Tafseer-e-Mazhari - At-Tahrim : 4
اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا١ۚ وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ
اِنْ تَتُوْبَآ : اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف فَقَدْ صَغَتْ : تو تحقیق کج ہوگئے ۔ جھک پڑے قُلُوْبُكُمَا : تم دونوں کے دل وَاِنْ تَظٰهَرَا : اور اگر تم ایک دوسرے کی مدد کرو گی عَلَيْهِ : آپ کے خلاف فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ : وہ مَوْلٰىهُ : اس کامولا ہے وَجِبْرِيْلُ : اور جبرائیل وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور صالح اہل ایمان وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد ظَهِيْرٌ : مددگار
اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تمہارے دل کج ہوگئے ہیں۔ اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کرو گی تو خدا اور جبریل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوستدار) ہیں۔ اور ان کے علاوہ (اور) فرشتے بھی مددگار ہیں
ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما وان تظھرا علیہ فان اللہ ھو مولہ و جبریل و صالح المومنین والملئ کہ بعد ذلک ظھیر . ” اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو تمہارے لیے بہتر ہوگا) پس بلاشبہ تم دونوں کے دل مائل ہوگئے ہیں اور اگر پیغمبر (کی مرضی) کے خلاف تم باہم تعاون کرتی رہیں تو (یاد رکھو) پیغمبر کا رفیق اللہ ہے جبرئیل ہے اور نیک مسلمان ہیں اور انکے علاوہ فرشتے مددگار ہیں۔ “ اِنْ تَتُوْبَا اِلَی اللہ : حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کو خطاب ہے۔ شروع سورت میں عبید بن عمیر کی جو روایت حضرت عائشہ ؓ سے آئی ہے اور اس روایت کو بخاری و مسلم نے ذکر کیا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ خطاب حضرت حفصہ کو ہے۔ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا : تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں۔ ایک طرف کو جھک گئے ہیں۔ راہ حق پر قائم نہیں رہے کیونکہ تم نے اس بات کو پسند کیا جو رسول اللہ ﷺ کو ناپسند تھی۔ آپ ﷺ نہ ماریہ کو اپنے لیے حرام کرنا چاہتے تھے ‘ نہ اپنے راز کا افشاء آپ کو پسند تھا اور تم کو یہ دونوں باتیں پسند تھیں حالانکہ ہر شخص پر واجب ہے کہ جس بات کو رسول اللہ ﷺ پسند کریں وہ بھی اس بات کو پسند کرے اور جس بات سے رسول اللہ ﷺ کو نفرت ہو ‘ اس بات سے اس کو بھی نفرت ہو۔ فقد ؔ میں فَ تعلیلیہ ہے ‘ دل کی کجی موجب ہے گناہ کی اور گناہ کے بعد توبہ واجب ہے۔ بخاری وغیرہ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے ‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : مجھے حضرت عمر ؓ سے یہ بات دریافت کرنے کی بڑی خواہش تھی کہ رسول اللہ کی وہ دو بیویاں کونسی تھیں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے : اِنْ تَتُوْبَا اِلَی اللہ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا (مگر موقع نہیں ملتا تھا) ایک بار جب حضرت عمر ؓ حج کو گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ حج کو گیا اور (راستہ میں قضائے حاجت کی ضرورت ہوئی اور) آپ ایک طرف کو مڑ گئے۔ میں بھی لوٹا لیے (راستہ چھوڑ کر) آپ کے ساتھ ایک طرف کو مڑ گیا۔ آپ ضرورت پوری کر کے واپس آئے تو میں نے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور اس وقت کہا : امیر المؤمنین ! رسول اللہ ﷺ کی وہ دو بیویاں کونسی تھیں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا : اِنْ تَتُوْبَا اِلَی اللہ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا :” ابن عباس تیرے اوپر تعجب ہے وہ دونوں عائشہ اور حفصہ ؓ تھیں۔ “ پھر حضرت عمر نے پوری سرگزشت بیان کی اور فرمایا : ” میں اور بنی امیّہ بن زید کے قبیلہ کا ایک انصاری جو عوالی مدینہ کا رہنے والا تھا ‘ باہم طے کرچکے تھے کہ باری باری ہم دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہا کریں گے ‘ ایک دن میں ایک دن وہ۔ میری باری کے دن جو وحی نازل ہو یا کوئی دوسرا اہم واقعہ ہو اس کی اطلاع میں اس انصاری کو دوں گا اور اس کی باری کے دن جو کچھ ہو وہ مجھ سے آکر بیان کر دے۔ ہمارا قریش کا گروہ اپنی عورتوں پر غالب رہتا تھا لیکن جب ہم مدینہ میں آئے تو ہم نے ایسے لوگ پائے جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں۔ ہماری عورتیں بھی انصاری عورتوں کی خو اور خصلت سیکھنے لگیں۔ ایک روز میں اپنی عورت پر چلاّیا ‘ اس نے بھی ویسا ہی (چِلاّ کر) جواب دیا۔ مجھے اس کا جواب دینا غیر معمولی معلوم ہوا۔ اس نے کہا : ” آپ کو میرا جواب دینا کیوں ناگوار گزرا ؟ رسول اللہ ﷺ کی بیویاں رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہیں بلکہ بعض عورتیں تو آج دن بھر شام تک حضور ﷺ کو چھوڑے رہی ہیں “ (یعنی حضور ﷺ سے کلام بھی نہیں کیا) ۔ میں یہ بات سن کر گھبرا گیا اور میں نے کہا : نامراد رہے گی جو ایسا کرے گی ‘ اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور جا کر حفصہ ؓ کے پاس اترا اور پوچھا : ” کیا تم میں سے کوئی رسول اللہ ﷺ سے اتنی ناراض ہوتی ہے کہ دن بھر شام تک حضور ﷺ کو چھوڑے رکھتی ہے ؟ “ حفصہ نے کہا : ” ہاں ! “ میں نے کہا : تو ناکام و مراد ہوگی (اگر تو نے ایسی حرکت کی) کیا تجھے ڈر نہیں لگتا کہ رسول اللہ ﷺ کی ناراضی سے اللہ ناراض ہوجائے گا پھر تو تباہ ہوجائے گی۔ (خبردار) رسول اللہ ﷺ سے زیادہ (مصارف) طلب نہ کرنا اور کسی معاملے میں حضور ﷺ کو جواب نہ دینا اور آپ ﷺ کو چھوڑے نہ رہنا (یعنی ترک کلام نہ کرنا) اور جو کچھ تجھے ضرورت ہو مجھ سے مانگ لینا اور تجھے اس بات پر رشک نہ ہونا چاہیے کہ تیری ہمسائی تجھ سے زیادہ چمکیلی اور رسول اللہ ﷺ کو تجھ سے زیادہ پیاری ہے ‘ یعنی حضرت عائشہ ؓ ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اس زمانہ میں ہم باہم تذکرہ کرتے تھے کہ غسانیوں نے ہم سے لڑنے کے لیے اپنے گھوڑوں کی نعل بندی کرائی ہے ‘ ایک روز انصاری (دوست) اپنی باری کے دن (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہا اور) عشاء کے وقت ہمارے پاس لوٹ کر آیا اور آتے ہی میرا دروازہ زور ‘ زور سے پیٹ ڈالا اور پوچھا : کیا عمر ؓ ہے ؟ میں گھبرا کر فوراً باہر نکلا۔ انصاری نے کہا : آج ایک عظیم حادثہ ہوگیا۔ میں نے کہا : کیا ہوا ؟ کیا غسّان (شاہ شام) آگیا ؟ بولا : اس سے بھی بڑا لمبا حادثہ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیبیوں کو طلاق دے دی۔ میں نے کہا : حفصہ ؓ ناکام و نامراد ہوگئی ‘ میرا تو پہلے ہی خیال تھا کہ عنقریب (شاید) ایسا ہوگا ‘ اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور جا کر فجر کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی۔ نماز کے بعد حضور ﷺ اپنے بالا خانے پر تشریف لے گئے اور وہاں سب سے کنارہ کش ہوگئے اور میں حفصہ کے پاس گیا ‘ وہ رو رہی تھی۔ میں نے کہا : اب کیوں روتی ہے ؟ کیا میں نے تجھے پہلے ہی نہیں ڈرا دیا تھا ‘ کیا تم عورتوں کو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی ؟ بولی : مجھے نہیں معلوم کیا وجہ ہے ‘ رسول اللہ ﷺ سب سے الگ بالا خانے پر گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔ میں حفصہ ؓ کے پاس سے نکل کر (مسجد میں) منبر کے پاس پہنچا۔ اس وقت منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے رو رہے تھے۔ میں بھی ان کے پاس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گیا لیکن اندرونی غم کی وجہ سے مجھ سے وہاں زیادہ رکا نہ گیا ‘ فوراً بالا خانے کی طرف آیا ‘ جہاں رسول اللہ ﷺ گوشہ گیر تھے۔ میں نے غلام سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے عمر کے لیے اجازت کی درخواست کرو۔ غلام اندر گیا ‘ رسول اللہ ﷺ سے کچھ بات کی اور پھر واپس آکر غلام نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی تھی اور تمہارا تذکرہ کردیا لیکن حضور ﷺ خاموش رہے۔ مجبوراً میں واپس آکر پھر منبر کے پاس ان لوگوں کے قریب بیٹھ گیا جو وہاں موجود تھے لیکن زیادہ دیر رکا نہ گیا ‘ پھر جا کر اسی غلام سے کہا : میرے لیے داخلہ کی اجازت کی استدعا کرو۔ اس نے اندر جا کر حضور ﷺ سے کچھ کلام کیا اور کچھ دیر کے بعد واپس آگیا اور بولا : میں نے حضور ﷺ سے تمہارے لیے داخلہ کی درخواست کی تھی مگر حضور ﷺ خاموش رہے۔ میں (مایوس ہو کر) لوٹ آیا اور انہی لوگوں میں جا کر بیٹھ گیا جو منبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے لیکن کچھ ہی دیر کے بعد اندرونی احساس کے غلبہ کی وجہ سے اٹھا اور غلام سے جا کر کہا : عمر کے لیے اجازت کی درخواست کرو۔ غلام اندر گیا اور کچھ دیر کے بعد لوٹ کر آیا اور کہا : میں نے تمہارا ذکر کیا لیکن حضور ﷺ خاموش رہے۔ میں نے واپسی کے لیے پشت پھیری ہی تھی کہ اس غلام نے مجھے پکار کر کہا : رسول اللہ ﷺ نے تم کو داخل ہونے کی اجازت دے دی ‘ یہ بات سن کر میں اندر چلا گیا ‘ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ ننگی چٹائی پر استراحت فرما ہیں ‘ جس کی وجہ سے پہلو پر چٹائی کے نشان پڑگئے ہیں اور سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ ہے جس میں کھجور کے درخت کے ریشے بھرے ہوئے ہیں۔ میں نے سلام کیا اور کھڑے کھڑے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا آپ ﷺ نے اپنی بیبیوں کو طلاق دے دی ؟ حضور ﷺ نے میری طرف نظر اٹھائی اور فرمایا : نہیں۔ اللہ اکبر ! رسول اللہ ﷺ سے اپنی جھجک کو دور کرنے کے لیے میں نے کھڑے ہی کھڑے عرض کیا۔ دیکھئے حضور ﷺ ہمارا قریش کا جتھا پہلے اپنی عورتوں پر غالب تھا لیکن مدینہ آنے کے بعد ہم نے ایسے لوگ پائے جن کی عورتیں ان پر غالب ہیں۔ رسول اللہ ﷺ یہ بات سن کر مسکرا دیئے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ملاحظہ فرمائیے میں حفصہ ؓ کے پاس گیا تھا اور میں نے اس سے کہہ دیا کہ تجھے اس بات پر رشک نہ ہونا چاہیے کہ تیری ہمسائی تجھ سے زیادہ چمکیلی اور رسول اللہ ﷺ کی چہیتی ہے ‘ حضور ﷺ یہ بات سن کر دوبارہ مسکرا دیئے۔ حضور ﷺ کو مسکراتے دیکھ کر میں بیٹھ گیا اور نظر اٹھا کر گھر کے اندر کی چیزوں کو دیکھا ‘ خدا کی قسم تین کچے چمڑوں کے علاوہ میں نے کوئی چیز قابل دید نہیں پائی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ اللہ سے دعا کیجئے کہ آپ ﷺ کی امت کو فراخی حاصل ہوجائے۔ روم اور فارس کو اللہ نے فراخ حال کیا ہے اور ان کو دنیا عطا کی ہے باوجودیکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ حضور ﷺ اس وقت تکیہ لگائے ہوئے تھے میری بات سنتے ہی بیٹھ گئے اور فرمایا : ابن خطاب ! کیا تم اس خیال میں ہو ‘ ان لوگوں کو تو اللہ نے ان کی عمدہ (دِل پسند) چیزیں دنیا میں دے دی ہیں (آخرت میں ان کا حصہ نہیں) میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ میرے لیے دعاء مغفرت فرمائیے۔ بس یہی بات تھی کہ حضور ﷺ اپنی بیبیوں سے الگ ہو کر گوشہ نشین ہوگئے تھے کیونکہ حفصہ ؓ نے عائشہ ؓ سے حضور ﷺ کا راز کہہ دیا تھا۔ اللہ نے اپنے رسول ﷺ پر عتاب کیا تھا ‘ اس لیے حضور ﷺ اپنی بیبیوں سے سخت ناراض تھے اور عہد کیا تھا کہ میں ایک ماہ تک ان کے پاس نہیں جاؤں گا۔ چناچہ جب انتیس راتیں گزر گئیں تو سب سے پہلے عائشہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ عائشہ ؓ نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ ﷺ نے تو قسم کھائی تھی کہ ایک مہینہ تک آپ ﷺ ہمارے (یعنی کسی بی بی کے) پاس تشریف نہیں لائیں گے لیکن آج تو انتیس کے بعد کی صبح ہے۔ میں برابر گن رہی ہوں ‘ فرمایا : مہینہ انتیس کا (بھی ہوتا) ہے۔ واقعی وہ مہینہ انتیس کا (ہوا) تھا۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے اس کے بعد آیت تخییر نازل ہوئی۔ نزول آیت کے بعد سب سے پہلے حضور ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور (مجھے نکاح میں باقی رہنے یا آزاد ہوجانے کا اختیار دیا) میں نے حضور ﷺ (کے ساتھ رہنے) کو اختیار کیا پھر دوسری بیبیوں کو یہی اختیار دیا اور سب نے اسی بات کو اختیار ر کیا جو عائشہ ؓ نے اختیار کی تھی (یعنی کیسا ہی فقر و فاقہ ہو کسی بی بی نے حضور ﷺ سے جدا ہونے کو پسند نہیں کیا) بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کہا : میں تجھ سے ایک بات کہتا ہوں بغیر ماں ‘ باپ کے مشورہ کے فوری عجلت میں اس کا جواب دینا تیرے لیے لازم نہیں ہے۔ حضور ﷺ جانتے تھے کہ میرے والدین رسول اللہ ﷺ سے جدا ہونے کا مجھے مشورہ نہیں دیں گے ‘ اس کے بعد حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے : یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن (دونوں آیات کے ختم تک حضور ﷺ نے تلاوت فرمائی) میں نے عرض کیا : اس معاملہ میں والدین سے کیا مشورہ کروں (اس کی کوئی ضرورت نہیں) میں اللہ کو اور اس کے رسول ﷺ کو اور دار آخرت (کی بھلائی) کو چاہتی ہوں۔ یہ حدیث بتارہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو ایک ماہ تک اپنی بیبیوں سے کنارہ کش رہے ‘ اس کا سبب وہی افشاء راز تھا ‘ حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کا راز کہہ دیا تھا۔ لیکن مسلم نے حضرت جابر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ داخلہ کی اجازت مانگنے کے لیے آئے ‘ آپ ؓ نے دیکھا کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اجازت داخلہ کے امیدوار ہیں لیکن کسی کو اجازت نہیں دی گئی۔ حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اجازت دے دی ‘ آپ ؓ اندر چلے گئے کچھ دیر کے بعد حضرت عمر آئے اور اجازت داخلہ کے خواستگار ہوئے ‘ حضور ؓ نے ان کو بھی اجازت دے دی۔ حضرت عمر ؓ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ رسول اللہ غمگین ‘ خاموش بیٹھے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے (اپنے دل میں) کہا : میں کوئی ایسی بات کہوں جس سے رسول اللہ ﷺ کو ہنسی آجائے ‘ چناچہ کہنے لگے : یا رسول اللہ ! 0 ﷺ اگر خارجہ کی بیٹی (یعنی میری بیوی) مجھ سے زیادہ خرچ کی طلبگار ہو تو میں اس کی گردن توڑ دوں گا۔ یہ بات سن کر حضور ﷺ مسکرا دیئے اور فرمایا : تم دیکھ رہے ہو یہ عورتیں میرے اردگرد جمع ہیں اور مجھ سے زیادت مصارف کی طلبگار ہیں ‘ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر ؓ ا ٹھ کر حضرت عائشہ کی طرف بڑھے تاکہ ان کی گردن مروڑ دیں اور حضرت عمر ؓ بھی حضرت حفصہ کی طرف بڑھے اور دونوں حضرات نے (اپنی اپنی بیٹیوں سے) کہہ دیا کہ ہرگز کبھی رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کی طلبگار نہ ہوں جو حضور ﷺ کے پاس نہ ہو ‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اپنی بیبیوں سے ایک ماہ یعنی انتیس رات تک کنارہ کش رہے۔ پھر آیت تخییر نازل ہوئی اور حضور ﷺ سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور آیت تخییر کی تلاوت ان کے سامنے کی۔ حافظ ابن حجر (رح) نے لکھا ہے ‘ یہ ہوسکتا ہے کہ ان تمام واقعات کا مجموعہ بیبیوں سے کنارہ کش ہونے کا سبب ہو ‘ شہد کا قصہ ‘ حضرت ماریہ کا واقعہ ‘ حضرت حفصہ کا حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے راز کا اظہار ‘ بیبیوں کی طرف سے وسعت نفقہ کی درخواست ‘ حضرت زینب کی طرف سے تین بار ہدیہ کا و اپس کرنا اور ہر مرتبہ رسول اللہ ﷺ کا ہدیہ میں اضافہ کرنا جیسا کہ ابن سعد نے بطریق عمرہ بیان کیا ہے۔ یہ تمام واقعات آگے پیچھے ہوتے رہے اور حضور ﷺ ضبط کرتے رہے اور درگزر فرماتے رہے۔ حضور اقدس کے مکارم اخلاق اور بلندئ حوصلہ کا یہی تقاضا تھا کہ جب یہ واقعات پیہم ہوتے رہے۔ آپ ﷺ نے عورتوں سے کنارہ کشی کرلی (مگر طلاق پھر بھی نہیں دی) اور پھر راضی ہوگئے۔ وَاِنْ تَظَاھَرَا عَلَیْہِ : یعنی اگر تم دونوں رسول اللہ ﷺ کے خلاف باہم تعاون کرلو گی اور ایسی بات کرو گی جو رسول اللہ ﷺ کو ناگوار ہے (مثلاً ) توسیع نفقہ کی طلب اور افشاء راز ‘ تو کامیاب نہ ہوگی ‘ ترجمہ کا یہ آخری جملہ شرط کی جزاء ہے اور محذوف ہے۔ فَاِنَّ اللہ : (فَ تعلیلیہ ہے) یہ کامیاب نہ ہونے کی علّت ہے۔ مَوْلٰہُ : اللہ اس کا مددگار ہے اور جبرئیل جو مقرب فرشتوں کا سردار ہے وہ بھی رسول اللہ ﷺ کا رفیق اور مددگار ہے۔ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ : یعنی رسول اللہ ﷺ کے متبعین اور اعوان اور آپ ﷺ کے گردا گرد جمع ہونے والے بھی رسول اللہ ﷺ کے رفیق اور ساتھی ہیں۔ کلبی نے کہا : صالح المؤْمنین سے مراد ہیں مخلص مؤمن جو منافق نہیں ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت ابی بن کعب کا قول مروی ہے کہ صالح المؤْمنین ابوبکر ؓ و عمر ؓ ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت امامہ ؓ نے اس قول کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف بھی کی ہے۔ ابن عمر ‘ ابن عباس اور سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ یہ آیت ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کے حق میں نازل ہوئی۔ مدد تو صرف اللہ ہی کی کافی ہے۔ وہی تنہا مددگار اور ناصر ہے لیکن جبرئیل اور مؤمنین صالحین اور ملائکہ کا ذکر ان سب کی عزت افزائی اور عظمت ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا۔ وَالْمَلآءِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَھِیْرٌ : یعنی اللہ کی ‘ جبرئیل کی اور مؤمنین صالحین کی مدد کے بعد ملائکہ بھی اپنی پوری کثرت کے ساتھ مددگار ہیں۔ آیت میں تینوں کی ترتیب ثابت کر رہی ہے کہ جبرئیل جو خواص ملائکہ میں سے ہیں ‘ عام انسانوں سے یعنی صالح مؤمنوں سے افضل ہیں اور عام انسان صالح مؤمن عام ملائکہ سے افضل ہیں۔ بخاری نے حضرت عمر کی روایت حدیث میں بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ عورتوں کے معاملہ میں آپ ﷺ کے لیے کیا دشواری ہے۔ اگر آپ ﷺ ان کو طلاق دے دیں گے تو (آپ : ﷺ کا کچھ نقصان نہ ہوگا کیونکہ) اللہ آپ ﷺ کے ساتھ ہے اور فرشتے اور جبرئیل و میکائیل اور ابوبکر ؓ اور مؤمن بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے جب کوئی بات کہی تو اللہ سے مجھے امید رہی ہے کہ وہ میری بات کو سچا کر دے گا۔ چناچہ (میرے اس کلام کے بعد) آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top