۔ نہایت رعب دار آواز میں : اس زبردست تنقید سے معلوم ہوتا ہے کہ حادثہ اور واقعہ جو بھی تھا مگر رسول اللہ کے قلب مبارک پر اس کا گہرا اثر تھا۔ چناچہ اللہ کو اعلان کرنا پڑا کہ اللہ ، ملائکہ اور صالح مومنین اس کے لئے کافی طرفدار ہیں۔ اس اعلان سے ، حضور اکرم ﷺ کا غبار خاطر دور ہوجاتا ہے اور آپ مطمئن ہوجاتے ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ واقعہ جو بھی ہو ، لیکن حضور ﷺ پر اس واقعہ کا گہرا اثر تھا۔ حضور اپنے گھروں میں اس قسم کے ماحول کی توقع نہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کے پڑوسی انصاری نے ، اس واقعہ کی جو رپورٹ دی ، ہ اس قدر خوفناک تھی کہ اس کے قول کے مطابق غسانیوں کے حملے سے بھی بڑی بات ہوگئی ہے۔ غسانیوں کی اس وقت شام پر حکومت تھی۔ اور وہ سلطنت روم کے موالی تھے۔ ان کے ان کے ساتھی دوستی کے معاہدے تھے۔ اس دور میں مدینہ پر غسانیوں کا حملہ آور ہونا بہت خطرناک بات تھی۔ لیکن مسلمانوں کے لئے رسول اللہ کا پریشان اور بےقرار ہونا غسانیوں کے حملے سے بھی بڑی بات تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم کے گھرنے کی سلامتی سب سے بڑی بات تھی۔ اور آپ کا اضطراب لوگوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون کے یہ لوگ معاملات کو کس زاویہ سے دیکھتے تھے۔ جس طرح اس انصاری نے اس واقعہ کو ایک عظیم واقعہ سمجھا۔ اسی طرح اللہ نے بھی اسے سمجھا ان حضرات کی سوچ خدا اور رسول کی سوچ کی سمت اختیار کرچکی تھی۔
Top